جان لیوا لمحے

14 اگست 1947 کو جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا اس وقت عالمِ اسلام پر نزاع کا عالم تھا۔ ساری اسلامی دنیا یا تو برطانیہ ، فرانس اور دوسرے مغربی ممالک کی غلام تھی یا اس میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ پاکستان کی مدد کےلئے آگے بڑھ سکتی۔پہلی جنگِ عظیم کے بعد عثمانیہ سلطنت اپنا وقار کھو چکی تھی دوسری جنگِ عظیم کے بعد اس کے حصے بحرے کر کے بہت سے چھوٹے چھوٹے ممالک اس عظیم سلطنت میں سے تخلیق کئے گئے تھے۔ استعماری قوتوں نے علا قا ئی پہچان اور فخر کو ایک دفعہ پھر اپنے مکروہ عزا ئم کی تکمیل کے لئے استعمال کیاتھا تا کہ اسلام کے اتحاد اور اس کی قوت کو منتشر کر کے اسے کمزور کر دیا جائے۔ دنیا ہمیشہ سے اسلام کے ماننے والوں کی قوت اور ان کے جذبوں سے خوف ز دہ رہی ہے لہذا ان کی پہلی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ مسلمانوں کے اندر انتشارو افتراق کی ہوا دی جائے تا کہ یہ قوم باہمی سر پھٹول، جنگ وجدل اور کشت و خون کی وجہ سے اپنے اندر ہی الجھی رہے ،دنیا کی سرفرازی سے محروم رہے اور اس پر ترقی کے دروازے کبھی بھی نہ کھل سکیں۔ انہی مقا صد کے حصول کی خاطر امریکہ اور یورپی اقوام نے اسلامی دنیا میں تقسیم کی لکیریں نئے سرے سے کھینچ کر نئے ممالک کے قیام کے منصوبے پر عمل درآمد کر کے اسلامی دنیا کے اتحاد اور قوت کو پارہ پارہ کر دیا۔مشرقِ وسطی کے اکثر ممالک دوسری جنگِ عظیم کا تحفہ ہیں اور ان کی قیادتیں استعماری قوتوں کی حاشیہ بردار ہیں جن کا وا حد مقصد بڑ ی طاقتوں کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ افغانستان ایک خود مختار ملک تھا لیکن اس کی مالی حالت انتہائی خستہ تھی اور اس سے مالی معاملات کی درستگی کی امید رکھنا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں تھا۔ ایران اس وقت ایک آزاد اور خوشحال ملک تھالیکن وہ امریکی اشاروں کی زبان سمجھتا تھا اور ا مریکی لے پر رقص کرتا تھا۔ ایران مشرقِ وسطی میں امریکہ کا بغلی بچہ تھا جس کا واحد مقصد امریکی مفادات کا تحفظ کرنا اور اس کے اشاروں پر ناچنا تھا۔ امریکہ کی طرف سے ایران کو پاکستانی امداد کا کوئی اشارہ موصول نہیں ہوا تھا لہذا ایران کی جانب سے پاکستانی معاملات کی بہتری اور درستگی کا کوئی امکان نہیں تھا۔ جس زمانے میں پاکستان آزاد ہوا تھا اس وقت عربوں کے تیل کے خزانے وہم و گمان و خیال کی سرحدوں سے بہت ماورا تھے ۔ نہ تیل کی دولت تھی ، نہ زراعت کی دولت تھی۔ عر بستان میں فقط ریت ہی ریت تھی اور ریت کے ذروں میں گرفتار افلاس کی زد میں بے بس مجبور عرب قوم تھی جس کا دنیا میں کوئی مقام اور حیثیت نہیں تھی ۔ اگر میں یہ کہوں کہ اس وقت کے عرب ہندوستان کی مسلم ریاستوں سے وظیفے وصول کیا کرتے تھے تو زیادہ مناسب ہو گا ۔ عربوں کی موجودہ تیل کی دولت قدرت کا ایسا انمول عطیہ ہے جس پر عرب ربِ ذولجلال کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔ انھیں چائیے کہ خدا کی عطا کردہ اس بلا معاوضہ عطا شدہ دولت کو مسلم امہ کی بہتری اور ترقی پر صرف کریں تا کہ اسلام بحیثیتِ دین دنیا پر اپنی گرفت مضبوط کر سکے اور انسا نی فلاح کے اس مفہوم سے دنیا کو آشنا کر سکے جو اسلام کی حقیقی روح ہے۔۔

میں جس دور کی بات کر رہا ہوں اس دور میں امریکہ واحد سپر پاور تھا کیونکہ وہ دوسری جنگِ عظیم کا حقیقی فاتح تھا۔سارا یورپ اس کا احسان مند تھا کہ اس نے ہٹلر اور مسولینی جیسے فاشسٹ ڈکٹیٹروں سے انھیں نجات دلانے میں کلیدی رول ادا کیا تھا ۔چانسلر روڈلف ہٹلر نے تو اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کی خاطر پورے یورپ کو تاراج کر کے رکھ دیا تھا اور ساری یورپی اقوام کو اپنا غلام بنانے کے جنون کا شکار تھا ۔اس نے عہد کر ر کھا تھا کہ وہ یورپ کو اپنا مطیع اور غلام بنا کر دم لے گا۔اپنے عزائم کی تکمیل کی خا طر اس نے قتل و غارت گری کا ایسا بازار گرم کر رکھا تھا جس سے بڑی بڑی طاقتور اقوام بھی پناہ مانگتی تھیں۔ اس نے چند چھوٹی چھوٹی یورپی اقوام پر چند گھنٹوں میں قبضہ کر کے ہر طرف اپنی دھشت اور دھاک بٹھا رکھی تھی۔حد تو یہ ہے کہ پولینڈ اور فرانس جیسے بڑے ممالک بھی اس کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہو ئے تھے۔ روس پر اس کی جارحیت اور لینن گراڈ تک اس کی فتوحات نے اسے مست ہاتھی کا روپ عطا کر رکھا تھا جو اپنے قدموں تلے سب کو روندھ دینا چاہتا تھا۔ برطانیہ واحد ملک تھا جو ہٹلر کی جارحیت کے سامنے ڈٹا ہوا تھا۔ چین کو ابھی آزاد ہونا تھا۔ چین چیانگ کائی شیک کے آہنی پنجوں میں جکڑا ہوا تھا اور چینی عوام ماﺅ زے تنگ کی قیادت میں اپنی آزادی کی جنگ میں مصروف تھے۔ جاپان کے دو شہروں ناگا ساکی اور ہیرو شیما پر امریکی بمباری نے جاپانیوں کو تہس نہس کر کے رکھ دیا تھا۔ جاپان کی مثال ایک ایک ایسے بھوسے کی مانند تھی جس کے اندر سے اناج نکال کر اسے پھینک دیا گیا تھا،جاپان بالکل بے بس اور شکست خوردہ تھا اور اپنے جسم سے رستا ہوا لہو چاٹ رہا تھا۔برطانیہ طویل عالمی جنگ سے سخت نڈ ھال ہو چکا تھا اور اس کی معیشت تبا ہ و بردباد ہو کر ہ گئی تھی۔ دوسری عالمی جنگ کی فاتح قوم ہونے کی جہت سے عالمی قیا دت کی شمع امریکہ کے ہاتھوں میں تھی اور اسے ہی دنیا کے مقدر کے فیصلے کرنے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ قائدِ اعظم محمد علی جناح امریکہ کی جانب دیکھ رہے تھے تا کہ امریکی حمائت سے پاکستان کے وجود کو لاحق خطرات سے بہتر انداز میں نبرد آزما ہوا جا سکے اور معاشی ترقی کی جانب پیشقدمی کو یقینی بنا یا جا سکے۔ ہمیں اس چیز کو کبھی بھی نہیں بھولنا چائیے کہ امریکہ سے تعلقات کا فیصلہ قائدِ اعظم محمد علی جناح نے بڑے غورو عوض کے بعد کیا تھااور قائدِ اعظم محمد علی جناح کے فیصلے جذباتی اور سطحی فیصلے نہیں ہوتے تھے بلکہ وہ سارے اہم فیصلے بڑے سوچ و بچار کے بعد کیا کرتے تھے جو بڑے دور رس نتائج کے حامل ہوا کرتے تھے ۔

بھارت نے تقسیمِ ہند کے وقت قتل و غارت گری کا جو بازار گرم کیا تھا اس نے قائدِ اعظم محمد علی جناح کو اندر سے توڑ کر ر کھ دیا تھا۔وہ پاکستان کو مضبوط اور طاقتور دیکھنا چاہتے تھے تاکہ پاکستان بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دے سکے۔ قائدِ اعظم محمد علی جناح کی سوانح عمری کا مصنف لکھتا ہے کہ مہاجرین کی بے رحمانہ قتل و غارت گری اور غیر مسلموں کے ہاتھوں مسلم خواتین کی عصمت دھری کی وارداتوں کی وجہ سے قائدِ اعظم محمد علی جناح اپنی برداشت کی حدوں سے گزر گئے تھے ۔یہ واحد مو قع تھا جب قائدِ اعظم محمد علی جناح اپنے آنسوﺅ ں کو ضبط نہیں کر پائے تھے ۔ اپنی ماﺅں بہنوں اور بیٹیوں کے قتلِ عام کو کون ہے جو برداشت کر سکتا ہے اور قائدِ اعظم محمد علی جناح کو ایک انسان ہونے کے ناطے اس سے استثناءحاصل نہیں تھا۔وہ بھی اس درد کو سہتے سہتے آخرِ کار اس مقام تک آپہنچے تھے جہاں پر برداشت کی ساری حدیں جواب دے جاتی ہیں اور انسان کا دردآنسو بن کر ٹپک پڑتا ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ جب قائدِ اعظم محمد علی جناح جیساپہاڑ کا عزم رکھنے والا انسان برداشت کا مادہ کھو دیتا ہے تو پھر سمجھ لینا چائیے کہ ظلم اپنی ساری حدودسے تجاوز کر گیا ہو گا۔میرا یقین ہے کہ جب قائدِ اعظم محمد علی جناح جیسا کوہ آسا عزم کا پیکر رویا ہو گا تو اس کے ساتھ آسمان بھی رویا ہو گا کیونکہ جب قائدِ اعظم محمد علی جناح جیسا سچا کھرا اور بے داغ انسان روتا ہے تو آسمانوں کے لئے اس کا ساتھ دینا ضر وری ہو جاتا ہے۔

بھا رتی حکومت کی اس سفاکیت اورا نسانیت کے اس قتلَ عام پر کسی ملک نے پاکستان کے ساتھ اظہارِ یکجہتی نہ کیا۔ کسی نے پاکستان کو دلاسہ دینے کی کوشش نہ کی ، اس کے آنسو ﺅں کو پو نچھنے کے لئے کوئی آگے نہ بڑھا۔ کاش کوئی آگے بڑھ کر اس نوزائیدہ قوم کے آنسوﺅں میں اپنے آنسو شامل کر کے انھیں دلاسہ دیتا ۔بھارت کا جگری دوست اور بہی خواہ روس تو اس تماشے میں اس کے ساتھ تھا اور اسے تھپکی دے ہا تھا کہ پاکستان کے خلاف تم جو معاندانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہے ہم اس میں تمھارے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ کیا پاکستانی قوم کا حافظہ اتنا کمزور ہے کہ اسے یاد نہیں رہا کہ یہ وہی روس تھا جس نے کشمیر کے مسئلے پر لگا تار کئی بار ویٹو کر کے ا نسانی قتلِ عام کا جواز مہایا کیا تھا۔اگر روس قدرے انصاف پسندی کا مظا ہرہ کرتا تو شائد کشمیر کا مسئلہ کب کا حل ہو گیا ہوتا اور کشمیر میں خون کی جو ہولی کھیلی جا رہی ہے وہ کب کی بند ہو گئی ہوتی لیکن روس نے تو انسانیت کے ساے تقاضے اور ضابطے بالائے طاق رکھتے ہوئے بھارت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر رکھا تھا جس کی قیمت کشمیری پچھلے 64 سال سے اپنے لہو سے چکا رہے ہیں لیکن آزادی کی وہ سحر کہیں نظر نہیں آرہی جس کا خواب ہر کشمیری نے اپنی آنکھوں میں سجا رکھا ہے۔

عز یزانِ من بڑے جان لیوا تھے وہ دن پاکستان چاروں طرف سے مصائب میں گرا ہو تھا اور اسے اس سے نکلنے کی کو ئی راہ سجھائی نہیں دے رہی تھی ۔ بھارت کی ھٹ دھرمی اور مالی مشکلات کی شدت پاکستان کی ترقی میں حائل تھی۔ایک طرف تو اندرونِ خانہ یہ صو رتِ حال تھی اور دوسری طرف بھارت اور روس میں دوستی دن بدن مضبوط سے مضبوط تر ہو رہی تھی اور وہ پور ے جنو بی ایشیا کو اپنے زیرِ نگیں ر کھنے کے منصوبے بنا رہے تھے۔ روس اور امریکہ میں اس زمانے میں غیر اعلانہ جنگ جا ری تھی اور دونوں اپنی اپنی حاکمیت اور بر تری کی جنگ میں سب کچھ جھونک رہے تھے۔ بھارت ان تاریخی لمحوں میں روس کے ساتھ کھڑا تھا اور اس کی اشیرواد سے پاکستان کو سبق سکھا نے کا منصوبہ بنا رہا تھا ۔ ثقاستی انقلاب کے بعد چین کے بھی بھارت کے ساتھ بڑے دو ستا نہ مراسم قائم ہو چکے تھے اور ہند چینی بھا ئی بھا ئی کے نعرے ہر سو سنا ئی دیتے تھے۔ پاکستان اس ساری صورتِ حال میں بالکل تنہا کھڑا تھا اور کسی ایسے دوست کی تلاش میں تھا جو اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے شاہراہِ حیات پر چلنے کا حوصلہ دیتا۔ ایسی غیر یقینی صورتِ حال میں پاکستان کی نظریں بے اختیار امریکہ کی جانب اٹھ رہی تھیں کہ وہ اس کی سلامتی اور ترقی کے لئے اپنا رول ادا کرے۔ ۔۔۔۔

پاکستان کی زبردست سفارتی کوششوں کی بدولت امریکہ نے پاکستان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا ۔ امریکی امداد کا یہ فیصلہ ا س خطے میں پاکستان کے مستقبل کی کامیابیوں کی نوید تھا ۔اس کی مثال اند ھیروں میں روشنی کی ایک ایسی کرن سے دی جاسکتی ہے جس نے ہماری راہ میں حائل ساری رکاو ٹوں کی نشاندہی بھی کی اور پھر ان سارے کا نٹوں کو یکلخت دور کرنے میں ہماری دست گیری بھی کی جو ہمیں آگے بڑھنے سے روک رہے تھے۔امریکہ نے پاکستان کے استحکام اور معاشی ترقی کے لئے فوجی سازو سامان کی ترسیل کے ساتھ ساتھ صنعتی ترقی میں پاکستان کی معاونت کا آغاز کیا تو د یکھتے ہی دیکھتے پاکستان کی کایا پلٹ گئی ۔امریکی امداد کے بل بوتے پر پاکستان کی شرحِ نمود ( گروتھ ریٹ) آٹھ فیصد کی حدوں کو چھو نے لگی ۔ ملک میں صنعتوں کا جال بچھ گیا اور اس کی مالی پوزیشن انتہا ئی مستحکم ہو گئی ۔اس کی افواج جدید اسلحے سے لیس ہو کر بھارت کے لئے ایک چیلنج کی صورت میں دنیا بھر میں اپنی اہمیت اجا گر کر نے لگیں ۔ پا کستان ہر سو اپنی دھاک بٹھا رہا تھا اور اسکی صنعتی ترقی سب کےلئے مثا لی روپ اختیار کئے ہو ئے تھی۔ وہ ملک جس کے پاس اپنے ملازمین کی تنخواہیں دینے کے لئے پیسے نہیں تھے اب بھارت کی آ نکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر رہا تھا
(جاری ہے )،،
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 516422 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.