مسئلہ فلسطین اور قیام اسرائیل کا ایک تاریخی مطالعہ

مسئلہ فلسطین دنیا کا ہے ۔ سب سے قدیم اور پچیدہ مسئلہ ہے ۔ وہ ایسا ایک مسئلہ ہے جس میں مذہب، نسل اور ثقافت کے تمام تر تضاد پوری کی پوری شدت کے ساتھ موجود ہیں۔ 1947ء کے جون کی جنگ میں جس علاقے پر اسرائل نے اپنا قبضہ جمایا تھا اور جس کے بارے میں قیادت فلسطینی کا دعوی ہے کہ یہں تھا کہ مستقبل ہیں اردن کے مغربی مستقبل فلسطینی ریاست ہے اس میں سے ایک علاقہ دریائے اردن کے مغربی کنارے سے اسرائیل کی سرحد تک ہے۔

اس علاقے کا رقبہ چھ ہزار مربع کلوم ہزار مربع کلو میٹر سے کچھ کم ہے۔ اوراس کی آبادی بیس لاکھ ہے ۔ دوسرے علاقے کو غزہ کی مٹی کہتے ہیں۔ یہ اسرائیل کی مغربی سرحد، مصر اور بحرہ روم میں گھیری ہوئی ایک چھوٹی سی بیٹی ہے جس کی آبادی گیارہ لاکھ ہے ۔

خلفائے راشدین کے زمانے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی عہد کی حکمرانی میں یہ علاقہ فتح ہونے کے بعد اگلے ساڑھے چار سو برس تک مسلمانوں کے قبضے میں رہا۔ پھر مختلف عرصوں میں یہ علاقے میں یہ علاقے اسلامی اور عیسانی حکمرانی کی میں ہوئی۔ عملہ میں مسلمانوں نے صلاح الدین ایوبی کی قیادت میں دوبارہ سر زمین قدس پر قبضہ کر لیا۔ پھر اس کے بعد سالوں تک مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان لڑاینہاں ہوتی رہی۔ تو بھی ارضی قدس پر مسلمان کا قبضہ برقرار رہا۔ شاہ میں عثمانی ترکوں نے فلسطین پراور اگلے چارسو برس تک یہ علاقه عثمانی سلطنت کا حصہ رہا ۔

یوں تو یہودیوں میں یہ احساس تھا کہ ان کا اصل وطن فلسطین ہے جہاں انہیں واپس جانا ہے۔ لیکن اس کو ایک باقاعدہ تحریک کی شکل جرمنی کے ایک مشہور دانشور وکیل تھیوڈ رہرزل نے دی جس نے 90 شراء میں صیہونیت کے نام سے یہ شروع کیا گیا تھا ۔

ابتدا میں ایسا خیال بھی تھا کہ دنیا میں کہیں بھی ایسی کوئی جگہ مل جائے جہاں یہودی اس سے رہ سکیں اور اس ضمن میں نظر انتخاب ہو گنڈایرگی۔ تاہم یہودیوں کی اکثریت نے اسے نا منظور کر کے فلسطین ہی کو اپنا مقصد قرار دیا ۔1881ء میں فلسطین میں صرف چوبیس ہزار یہودی تھے ۔ روس میں زاء کے ظلم سے بچنیے کیلئے بہت سے یہودیوں نے روسی چھوڑ کر فلسطین کا رخ کر لیا ۔ چناچہ 1914ء میں فلسطین میں عباس ہزار یہودی آباد تھے جب کہ وہاں فلسطینیوں کی تعد اد جو لاکھ تھی اور اس وقت فلسطین عثمانیوں کی حکومت کا ایک حصہ تھی ۔ اس وقت بین الاقوامی صور تحال یہ تھی کہ جنگ عظیم اول کی شروعات یورپ میں ہو رہی تھی ۔ 1914ء میں ایک عظیم جنگ چھیڑی گئی تو ترکی نے بلا ضرورت اس میں جرمنی کا ساتھ دیا۔ اور روسی بندرگاہ ہوں پر حملہ کر کے اپنی طرف سے جنگ کی ابتدار کر دی۔ چناچہ برطانیہ اور اسکی اتحادی افواج ترکی مقبوضات جن میں فلسطین بھی شامل تھا ۔ کو اپنا نشانہ بنالیا ۔ عالم عرب میں تو ترکوں کا حاکمانہ رویہ تھا اور جگہ جگہ بغاوتیں پھوٹتی رہی۔ ترک تو انتہائی بے رحمی کے ساتھ مختلف بغاوتوں کو کچلتے رہے ۔ چناچہ پورے عالم عرب میں بلحاظ مجموعی ترکوں کے خلاف نفرت کی ایسی فضا پیدا ہوگئی ۔ کہ وہ ترکوں کی خلاف ہر طاقت کا خیر مقدم کرنے کیلئے تیار تھے۔ پہلی جنگ عظیم میں ترکی کو شکست دینے کے لئے برطانیہ ایک منصوبہ بنایا ۔ اس کے سلسلے میں برطانیہ نے ایک طرف دنیا بھر کے جمہودیوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی اور دوسری طرف ان عرب طاقتوں کی حمایت کیا جو ترکوں سے بر سر پیکار تھے ۔ اس طرح برطانیوں حکومت کی طرف سے یہودیوں کو یہ وعدہ بھی ملا کہ جنگ عظیم میں کامیابی کی صورت میں فلسطین میں یہودیوں کا ایک قدمی وطن قائم کیا جائیگا ۔ چناچہ نومبر 2011 میں برطانیہ وزیر خارجہ لارڈیا لفوز نے ایک خفیہ خط کے ذریعہ سے یہ وعدہ کر لیا۔ اس کو عرب عام میں اعلان بالفور کہا جاتا ہے۔

دوسرے پہلوں میں برطانیہ نے جنگ عظیم کے دوران میں حاکم حجاز شریف حسین سے یہ پیش کش کی بھی کہ اگر وہ بغاوت کر کے عثمانی حکومت سے اپنی آزادی کا اعلان کرلے تو برطانوی حکومت اس کی حمایت کرے گی۔ شریف حسین نے ہی کیا اور ترکی حکومت کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ۔ اور عجیب بات تو یہ تھی کہ 24 اکتوبر 1915ء کو مصر میں بر طانوی پا‏ئی کمشز سر بندی مک موہن نے شریف حسین کے نام کے ایک خطہ میں تمام عرب آبادی کی آزادی کا وعدہ کیا تھا جزشاہ کے چند مغربی اضلاع کے ہیں وہ بات ہے جس کی بنیاد پر برطانیہ یہ دعوی کرتا ہے کہ اس نے اسرائیل کے قیام کیلئے اپنے ممکنہ عزم کو بھی خفیہ نہیں رکھا ۔ تاہم اس کے بعد برطانیہ اور فرانس نے مئی 1914ء میں ایک خفیہ معاہدہ کیا جس کو سائی کسی ہائی کورٹ معاہدہ کہا جاتا ہے۔ جس کے مطابق جنگ کے بعد لبنان اور شام فرانس کو ملنا تھا

اور عراق، اردن اور فلسطین برطانیہ کو ۔ ادھر یہ حال تھا اور ادھر عرب انگریزوں کے گن گا رہے تھے۔

1917ء میں جب برطانوی افواج یروشلم پہنچیں تو یروشلم کے تمام شہریوں نے شہر سے باہر آکر ان کا والہانہ استقبال کیا ۔ حالہ کی اس وقت تک برطانیہ کے یہودیوں کہے گئے تمام وعدہ سامنے آچکے تھے۔ اگلے تیس برس فلسطین میں یہودی آباد کاری کے برطانیہ نے جائز و ناجائز ہتھکنڈوں سے کام لیا آہستہ آہستہ یہودیوں کی آبادی کافی لڑکی تو وہاں کے مسلمانوں کو ہوش آیا اور ۱۹۳۶ء سے لے کر 10 تک فلسطینیوں نے برطانوی حکومت کے خلاف بغاوت کی مگر برطانوی اور یہودی نے اکھٹے ہو کر بغاوت کو کچل دیا ۔ ساری دنیا سے یہودی اپنے مستقبل قومی وطن کی خواہش میں فلسطین میں آتے گئے دوسری. ، جنگ عظیم کے دوران حرم کے سے پناہ مانگ کر آنے والوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا۔ 1947ء میں یعنی اسرائیل کے قیام کے وقت وہاں سات لاکھ اٹھاون ہزار یہودی بس گئے تھے۔ جب برطانیہ نے دیکھا کہ اب وہاں ایک یہودی وطن بن سکتا ہے تو اس نے اس پورے علاقے کو اقوام متحدہ کے حوالے کر دیا ۔ اس وقت صورتحال یہ بنی کہ امریکہ اور روس سمیت تمام طاقتور ممالک اسرائیل کے حامی تھے۔ چناچہ نومبر1947ء اقوام متحدہ نے ایک قرار داد کے ذریعہ سے فلسطین کو دو حصہ میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا ۔ کل رقبے کا 56 فیصد اسرائیل کو دیا گیا حالانکہ یہودی کی آبادی اس وقت کل آبادی کی ایک نہاتی تھی اور فلسطینی ریاست کو جو ایس (44) فیصد دیا گیا حالانکہ فلسطینوں کی آبادی دو تہائی تھی۔ یہ صریحا ایک ناجائز تقسیم تھی ۔ چناچہ فلسطینیوں اور ارد گرد کی ممالک نے اسے ماننے سے انکار کر دیا۔

مگر ان ممالک اور فلسطین کے مسلمانوں کا یہ انکارا نہ موقف سے کوئی فائدہ نہ ہوا ۔ آخر کار 14 منی 1948ء کو آخری برطانوی رحمت کے رخصت ہوتے ہیں اسرائیل نے اپنی آزادی کا اعلان کر دیا ۔ لیکن فلسطین نے اپنی آزادی کا اعلان نہیں کیا۔ حالانکہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ فلسطینی اپنی 44 فیصد زمین پر آزادی کا اعلان کرتے اور بقیہ زمین حاصل کرنے کیلئے جد وجہد کرتے ۔ اس کے بجائے ارد گرد کے چار عرب ممالک شام، اردن، مصر اور عراق نے مل کر اسرائیل کے خلاف اعلان جنگ کر لیا ۔ یہ تمام افواج بہت کمزور یتیم تربیت یافتہ اور اموال کے لحاظ سے انتہائی پست تھیں چنانچہ انکو شکست فاش ہوئی اسرائیل نے مزید علاقے پر قبضہ کر لیا تھا ان وقعات کے بعد فلسطین اور اسرائیل کے درمیان حالات پوری طرح جھگڑے اور سوال سے بھری ہوئے تھے۔ اقوام متحدہ اور امریکی اور برطانوی حکومتیں اس مسلے میں اکثر اسرائیل کی طرفداری کرتی رہی ہیں گزشتہ پچّاس یا ساٹھ سالوں کے دوران سر زمین فلسطین میں خود کشا نہ حملے اور بغاوتیں لگاتار، واقع ہوتی ہیں۔ اسرائیل میں درحقیقت ایسی خوبی زیاد تیوں کے باوجود بھی اس مسلے کو حل کرنے کیلئے عالمی سطح پر کوئی مخلصانہ منصوبہ یا کوششیں اور سرگر میاں نہیں ہو جا ئیں تب تک سرز میں فلسطین کی آنکھوں سے معصوم مسلمانوں کا خون آمیز آنسو بہتا رہے گا ۔۔

Ansari Gulam Raza
About the Author: Ansari Gulam Raza Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.