زندگی نام ہے چلنے کا، کچھ نے اس چلنے سے مراد قدم بڑھانے
کو لے لیا اور کسی نے زبان چلانے کو، کسی نے انٹرنیٹ چلانے کو اور کسی نے
دماغ، القصہ مختصر چلنا ضروری ہے، رک گئے تو کام سے گئے، لیکن لگتا ہے کہ
ہم پاکستانیوں کو سب کچھ چلانے کی تربیت فراہم کی جا رہی ہے کہ خود چل نا
سکو تو موبائل چلاؤ، اس کی سروس نا ہو تو زبان چلاؤ ۔ خیر اب تو چار دن سے
موبائل سروس کی بھی سروس ہونے والی ہے۔
کافی دنوں سے ایک ٹور پلان کر رہا تھا اور یہ پلاننگ مختلف اشخاص کے ساتھ
جاری تھی، یہ ٹور ماہ جون کے آغاز میں ہونا تھا لیکن یہ اگست کے آغاز تک
مختلف وجوہات کی بنا پر تاخیر کا شکار ہوتا چلا گیا، جذبہ کم نہیں ہوا جس
کی بڑی وجہ پیسوں کی عدم موجودگی میں بھی جیب کا قمیض کے ساتھ موجود ہونا
ہے۔ سعد بھائی (حال مقیم کلرکہار) سے پلاننگ چل رہی تھی ان کی شدید خواہش
تھی کہ آزادکشمیر کا ٹور کرنا ہے وہ بھی مجھ ناچیز کے ساتھ، اس خواہش سے
ہماری سیر سپاٹے والی رگ بھی دو چند ہو کے پھڑک اٹھی اور ایک طویل ڈسکس اور
روٹ فائنل کرنے کے بعد بالاخر ٹور فائنل ہو ہی گیا۔
موٹر سائیکل کو جنرل چیک اپ کیلئے لے گیا تو پتا چلا کہ موصوف سے استفادہ
کیلئے چین گراری، بیک ٹائر کی تبدیلی ناگزیر ہے، لگے ہاتھوں نئی لائٹس اور
نئے موبائل چارجر کا بھی اضافہ کروا دیا، یوں 5اگست کی شام کو راولپنڈی
پہنچنا طے پایا۔ روانگی والے دن دفتر کے ضروری کام نپٹاتے دن فیصل آباد ہی
ڈھل گیا، سوچا کہ بس پر موٹر سائیکل سمیت پنڈی تک چلاجاتا ہوں لیکن کیا
معلوم تھا کہ یہ مشن بھی جان جوکھوں میں ڈالنے سے کم نہیں۔ رات ساڑھے دس
بجے گھر سے نکلا احسان اور مقصود کو بھی ہمراہ لے لیا کہ مجھے کمپنی فراہم
کریں، پہلے الائیڈ موڑ پھر کمال پور انٹرچینج جا پہنچے، بسیں آ رہی تھیں
اکثر میں موٹر سائیکل کی گنجائش ہی نا تھی، جس میں گنجائش تھی وہ ریٹ کم
کرنے کو تیار نہ تھے، ہم بھی ڈٹے رہے کہ جتنے کا پنڈی تک پیٹرول لگنا ہے
اتنے میں ہی جانا ہے 😊یہ ضد کارگر ثابت ہوئی لیکن رات کا سوا ایک بج گیا،
موٹر سائیکل کو بس کے زیریں خانہ میں لٹایا، خود سیٹ پر براجمان ہوا،
بھائیوں کو الوداع کہا اور جانب پنڈی سفر شروع ہو گیا۔
دن بھر کی تھکاوٹ تھی لیکن جذبہ عروج پر، سفر میں نہ سونے کی عادت نے جلتی
پر تیل کا کام کیا محض بیس یا تیس منٹ آنکھ لگی ہوگی باقی سفر کھڑکی سے
باہر اندھیرے میں گھورتے گزرا، کلر کہار سروس ایریا میں ایک عدد چائے اور
کیک رس سے لطف اٹھا کے واپس سیٹ پر آ بیٹھا، بس نے صبح ساڑھے پانچ بجے فیض
آباد کے میٹرو پل کے نیچے جا اتارا، موٹر سائیکل پر سائڈ شیشے لگائے، ٹینک
بیگ فکس کیا، دوسرے بیگ کو بیک سائڈ پر باندھا، سیفٹی کیلئے احتیاطی تدابیر
اختیار کیں، دوستوں سے رابطہ کیا اور مری روڈ راول ڈیم کے پاس ملنا طے پایا،
جب بائک سٹارٹ کی تو معلوم ہوا کہ وہ فیض آباد جس سے کئی سالوں سے واسطہ پڑ
رہا ہے مسلسل دھرنوں اور سروں کے اوپر سے گزرتے پلوں نے اس کا حلیہ ہی بدل
دیا ہے۔
کچھ دیر پاکستانی معیشت کی طرح سمجھ ہی نہیں آئی کہ میرا رخ کس طرف ہے، ایک
ٹیکسی والے سے راہنمائی لی اس نے دیسی طریقہ بتایا کہ تھوڑا سا ون وے پر
پیچھے جاؤ اور دائیں مڑ کے بائیں ہو جانا، وہی مری روڈ ہے۔ مسافر تھا اس
لیے یہ رسک اٹھایا، محض دو منٹ کی رائیڈ سے مری روڈ پر پہنچ چکا
تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ (جاری ہے)
|