یک بارکوہ طور پر’’کلیم اللہ‘‘ کے
لقب والے، صاحب تورات حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے خالق اور مالک سے ہم کلام
ہونےکا شرف حاصل کر رہے تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا۔’’یااللہ! جب
آپ خوش ہوتےہیں تو کیا کرتے ہیں‘‘۔ جواب ملا۔’’اے پیارے موسیٰ! جب میںخوش ہوتا
ہوں تو بارش برساتا ہوں‘‘۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے رب رحیم وکریم سے
دوبار عرض کیا۔’’یارب دوجہاں! آپ اگر اس سے بھی زیادہ خوش ہوتے ہیں تو کیا کرتے
ہیں ؟‘‘۔بارگاہِ خدا وندی سے جواب ملا۔’’ اے میرے پیارے موسیٰ! میں جب اس سے
بھی زیادہ خوش ہوتا ہوں تو ’’بیٹیاں‘‘پیدا کرتا ہوں‘‘ تیسری بار پھر حضرت موسیٰ
علیہ السلام نے عرض کیا ۔’’یا اللہ ! جب آپ بہت ہی زیادہ خوش ہوتے ہیں تو پھر
کیا کرتے ہیں ‘‘۔ جواب سے نوازا گیا کہ’’ اے میرے پیارے موسیٰ! جب میں بہت ہی
زیادہ خوش ہوتا ہوں تو مہمان بھیجتا ہوں‘‘۔ ایک دوست کی جانب سے اپنے موبائل
فون پر ملنے والے اسلامی حکایت پر مبنی اس میسج کو پڑھتے ہی میرا دھیان فوراً
ہی بلوچستان میں زندہ دفن کی جانے والی مظلوم بے کس خواتین اور حضرت سچل سرمست
اور حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی کی محبتوں والی سرزمین وادی مہران’’سندھ‘‘ میں
ایک خونخوار کتے کے سامنے ڈالی جانیوالی بے گناہ ’’تسلیم سولنگی‘‘میں آگئیں ۔
درج بالا اسلامی حکایت میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میں جب بہت خوش ہوتا ہوں
تو بیٹیاں پیدا کرتا ہوں ۔ لفظ ’’بیٹی‘‘ کی اس سے بڑھ کر اور کیا عظمت ہوگی ۔اور
ایک ہم ہیں جو مالک کائنات کی اس’’ رحمت والی نعمت ‘‘کی قدر کرنے کی بجائے اسے
پامال کرتے ہوئے ایک لمحے کے لئے بھی ’’خوفِ خدا ‘‘ میں مبتلا نہیں ہوتے۔
ہم کتنے آرام کے ساتھ اپنے جرموں اور کرتوں کی سزاؤں کے بدلے میں ’’کاروکاری‘‘
اور’’ونی‘‘کے نام پر اسے ایسے قربان کردیتے ہیں ،جیسے اس کی وقعت سڑک کنارے پڑے
ہوئے پتھر سے بھی کم ہے۔ یہ کس قدر مقام افسوس ہے کہ اسلام کے نام پر وجود میں
آنیوالے دنیا کے واحد اسلامی ملک ’’پاکستان ‘‘کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے نام
نہاد مسلمان وڈیرے اور جاگیردار بے کس اور بے گناہ خواتین کو زندہ دفن کرنے کے
جاہلانہ اور مجرمانہ فعل پرشرمندہ ہونے کی بجائے ڈھٹائی کے ساتھ اسے ’’قبائلی
روایات‘‘ قراردے کر کہتے ہیں کہ حکومت ان معاملات میں مداخلت نہ کرے۔ یہ تو
ایوانوں میں بیٹھے ہوئےظہور اسلام سے قبل کے دور جاہلیت کی روایات کے امین
جاگیرداروں اور وڈیروں کی سوچ ہے ،ان سے کہیں زیادہ غلیظ سوچوں کا مالک، ماضی
قریب میں بر سر اقتدار رہنے والا’’پرویز مشرف ‘‘نامی ایک روشن خیال ڈکٹیٹر تھا،
جس نے بیرون ملک ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی
خواتین ایسے کام خود کرواتی ہیں تاکہ میڈیا کے ذریعے شہرت حاصل کر کے بیرون ملک
کا ویزہ حاصل کرسکیں۔آج کا دور، جسے میڈیا اور ٹیکنالوجی کا دور کہا جاتا ہے،
یہ میڈیا کی مہربانی ہے کہ وہ ایسے گھناؤنے واقعات کی کھوج لگاتا ہے اور انہیں
منظر عام پر لاکر ان واقعات میں ملوث مکروہ رسم و روایات کے ٹھیکیداروں کے
بدشکل چہرے عوام کے سامنے لاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میڈیا سے وابستہ افراد کو
اپنے فرائض کی انجام دہی میں بعض اوقات جان سے بھی گزر پڑتا ہے۔آج ہم جس قسم کے
حالات اور واقعات سے دوچار ہیں یہ یقیناً اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے سبب ہے ،اللہ
تعالی ٰ کے ناراض ہونے میں کار فرما بہت سےعوامل میں سے ایک سبب یہ بھی ہوسکتا
ہے کہ ہم ایک بار پھر ظہور اسلام سے قبل کے عرب معاشرے کی پائی جانے والی
جاہلانہ رسموں کواپنا کر کفر و ضلالت کی اتھاہ گہرائیوںمیں اتر رہےہیں۔ ابھی
بھی وقت ہے ہم اپنے پروردگار سے اپنی سیاہ کاریوں کی معافی مانگ لیں۔اللہ تعالیٰ
ہم پر رحم فرمائے اور ہمیں ہدایت نصیب کرے۔ آمین |