پاکستان کا دِل لاہورجسے باغوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ دہایوں سے اپنی
منفرد پہچان رکھتا ہے ۔ پنجاب کا صوبائی دارالخلافہ اور پاکستان کا آبادی
کے لحاذسے دوسرا بڑا شہر جو پنجاب کی معیشت کا مرکز بھی کہلاتا ہے۔لاہور
پاکستان کا ثقافتی ، تعلیمی اور تاریخی مرکز بھی ہے۔ خواہ روزگار ہو یا
تعلیم، خواہ علاج ہو یا پھر کاروبار لاہور ہر طرح سے اپنی مخصوص پہچان اور
اہمیت رکھتا ہے۔ صوبائی اسمبلی ہو یا پھر وزیر اعلیٰ ہاؤس، گورنر ہاؤس ہو
یا پھر سپریم کورٹ لاہور رجسٹری، پنجاب سیکرٹریٹ ہو یا پھر ہائی کورٹ الغرض
لاہور صحافت، وکالت، طلباء، اساتذہ، کاروباری شخصیات، شعبہ صحت ہر ہر شعبے
کے لئے موزوں ہے۔ پنجاب کے دور دراز علاقو ں حتیٰ کہ دوسرے صوبوں سے لوگ
تعلیم، روزگار، علاج وکاروبار کے لئے شہرِ لاہور کا رُخ کرتے ہیں۔ اِ س وقت
لاہور کی آبادی 1 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے اور آئے روز اس میں مسلسل اضافہ
ہو رہا ہے۔ آج لاہور کی ایئر کوالٹی انڈیکس ناقابلِ یقین تک 1100 سے تجاوز
کر کے واپس آ چکی ہے۔ عوام الناس میں گلے اور سر درد کے علاوہ بخار کے
مسائل مسلسل بڑھ رہے ہیں ۔
بد قسمتی سے حکومت پاکستان اور حکومت پنجاب ابھی تک پاکستان کو موسمیاتی
تبدیلی سے بچانے اور سموگ میں کمی یا خاتمے کے لئے شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم
پلان مرتب نہیں کر سکی۔ میری اطلاعات کے مطابق سینئر صوبائی وزیر مریم
اورنگزیب اور اُنکی وزارت کے تحت چلنے والے محکمہ تحفظ ماحول و موسمیاتی
تبدیلی نے 2030تک ایک"سموگ فری پنجاب" کا روڈ میپ دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے
کہ گزشتہ حکومتوں کی طرح یہ بھی صرف کاغذی کارروائی ہوگی یا کوئی عملی
اقدمات بھی ہوں گے۔سابق نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی کے دورِ اقتدار
میں لاہورمیں محسن سپیڈ کافی بہتر رہی، پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ
مصنوعی بارش سے سموگ میں کمی لائی گئی جبکہ صحت کے شعبے میں خاطر خواہ
اقدامات کئے گئے۔ اُنہی کے دور میں ایک بار استعمال ہونے والے پلاسٹک بیگز
کے نقصانات اور پھر اُ س کی متبادل اشیاء کا شعور عوام کو دیا گیا۔ ایک بار
استعمال ہونے والا پلاسٹک یعنی 75مائکرون سےکم شاپنگ بیگز، کاٹن بڈ،
ڈسپوزایبل کپ چمچ اور گلاس وغیرہ کو تحلیل ہونے میں صدیاں درکار ہوتی ہیں
جوکہ ماحول اور انسانی زندگی کے لئے خطرناک ہے۔الغرض ایکتحقیق کے مطابق
2017میں سموگ کی وجہ سے لاہور میں پروازوں کے آپریشنز ملتوی کئے گئے۔ اس کے
بر عکس 2019میں اُس وقت کے وزیراعظم نے پاکستان میں پہلی مرتبہ ماحولیاتی
آلودگی سے نبردآزما ہونے کے اقدامات کئے اور بلین ٹری منصوبہ کے ساتھ ساتھ
اسلام آباد میں پلاسٹک بیگز پر پابندی کے لئے اقدامات کئے۔ 2020میں کورونا
وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن کی وجہ سےلاہور و گردونواح سموگاور فضائی آلودگی
سے قدرے محفوظ رہا۔ نومبر 2021میں لاہور کے علاقے کوٹ لکھپت میں ایئر
کوالٹی انڈیکس 680تک پہنچ گیا جس سے لوگ نزلہ، زکام، کھانسی اور بخار جیسی
بیماریوں میں مبتلا ہوئے۔
اسی طرح نومبر 2023 میں ایئر کوالٹی انڈیکس 400 تک رہا جوکہ بظاہر2021سے
بہتر ہے مگر انسانی صحت کے لئے مضر ہے۔ بد قسمتی سے اس سال ایئر کوالٹی
کا1000کا عدد کراس کرنا انتہائی خطرناک ہے۔ چھوٹے بچوں، دمہ، دل اور
پھیپھڑوں کی دیگر بیماریوں میں مبتلا افراد کا لاہور میں سانس لینا محال ہو
چکا ہے۔ سموگ اور فضائی آلودگی صرف لاہور تک محدود نہیں رہی بلکہ اب
گوجرانوالہ سے ہوتی ہوئی اسلام آباد کا بھی رُخ کر رہی ہے، اُدھر ملتان تک
فضائی آلودگی و سموگ اپنے پنچے گاڑھ رہی ہے۔اِ س ملک کی بد قسمتی ہے کہ
عوام اور آنے والی نسلوں کامستقبل اور ماحول تباہ و برباد ہو رہا ہے مگر
ہماری اسمبلیاں کو صرف من پسند چیف جسٹس کی تعیناتی اور آرمی ایکٹ میں
ترمیم کے علاوہ اپنی اپنی نوکریوں کی فکر میں ہے۔ اُدھر بانی پی ٹی آئی کو
صرف اپنی سیاست اور پاور پالیٹکس کی فکر ہے۔ حیرانگی کی بات ہے کہ لاہور
میں ایئر کوالٹی انڈیکس انتہائی خطرناک حد بڑھ رہی ہے اور محترمہ وزیر
اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف صاحبہاس مشکل گھڑی میں علاج کے لئے پنجاب کی
عوام کو چھوڑ کر لندن روانہ ہو رہی ہیں ۔ یہ پنجاب کی بد قسمتی ہے کہ میاں
محمد نواز شریف اور اُنکی جماعت دہایوں تک پنجاب پر حکمرانی کے باوجو ایسا
ہسپتال نہیں بنا سکے جہاں وہ اپنا اور اہلِ خانہ کا علاج کروا سکتے۔
سینئرصوبائی وزیر مریم اورنگزیب نے چند دن قبل وزیر اعلیٰ ہاؤس میں پریس
کانفرنس کرتے ہوئے سموگ اور فضائی آلودگی کا مکمل قصور وار بھارت اور وہاں
سے آنے والی ہواؤں کو قرار دے دیا۔ اس سے قبل نگران پنجاب حکومت کے بیانات
ہوں یا پھر گزشتہ حکومتوں کے بیانات کوئی تضادات نظر نہیں آئیں گے۔ سوال یہ
ہے اگر بھارت سے آنے والی ہوا سموگ کا باعث ہے تو پھر بھارتی شہر وں امرتسر
وغیرہ میں سموگ اور ایئر کوالٹی انڈیکس کم کیوں ہے؟ کیا ہم نے فیصلہ کر لیا
ہے کہ ہم ایسے ہی زندگیاں گزاریں گے؟ جب بھی کچھ ہوگا ہم بھارت کو موردِ
الزام ٹھہرا دیں گے؟ کاش مریم اورنگزیب صاحبہ اُسی وزیر اعلیٰ ہاؤس میں
سابق وزیر اعظم کے ہاتھوں سے لگائے گئے درخت کو بھی دیکھ لیں اور پنجاب بھر
بالخصوص لاہور میں شجر کاری مہم چلائیں۔ میرے خیال میں درخت ہی اِ س
ماحولیاتی آلودگی میں کمی لا سکتے ہیں۔ لاہور کا مسلئہ صرف سموگ نہیں بلکہ
فضائی آلودگی بھی ہے۔ آج سے ایک دہائی قبل ٹھوکر نیاز بیگ اور اُدھر
لاہورتا قصور روڈ اور رنگ روڈ کے اطراف میں درخت اور سبزہ تھا۔ مختلف
ڈویلپرز اور ہاؤسنگ سوسائٹیز کے بننے سے درختوں میں کمی آئی اور ظاہر ہے
کاربن ڈائی آکسائڈ کی کھپت میں اضافہ اور آکسیجن کی پیداوار میں کمی آئی۔
اسی طرح فیکٹریوں اور گاڑیوں میں مسلسل اضافے کی وجہ سے بھی لاہور میں
فضائی آلودگی میں اضافہ ہوا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف پنجاب کی
بہتری کے لئے شب و روز کوشش کررہی ہیں مگر کیا ہی خوب ہو کہ فی الوقت فوری
سموگ میں کمی کے لئے لاہور میں مصنوعی بارش کروائی جائے ، دفعہ 144کا نفاذ
کیا جائے، ماسک پہننا لازم ہو،دفاتر کو 50فیصد حاضری(متبادل) سے چلایا جائے
اور کمرشل سرگرمیاں رات 10بجے تک کی جائیں تاکہ فی الووقت فوری فضائی
آلودگی کو 200تک محدود کیا جائے۔صوبائی وزیر اطلاعات عظمی ٰ بخاری صاحبہ
اگر مخالف سیاسی جماعتوں پر تنقید سے بھر چکی ہوں تو کوئی پریس کانفرنس یا
کسی ٹی وی پروگرام میں صرف سموگ اور ماحولیاتی آلودگی میں کمی پر بھی عوام
کو شعور فراہم کر دیں۔ لاہور کو سموگ اور فضائی آلودگی سے محفوظ بنانے کے
لئے ہمیں ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے۔ وہ شہر جہاں پورے صوبے کی
مشینری ہواُسے مثالی شہر ہونا چاہیے۔ کم از کم شہر کی 50فیصد گاڑیوں کو
الیکٹریکل وہیکلز پر مشتمل ہونا چاہیے،پبلک ٹرانسپورٹ کا جدید نظام لانا
ہوگا اور عوام کو ذاتی ٹرانسپورٹ کی بجائے پبلک ٹرنسپورٹ پر منتقل کرنا
ہوگا۔ الغرض فیکٹریوں کو ایمیشن کنٹرول سسٹم،اینٹوں کے بھٹوں کو زگ زیگ
ٹیکنالوجی پر منتقل کرنا ہوگا جس میں فیکٹری و بھٹہ مالکان کو بھی حکومت کا
ساتھ دینا ہوگا۔ اُمید ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف جلد سموگ اور
فضائی آلودگی میں کمی کے لئے لاہور سے آغاز کریں گی۔
|