عالمِ اسلام محوِ خواب

عالمِ اسلام محوِخواب (پروفیسرمظہر) سرگوشیاں
ذلت ومسکنت کے شکار مسلمانوں کے حقوق سلب ہوچکے۔ وہ پنجہئ موجِ درد میں یوں گرفتار کہ اُن کی خواہشیں قتل اور خواب فنا۔ اہلِ شَر محوِعمل اور اہلِ خیر محض دست بہ دُعا۔ 57مسلم ممالک کے لرزہ بَراندام حکمران زمینی خُداؤں کواپنا ملجا وماویٰ قرار دیتے ہوئے۔ قومِ مسلم کایہ عالم کہ عامی عمل سے غافل اور اہلِ ثروت فکرِمال میں غرق، فکرِمآل کسی کو نہیں۔ پھر بھلا کشمیر کی بیٹی کے سَرسے ردا چھِن جانے کاغم کیوں کر اور غزہ کے بے سروساماں معصوموں کے آب ودانہ پرلگی قدغنوں کی فکر کسے؟۔ ہر خوردوکلاں کشتہئ ستم مگر چشمانِ مہر مفقود۔ مانندِگُل شگفتہ رو رزقِ خاک اور اہلِ کبرونخوت کے ہاں زندہ وجود ناپاک۔ اِسی لیے غزہ کاہرگھر، ہرسکول اور ہرہسپتال فرعون زادوں کے نشانے پر لیکن شاید بھول چکے کہ ”جب زمین اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلادی جائے گی اور اپنے اندرکے سارے بوجھ نکال کر باہر ڈال دے گی اور انسان کہے گاکہ یہ اِس کوکیا ہورہا ہے۔ اُس روز وہ اپنے (اوپر گزرے ہوئے) حالات بیان کرے گی کیونکہ تیرے رَب نے اُسے حکم دیا ہوگا۔ پھرجس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اُس کودیکھ لے گا۔ جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی وہ اُس کودیکھ لے گا“ (سورۃ الذلذلہ)۔ یہ وہی دن ہوگا جب پکارنے والا پوچھے گا ”آج بادشاہی کس کی ہے؟ اللہ واحد قہار کی“ (سورۃ غافر آیت 16)۔

اسرائیل نے اقوامِ متحدہ کی ریلیف ایجنسی ”انروا“ پر پابندی لگادی ہے تاکہ غزہ کے معصوموں کاقتلِ عام کیاجا سکے۔ یونیسف کے ترجمان نے کہاکہ انروا کے بغیر غزہ میں جان بچانے والے سامان کی فراہمی جاری نہیں رکھ سکتے۔ سفاک اسرائیلیوں کایہ عمل لازمہئ انسانیت سے تہی وحشی درندوں کا سا۔ غزہ میں ایک انچ زمین بھی محفوظ نہیں رہی پھربھی غزہ کے باسی ڈَٹ کر کھڑے ہیں کیونکہ اُن کا مطلوب ومقصودہی شہادت ہے۔ وہ اسرائیل جسے ناقابلِ تسخیر سمجھا جاتاتھا ایک سال سے زائد عرصہ گزرجانے کے باوجود مٹھی بھر مسلمانوں کوشکست سے دوچار نہیں کرسکا حالانکہ اُسے امریکہ کی بھرپور مدد حاصل ہے۔ حماس کے اسمائیل ہنیہ اور یحییٰ سنوار کے علاوہ حزب اللہ کے حسن نصراللہ نے راہیئ عدم کو لبیک کہا، 42ہزار سے زائد افراد جن میں غالب اکثریت خواتین اور بچوں کی تھی، وہ بھی جہانِ فانی سے کوچ کرگئے۔ حقیقت یہ کہ وہ حیاتِ جاوداں پاگئے۔ فرمادیا گیا”جو اللہ کی راہ میں شہید کیے گئے ہرگز اُنہیں مُردہ خیال نہ کرنابلکہ وہ اپنے رَب کے ہاں زندہ ہیں، اُنہیں رزق دیاجاتا ہے“ (ال عمران 169)۔ لاریب ایک مسلم کے لیے یہی فلاح کی راہ ہے۔

کشمیر میں 27اکتونر 1947ء کو بھارت نے غیرقانونی قبضہ کرلیا۔ تب سے اب تک 2لاکھ سے زائد کشمیری شہید ہوچکے۔ ہزاروں کشمیری خواتین کو اجتماعی زیادتی کانشانہ بنایا گیا۔ وحشی بھارتی درندے خواتین کی عصمت دری کوجنگی ہتھیار کے طورپر استعمال کررہے ہیں۔ 10ہزار سے زائد بے گناہ نوجوانوں کو لاپتہ کیا جاچکا۔ اسرائیل سے درآمدشدہ پیلٹ گنوں سے ہزاروں کشمیری بچے، بوڑھے اور نوجوان اپنی آنکھوں کانور گنوا چکے۔ نوجوان برہان وانی کی شہادت کے بعد قیادت نوجوانوں کے ہاتھ میں آچکی جن کانعرہ ”ابھی یاکبھی نہیں“۔ 2019ء میں گجرات کے بوچر نریندرمودی نے بھارتی آئین میں کشمیر سے متعلق آرٹیکل 370 اور 35-A کا خاتمہ کرکے کشمیرکو بھارت کاحصہ قرار دے دیا۔ اب بھارتی دھڑادھڑ وہاں زمینیں خریدکر مستقل رہائش اختیار کررہے ہیں تاکہ آبادیات کافرق ختم کیاجا سکے۔ 1947ء میں کشمیرکی مسلم آبادی 80فیصد تھی جبکہ آج 60فیصد سے بھی کم۔ اُدھر کشمیرکی بیٹیاں دَرکھولے کسی محمدبِن قاسم کی منتظر ہیں اور اِدھر ہماری جدوجہد کشمیریوں کے حق میں محض جلسوں اور ریلیوں تک محدود۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کوبھی بھارت نے جوتے کی نوک پررکھا ہوا ہے۔

یہ معلوم کہ اِن شکستہ حروف کی کوئی قدرنہ قیمت، محض نقارخانے میں توتی کی آواز مگر حکمِ رَبی مدِنظر کہ ”تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو بھلائی کی طرف بُلائے، نیک کاموں کاحکم دے اور بُرے کاموں سے روکے“ (العمران 104)۔ صاحبانِ فکرونظر کو بہرحال یہ سوچنا ہوگا کہ عالمِ اسلام پریہ دَورِابتلاء کیوں؟۔ بنی اسرائیل رَبِ لم یزل کی پسندیدہ قوم ہواکرتی تھی۔ یہی وہ قوم ہے جس پرمن وسلویٰ جیسی نعمتوں کی بارش ہوئی لیکن اپنی باغیانہ حرکات سے راندہ درگاہ ہوئی۔ اب ذرہ قومِ رسولِ ہاشمی کی تاریخ کی ورق گردانی کریں تواِس کا عروج وزوال عیاں ہوجاتا ہے۔ جب تک اِس قوم نے اپنا قبلہ راست رکھا وہ اوجِ کمال کوچھوتی گئی تب تائیدونصرتِ ربی ہمراہ رہی لیکن جب اللہ سے محض واجبی ساتعلق رکھاتو ذلت وپستی مقدر بنی۔ اب ہمارا اپنے رَب سے تعلق ایک بگڑے بچے کاسا ہے۔ اللہ نے توتنبیہ کردی کہ یہودونصاریٰ اور مشرکین تمہارے دوست نہیں ہوسکتے۔ فرمایا ”اے ایمان والو! تم یہودونصاریٰ کودوست نہ بناؤ یہ توآپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ تم میں سے جوبھی اِن میں سے کسی سے دوستی کرے وہ بیشک اِنہی میں سے ہے۔ ظالموں کو اللہ ہرگز راہِ راست نہیں دکھاتا“ (المائدہ 51)۔ سورۃ العمران آیت 28میں فرمایا ”مومنوں کو چاہیے کہ ایمان والوں کو چھوڑ کر کافروں کواپنا دوست نہ بنائیں اورجو ایسا کرے گاوہ اللہ تعالیٰ کی کسی حمایت میں نہیں، اِلایہ کہ اُن کے شَرسے کسی طرح بچاؤ مقصود ہو“۔ سورۃ البقرہ 120میں تو صراحت سے بیان کردیا گیا ”کبھی خوش نہ ہوں گے آپ سے یہ یہودونصاریٰ جب تک کہ آپ اُن کے مذہب کے پیرونہ بن جائیں“۔ اب اہلِ فکرونظر اور صاحبانِ بصارت وبصیرت سے سوال کہ کہیں ایساتو نہیں کہ نکبت میں گرفتار عالمِ اسلام کی بربادیوں کاسبب یہی ہوکہ ہم خالق ومالکِ کائینات کی بجائے یہودونصاریٰ کی دوستی پر بھروسہ کیے بیٹھے ہوں اور اِسی دوستی کے عشق میں ہم تہذیبِ مغرب کالبادہ اوڑھ کر اتراتے پھرتے ہوں۔ لاریب ہم الحاداور بے دینی پر مبنی تہذیبِ مغرب کے ذہنی وفکری غلام بن چکے۔ اسلام کااپنا ایک تصورِحیات ہے جس میں دین ودنیا الگ نہیں۔ بقول اقبالؒ ”جُداہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی“۔ اُدھر تہذیبِ مغرب نے دین کوانسان کی ذات تک محدود کرکے دنیاسے الگ کردیا جس سے لبرل ازم کی بنیاد پڑی اور ایک مادرپدر آزاد معاشرے نے جنم لیا۔ تہذیبِ مغرب کی بنیاد سماوی تعلیمات پرنہیں بلکہ آزادخیالی، عریانی اور فحاشی پرہے۔ اِسی آزادخیالی کے زیرِاثر جب مشرقی عورت اپنے حقوق کی آڑمیں ”میراجسم، میری مرضی“ جیسے نعرے تخلیق کرتی ہے توہمارے لبرل نہال ہوجاتے ہیں۔ اِن لبرلز اور سیکولرز سے سوال ہے کہ کیا ادیانِ عالم میں سے کسی بھی دین میں انسانی حقوق پراتنا زور دیاگیا ہے جتنا دینِ مبیں میں ہے؟۔ ”پھر تم کہاں سے پھرائے جارہے ہو“ (سورۃ یونس 32)۔

 

Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 893 Articles with 641995 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More