سپریم کورٹ کا کراچی میں
بدامنی پر از خود نوٹس کا فیصلہ جو 16 ستمبر کو محفوظ کیا گیا تھا وہ
جمعرات 6 اکتوبر کو سنادیا گیا۔ ایک سو چھپن صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ
سامنے آنے کے بعد بعض نام نہاد دانشور اور سیاسی رہنما عدالت عظمیٰ پر بڑی
بے باکی سے تنقید کررہے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ اگر یہی فیصلہ سنانا تھا تو
عوامی توقعات کو اتنا اونچا لے جانے کی کیا ضرورت تھی؟ ہم خود ضرورت سے
زیادہ توقعات وابستہ کرلیتے ہیں ۔ یہ درست ہے کہ لوگوں کو انصاف کی ضرورت
ہے مگر عدالتوں کے فیصلے آئین و قانون کی حدود سے باہر تو نہیں ہوسکتے۔ جج
آئین کے تحت ہی فیصلے دے سکتے ہیں۔ کیا یہ کوئی معمولی بات ہے کہ عدالت
عظمیٰ خود کہہ رہی ہے کہ کراچی کے معاملے میں حکومت بالکل ناکام ہوگئی ہے۔
سپریم کورٹ اس سے بڑھ کر اور کیا کہہ سکتی تھی؟ کسی جمہوری ملک میں اگر یہ
عمومی تاثر قائم بھی ہوجائے کہ حکومت ناکام ہوگئی ہے تو جمہوریت کے ضابطہ
اخلاق کے مطابق حکومت مستعفی ہوجاتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں اس کے برعکس ہوتا
ہے۔
سپریم کورٹ نے وفاقی اور صوبائی حکومت کو ہدایت کی کہ کراچی میں شر پسندوں
کے خلاف بلا امتیاز کاروائی کی جائے، شہر قائد کو اسلحے سے پاک اور قبضہ و
لینڈ مافیا کے خلاف موثر قانون سازی کی جائے ۔ عدالت نے شر پسندی کے واقعات
کے دوران متاثر ہونے والے شہریوں کو معاوضے کی ادائیگی کا حکم بھی دیا۔
جبکہ عدالت نے حکومت کو یہ تاکید بھی کی جو جماعتیں آئین کی خلاف ورزی اور
ملکی سالمیت کے خلاف کام کررہی ہیں ان کے خلاف پابندی کا ریفرنس بھیجا جائے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ متحدہ قومی موومنٹ، پیپلزپارٹی، اے این پی، سنی تحریک
اور جماعت اسلامی کوبھتا خوری میں ملوث قرار دیاگیا ہے۔ عدالت کے مطابق کسی
جماعت پر پابندی لگانا ان کا کام نہیں، تاہم اس قسم کے مسائل کا دیگر فورم
پر جائزہ لیا جائے گا۔
سپریم کورٹ نے مذکورہ فیصلہ دے کر گیند حکومت کے کورٹ میں ڈال دی ہے۔ عدالت
نے اپنی آئینی ذمہ داری پوری کردی ہے اب اس خاکے کو بھرنا اور اس پر مکمل
عمل درآمد کرنا حکومت کا کام ہے۔ حکومت نے گزشتہ 3 برسوں کے دوران سپریم
کورٹ کے کسی حکم پر عمل درآمد نہیں کیا یا بالکل ادھورا سا اور نیم دلی سے
کچھ باتوں پر عمل درآمد کیا گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس بارے میں
کس حد تک سنجیدہ ہے۔ اگر اس مرتبہ بھی حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو سرد
خانے میں ڈالنے کی کوشش کی تو ہوسکتا ہے عدالت اس پر ایکشن لے۔ اگرعدالت
عظمیٰ کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہوتا یا جو ادارے اس کی خلاف ورزی کے
مرتکب پائے جائیں ان کے خلاف کارروائی کرنا لازمی ہے تاکہ حکومت پر عدالتوں
کی رٹ قائم ہو۔
بعض راہنمایان قوم توقع لگائے بیٹھے تھے کہ سپریم کورٹ کسی سیاسی جماعت پر
پابندی لگائے گی اور اب جب ان کی توقعات پوری نہیں ہوئیں تو وہ شور مچارہے
ہیں۔ وہ یہ نہیں دیکھ رہے کہ عدالت آرٹیکل 17 کے تحت از خود کسی سیاسی
جماعت پر پابندی نہیں لگاسکتی۔ کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی لگانے کے لیے
وفاقی حکومت کو ہی ریفرنس بھیجنا ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ حکومت خود ان
کی ہمنوا ہے۔ یعنی ہمارا اصل مسئلہ ہی یہ ہے کہ جن کے خلاف کاروائی کرنا ہے
وہی لوگ حکومت میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اب اس صورت حال سے کیسے
نکلا جائے؟ اس کا جواب بہرحال ہمیں تلاش کرنا پڑے گا کیونکہ اگر عدالت کے
موجودہ فیصلے کا حشر بھی سابقہ احکام کی طرح ہوا میں تحلیل کردیا گیا تو
پھر یہ فیصلہ عارضی ثابت ہوگا اور کراچی میں امن و امان کا مسئلہ پھر کھڑا
ہوجائے گا۔ اس کا مستقل حل یہ ہے کہ عدالت نے جن امور کی نشاندہی کی ہے اس
پر حکومت خلوص نیت کے ساتھ عمل درآمد کروائے۔
دوسری جانب متحدہ قومی موومنٹ فیصلے سے ایک رات پہلے حکومت میں دوبارہ شامل
ہوگئی ہے جس کی وجہ سے سندھ اسمبلی میں عملاً اپوزیشن ختم ہوگئی ہے۔
پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کا ایک ماہ کے اندر سندھ اسمبلی کا اجلاس طلب
کرکے نیا بلدیاتی نظام لانے پر اتفاق ہوگیا ہے جبکہ متحدہ کے وزراءکی جانب
سے استعفاءپیش کرنے کے بعد صوبائی حکومت نے متحدہ کے وزراءکے پاس موجود
قلمدانوں میں سے اوقاف، آئی ٹی، دیہی ترقی، کھیل، امور نوجوانان سمیت بعض
دوسرے محکموں کے قلمدان فنکشنل لیگ اور مسلم لیگ ق کے کابینہ میں شامل ہونے
والے وزراءاور مشیروں کو الاٹ کردیے تھے۔ اب ایم کیو ایم کے 13 وزراءمیں سے
تقریباً 11 وزراءکو مختلف محکموں کے قلمدان سونپے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے
لیکن حکمران اتحادی جماعتوں میں وزارتوں پر تنازع کھڑا ہوگیا ہے۔ کیونکہ
فنکشنل لیگ اور مسلم لیگ ق کے صوبائی وزراءاور مشیروں نے ایم کیو ایم کے
وزراءکو الاٹ شدہ 6 محکموں کے قلمدان واپس کرنے سے انکار کردیا ہے۔ صدر
زرداری معاملہ حل کرنے کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ
اتحادی جماعتیں وزارتوں کی بندربانٹ پر کب تک راضی ہوتی ہیں۔
اس سارے قضیے کا ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ تقریباً 3 کروڑ روپے مالیت کی
25 نئی گاڑیوں کی خریداری کے باوجود متحدہ کے وزراءکے لیے نئی گاڑیاں کم
پڑگئی ہیں۔ اس ضمن میں تقریباً ایک کروڑ 40 لاکھ روپے مالیت کی مزید 10
گاڑیاں خریدنے پر غور کیا جارہا ہے۔ جبکہ متحدہ کی واپسی سے صوبائی وزرائ،
مشیروں اور معاونین خصوصی کی تعداد 80 سے تجاوز کرگئی ہے۔ اس سب کا بوجھ
قومی خزانے کو برداشت کرنا پڑے گا۔ حزب اختلاف کی عدم موجودگی میں یہ سب
لوگ مل کر قومی خزانے کا کیا حال کریں گے اور اس کے بدلے عوام کو کیا ملے
گا؟ اصل بات یہ ہے کہ پاکستان میں سیاست اب خدمت نہیں، کاروبار کی حیثیت
اختیار کرچکی ہے۔ ہمارے سیاست دان گزشتہ 63 برسوں سے ملک و قوم کو لوٹ کر
اپنا کاروبار بہترین انداز میں آگے بڑھارہے ہیں۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں
کہ ان کے کرتوتوں کی وجہ سے عوام کی کیا درگت بنتی ہے انہیں اس سے بھی مطلب
نہیں کہ قوم کن بحرانوں کی زد میں ہے۔ انہیں اگر غرض ہے تو بس اس سے کہ ان
کے شاہانہ اخراجات میں کمی نہ کی جائے۔ ملک سیلاب اور ڈینگی وباءکی زد میں
ہو انہیں اپنے بیرونی دوروں سے فرصت نہیں ہوتی۔ ملک و قوم کو لوٹنے کے لیے
یہ سب ایک بار پھر اکٹھے ہوگئے ہیں۔ ان کے مفادات جب ٹکرانے لگتے ہیں تو
پھر جوڑ توڑ میں لگ جاتے ہیں۔ قوم کا کوئی پرسان حال نہیں۔ خدا جانے کب تک
یہ صورت حال جوں کی توں برقرار رہے گی اور کیا کبھی ہمیں بھی نیک و صالح
اور دیانت دار قیادت میسر ہوسکے گی۔ |