کرپشن کے جرم میں سزا کا رواج

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کرپشن یابدعنوانی کسی بھی معاشرے کوپنپنے نہیں دیتی ۔اوراگرکرپشن سرکاری سطح پر ہوتویہ مزید خطرناک ثابت ہوتی ہے۔افسوس سے کہناپڑتاہے کہ ہماری سرکار کے کرتادھرتابذات ِ خود انتہادرجے کی کرپشن کاشکارہیں۔ہماراسب سے بڑاالمیہ یہ ہے کہ بسا اوقات بلکہ اکثر اوقات ہماری سیاست کے بڑے قائدین کی طرف سے کرپشن کے بے تاج بادشاہوں کونہ صرف تحظ فراہم کیاجاتاہے بلکہ ہرممکن حد تک اُن کی کرپشن کوچھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ تمام بڑے چاہے سیاست کے کل پرزے ہوں یابیوروکریسی کے سرکردہ افراد،” محافظین کرپشن “ بن چکے ہیں ۔ملک میں جاری حالیہ” مفاہمت کی سیاست “بھی دراصل محافظین کرپشن کی ایک اصطلاح ہے۔جوانہوں نے ہم عوام کوبے وقوف بنانے کے لئے استعمال کی ہوئی ہے۔حیرانگی کی بات ہے کہ ایک عام چپڑاسی سے لے کر صدر تک سب پرکرپشن کے الزامات ہیں ۔جس پر بھی کرپشن کاالزام لگتاہے وہ زبانی طور پر اس کی تردیدکردیناہی ضروری سمجھتاہے اوربس ! روزانہ ہمارے ملکی اوربیرون ملک اخبارات میں اس طرح کے الزامات چھپتے ہیں اورساتھ ہی اس کی تردید بھی آجاتی ہے ۔ اس طرح کے الزامات پر کوئی عملی کاروائی نہیں کی جاتی ۔یہ ٹھیک ہے کہ تمام الزامات سچ نہیں ہوتے مگران کی تحقیقات کروانے میں کون ساامرمانع ہے ۔اگرالزام غلط ثابت ہو توروز روز کی پریشانی سے جان چھوٹے اوراگرالزام ثابت ہوجائے توذمہ داران کے خلاف کاروائی کی جانی چاہئے۔مگر ہمارے ہاں ایساکوئی رواج ہی نہیں ۔بلکہ ہر کوئی اپنی اپنی بساط یاطاقت کے مطابق کرپشن کررہاہے اوربغیر کسی پریشانی کاسامناکیے کرپشن کررہاہے۔کیونکہ وہ سب جانتے ہیں کہ” رشوت لیتے پکڑے گئے تورشوت دے کر چھوٹ گئے“ کے اصول کے تحت ان کاکام بن ہی جائے گا۔یہ بھی ایک وجہ ہے کہ ہماراملک کرپشن جیسی لعنت سے چھٹکاراپانے میں کامیاب نہیں ہوپارہا۔

دوسری طرف ہمارے پڑوس کے ممالک میں کیاہورہاہے؟ صرف ایک جھلک دیکھ لیجئے ۔دوماہ قبل چائنا کے دوشہروں کے نائب مئیر ز کوکرپشن کے الزام ثابت ہونے پر پھانسی دے دی گئی ۔تفصیلات کے مطابق چائناکے شہروں ہینگڑواورسوزھوکے شہری حکومتوں کے نائب میئرز جن پر کرپشن کاالزام لگااور2008ءمیں یہ الزام ثابت ہوگیا۔اس پر عدالت نے ان دونوں جمہوری روایات کے پاسداروں کوپھانسی کاحکم سنایا۔دونوں نے اعلیٰ عدلیہ میں اپیل دائر کی اورپیپلز سپریم کورٹ نے دونوں کی اپیلیں مسترد کردیں اوران کی سزا پر عمل درآمد کاحکم نامہ جاری کیاجس پر دونوں سابق نائب میئرز کوکرپشن کے جرم میںپھانسی دے دی گئی ۔

بھارت جو ہمارے ساتھ ہی آزاد تھا۔اس نے اپنی آزادی کو کس طرح استعمال کیایہ جاننے کیلئے آ ج کی تازہ خبر ملاحظہ فرمائیں:بھارتی ریاست اترپردیش کی حکمران جماعت بی ایس پی کی وزیراعلیٰ مایاوتی نے کرپشن برداشت نہ کرنے کے عزم کاقابل تقلید مظاہرہ کرتے ہوئے بدھ کواپنے دووزیروں ”رنگ ناتھ مرا“اور”بادشاہ سنگھ“ کوبدعنوانی ،آمدنی کے ظاہرذرائع سے زیادہ اثاثے رکھنے اورزمینوں پرقبضے کے الزامات سامنے آنے پر برطرف کردیاہے۔اوران دونوں وزراءکے خلاف تحقیقات کے لئے کمیٹی تشکیل دینے کااعلان کیاہے۔چند روز قبل بھی انہوں نے اسی طرح کے الزامات کی وجہ سے دووزرائ” اودھال سنگھ یادیو“اور”راجیش ترپیاٹھی“ کوفارغ کیاتھا۔اس طرح کرپشن کے الزامات کے تحت برطرف ہونے والے وزراءکی تعداد چار ہوگئی ہے ۔اترپردیش کی حکومت کی سربراہ نے برطرف ہونے والے وزراءسے کہاہے کہ وہ اپنے اوپر لگنے والے الزامات کاعدالتوں میں سامناکریں اگر وہ عدالتی کاروائی کے بعد بے گناہ ثابت ہوگئے توانہیں بحال کردیاجائے گا۔

مذکورہ بالادونوں واقعات ہمارے پڑوسی ممالک میں رونماہوئے جن کی سرحدیں ہمارے ساتھ ملتی ہیں۔اس سلسلے میں دور کے ممالک ،یورپ وغیر ہ جانے کی قطعاً ضرورت نہیں ۔جہاں آئے روز کسی نہ کسی ملک کی خبر شائع ہوتی ہے کہ وہاں کے کسی اہم عہدیدارپرکرپشن کاالزام لگتاہے تووہ فوری طور پر اپنے عہدے سے مستعفی ہوجاتاہے ۔اپنے اوپر لگنے والے الزام کاکورٹ ٹرائیل فیس کرنے کے بعد جب تک وہ لوگ الزام سے بری نہیں ہوجاتے چین سے نہیں بیٹھتے ۔ساری دنیاکے ممالک سے ایسی بے شمار مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ماضی قریب میں بھارت ہی کے ایک وزیردفاع چارہ سکینڈل کیس میں مورد الزام ٹھہرے توانہوںنے مستعفی ہوکر عدالت میں اپنی بے گناہی ثابت کی ۔بعدازاں انہیں ان کے عہدے پربحال کردیاگیا۔

مگر اس کے برعکس ہمارے ہاں کیاہوتاہے؟اس کے لئے مشہورومعروف حج سکینڈل کی ایک مثال کافی ہے۔پچھلے سال عازمین حج کے ساتھ جوکچھ ہوااسے دہرانے کی ضرورت نہیں۔بلکہ صرف یہ بتانامقصود ہے کہ ہماری حکومت نے اپنی مقدوربھرکوشش کی کہ یہ کیس ٹھپ دیاجائے ۔مگر بھلاہوسپریم کورٹ کے چیف صاحب کاجنہوںنے معاملہ سردخانے کی نظرنہ ہونے دیااورسوموٹوایکشن کے ذریعے حکومت کومجبورکردیاکہ وہ اس سلسلے میں کچھ نہ کچھ کاروائی کرے۔حکومت نے حج سکینڈل کیس کس حد تک انویسٹی گیٹ کیاہے اس کااندازہ اس سکینڈل میں زیرعتاب آئے ہوئے سابق وفاقی وزیر کایہ بیان جوانہوں نے بار بار میڈیاکے سامنے دیاکافی ہے۔انہوں نے باربار کہاہے کہ کسی کوبچانے کےلئے مجھے قربانی کابکرابنایاگیاہے۔واقفان حال بتاتے ہیں کہ ہمارے وزیراعظم کے فرزند ارجمند اس کیس کے مین ملزم ہیں مگر چونکہ وہ وزیراعظم کے بیٹے ہیں اس لیے سارانزلہ بے چارے حامد سعید کاظمی پرگرادیاگیاہے۔بہرحال یہ کیس عدالت میں زیر سماعت ہے اس لیے اس کاتذکرہ پھر کبھی سہی ۔غور طلب بات یہ ہے کہ موجودہ سیٹ اپ میں لاتعداد افراد ایسے ہیں جن پر کسی نہ کسی طور کرپشن کانہ صرف الزام ہے بلکہ الزامات ہیں۔ہمارے وزیرداخلہ باقاعدہ طور پر عدالتی سزا یافتہ ہیں۔جنہیںصدر مملکت نے کمالِ شفقت فرماتے ہوئے معاف کردیاہواہے۔اس کے علاوہ کئی وفاقی وزراءاسی طرح کے الزامات کی زد میں ہیں ۔حکومتی اتحادی جماعت ق لیگ جو ایک چھوٹے سے وقفہ کے ساتھ پچھلے آٹھ سال سے اقتدارمیں ہے کی مرکزی قیادت کے صاحبزادے پر بھی کرپشن کاالزام ہے اور وہ آج کل جیل میں ہیں۔ مونس الٰہی کوبچانے کیلئے جس طرح کی کوششیں کی گئیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں بلکہ پوری قوم اچھی طرح جانتی ہے ۔غالب امکان یہی ہے کہ ق لیگ کی پی پی پی حکومت سے ہونے والی انڈرسٹینڈنگ کی سب سے بڑ ی وجہ بھی یہی مونس الٰہی کی کرپشن کاکیس ہے۔کہاجاتاہے کہ مونس الٰہی گینگ نے قومی خزانے کو اربوں روپے کانقصان پہنچایاجس کی وجہ سے سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کے ذریعے اس سکینڈل کی تحقیقات کاحکم دیا۔ہوناتویہ چاہئے تھاکہ ق لیگ کی قیادت اخلاقی جرات کامظاہرہ کرتی اوراپنے اوپرلگنے والے کرپشن کے الزام کی تحقیقات کے لئے خود کوپیش کردیتی ۔مگر شاید اس طرح کی اخلاقی جرات ہمارے سیاسی کلچر کاحصہ نہیں بن سکی ۔جبھی تومونس الٰہی کوحکام کے سامنے پیش کرنے سے پہلے ق لیگ نے حکومت سے ڈیل کی ۔اوریوں مونس الٰہی حکومتی دھوبی گھاٹ پرکرپشن کاالزام دھونے کی غرض سے پیش کردیے گئے ۔اگرسپریم کورٹ آف پاکستان اس معاملہ میں بھی نرمی دکھاتی تواب تک مونس الٰہی صاحب صاف شفاف قراردے دےے جاچکے ہوتے۔ مگر حکومت کی باربار کی لیت ولعل کے باوجود سپریم کورٹ آف پاکستان اس معاملہ پرڈٹی رہی اوربالآخر حکومت کووہ افسر بحال کرناپڑاجو اس معاملہ کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کررہاتھا۔ظاہر ہے کہ عدالت خود توتفتیش کرنہیں سکتی اورظفر قریشی صاحب ریٹائرڈ ہوچکے ہیں لہٰذا کوئی نیاآدمی بطور تفتیشی افسر کے مقررکیاجائے گا۔ ق لیگ اورپی پی پی کے قائدین نے اعلان کردیاہے کہ آئندہ الیکشن دونوںپارٹیاں مل کرلڑیں گی۔اس صورت حال سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ مونس الٰہی بہت جلدحکومتی دھوبی گھاٹ سے صاف شفاف ہوکر برآمد ہوں گے ۔کیونکہ یہ پاکستان ہے اورہمارے ہاں کرپشن کے الزامات توکیاکرپشن ثابت ہونے پر بھی سزادینے کاکوئی رواج نہیں۔ ہمارے خیال کے مطابق پاکستان میں کرپشن بھی دیگر واہیات برائیوں کی طرح فیشن بن چکی ہے۔سوال یہ ہے کہ آخر ہمارے ملک میں کرپشن کوجرم کیوں نہیں سمجھاجاتا؟ہمارے ہاں کرپشن کے جرم میں سزائیں دینے کارواج کیوں نہیں؟کیاہم اخلاقی طور پر بھارتی قوم سے بھی گئے گزرے ہیں؟
Aijaz Ahmed Qasmi
About the Author: Aijaz Ahmed Qasmi Read More Articles by Aijaz Ahmed Qasmi: 5 Articles with 3312 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.