مری روڈ پر سفر شروع ہو چکا تھا۔ اکثر اوقات انجانے میں
ہم سے ایک غلطی ہو جاتی ہے وہ یہ کہ ہم کسی نئے آنے والے کو ایڈریس ایسے
بتا رہے ہوتے جیسے محلہ دار کو بتایا جاتا ہے کہ چاچے رشید دی دکان نالوں
سجے مڑ جائیں تے تایا فقیر دے مکان دے سامنے کھلو جاویں۔ سعد بھائی کسی
مدرسہ کے بورڈ کا بتا رہے تھے اور میں مین مری روڈ پر سکوٹر بھگا رہا تھا۔
آخر طے پایا کہ راول ڈیم کا کنارہ جنرل مشرف کے دور میں لیک ویو پارک بنایا
گیا جو پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا پارک تھا (تب شوق سے دیکھنے آئے تھے
اور سعید ظفر کھچی اور منیر مصطفائی کا سرائیکی زبان میں فی البدیہہ مشاعرہ
سننے کو ملا *وہ تو میرا ہی تھا* اس پر سب نے وہ طبع آزمائی کی کہ فن شاعری
بھی احتیاطاً پراں ہوکے کھڑا تھا) لیک ویو پارک کے سامنے جا کے رکا ہی تھا
کہ دو موٹرسائیکلوں اور چار افراد پر مشتمل قافلہ آن پہنچا۔ سب سے سلام دعا
ہوئی، تعارف بس اتنا کہ ایہہ قاسم وقار صاحب نے تے سانوں کشمیر وکھاون
واسطے گائیڈ نیں، تے ایہہ ساڈے دوست نیں اک سید زبیر شاہ صاحب، اک شانی
بھائی تے اک امجد صاحب، شروع میں اتنا تعاف کافی تھا باقی سب کے تعارف تو
راستے میں ہو ہی جانے تھے کچھ دن تک اک ساتھ جو سفر شروع کر رہے تھے۔
پہلا پڑاؤ بھارہ کہو پیٹرول پمپ پر ہوا۔ بس پر سفر کی وجہ سے موٹر سائیکل
کو نیم خالی ٹینک سے لیکر آیا تھا، یہاں سے پیٹرول فل کروایا اور 2700 روپے
پاکستانی سکہ رائج الوقت ادا کیے اور سفر شروع کر دیا۔ ہلکی بارش نے صبح کا
منظر مزید سہانا کر دیا لیکن اس وقت دل کو دھچکا لگا جب احساس ہوا کہ میری
نظر والی عینک لیک ویو پارک کے پاس والے سٹاپ سے لیکر بھارہ کہو کے درمیان
کہیں سڑک برد ہو گئی، بچاری کی قسمت میں نہیں تھا کشمیر جانا۔ واپس مڑنے کی
بجائے سفر کو ترجیح دی کیونکہ نہیں چاہتا تھا کہ میری وجہ سے میرے دوستوں
کو کسی زحمت کا سامنا کرنا پڑے، ویسے بھی جب سفر پر روانہ ہو گئے تو پھر
آگے کی سوچتے ہیں۔ سفر کا آغازتھا اور ہماری موٹرسائیکلوں کی اسپیڈ چالیس
پینتالیس، ایسی شاہانہ رائیڈ کر رہے تھے جیسے ہماری ڈیوٹیاں پیٹرولنگ کی ہو،
اسلام آباد کنونشن سینٹر سے گزر کے آگے بڑھے تو مری جانے والے ایکسپریس وے
کی بجائے پرانے راستہ کا انتخاب کیا، مری کی چڑھائیاں، تین موٹرسائیکلوں پر
پانچ افراد کیونکہ میں ابھی تک سنگل ہی تھا میرے مصاحب نے مظفرآباد سے ساتھ
شامل ہونا تھا۔ راستہ میں ایک جگہ گاؤں والوں نے اپنی سہولت کیلئے کیبل کار
(چیئرلفٹ) لگا رکھی تھی، ہم تو تھے ہی سیر سپاٹے کے موڈ میں تو کچھ دیر کا
سٹاپ کیا اور موٹرسائیکلوں کے پاس امجدصاحب کو چھوڑا اور لفٹ کے ذریعے
دوسری سائڈ پر جا پہنچے۔ مقصد صرف انجوائے کرنا تھا ورنہ اس گاؤں میں ہمارا
کوئی کام نا تھا۔ شاید آنے جانے کا فی سواری کرایہ پچاس ساٹھ روپے تھے، اس
ایڈوینچر کے بعد سفر پھر سے شروع ہوا، مری سنی بینک، کشمیری بازار سے گزرتے
سفر جاری رہا۔
مری سے گزر کر ایک ہوٹل پر بغرض ناشتہ رکے، ناشتہ کے انتظار میں دوستوں کے
ساتھ ابتدائی مختصر سی تعارفی نشست ہوئی شانی بھائی کچھ دنوں بعد پیٹرولنگ
پولیس کو پیارے ہونے والے تھے، سید زبیر شاہ جی اور امجد صاحب سرکاری سروس
سے فراغت پا کے کاروباری معاملات میں مصروف ہیں اور رہے سعد بھائی وہ کلر
کہار کالج میں پڑھا رہے ہیں۔ اس تعارف سے ہی محسوس ہوا کہ گائیڈ میں نہیں
بلکہ میں اس گروپ کا ایک ممبر ہوں جو جہاندیدہ افراد کی ہمرکابی میں کچھ دن
سفر کرنے والا تھا۔
روائتی ناشتہ انڈہ آملیٹ، چنے، پراٹھے، چائے سے شکم سیری کی اور سفر پھر سے
شروع ہوا۔ کوہالہ پل سے گزر کے آزاد کشمیر کی فضاؤں میں داخل ہوگئے، مری
میں سردی اور یہاں گرمی نے بس گرمی سردی کا آغاز کروا دیا۔ آگے روڈ پر لینڈ
سلائیڈنگ تھی اور پولیس نے ایک چھوٹی سڑک کی طرف مڑنے کا اشارہ کر دیا۔
چھوٹی گاڑیاں اور موٹرسائیکل اسی راستہ کو اختیار کیے ہوئے تھے جبکہ بڑی
گاڑیاں مین روڈ پر ہی روک دی گئی تھیں۔ یہ راستہ مکمل آف روڈ تھا، دھول،
مٹی، گرمی، پسینہ، تنگ روڈ، گاڑیوں کا رش اور مسلسل بجنے والے ہارن جنگل
میں منگل بلکہ بدھ کا سماں پیدا کر رہے تھے، جگہ جگہ ٹریفک کا پھنسنا اس
تنگ روڈ پر یقینی تھا، مختلف اونچی نیچی جگہوں سے گزرتے چڑھائی کا سفر جاری
رہا۔ خدا خدا کرکے ٹوٹی پھوٹی سڑک ختم ہوئی اور پختہ سڑک نمودار ہوئی، یہاں
ایک منظر ہمارا منتظر تھا، چند بچے جن کی عمریں آٹھ سے پندرہ سال کے لگ بھگ
ہونگی وہ ایک برتن میں شربت بنا کر ڈسپوزیبل گلاسوں میں مسافر کو پلا رہے
تھے، گرمی کی وجہ سے پیاس تو لگی تھی اور موٹرسائیکل بھی ہانپ رہے تھے تو
وہیں رکے، مفت کا شربت پیا، بچوں کے اس کام پر ان کو شاباش دی، معلومات
لینے پر پتا چلا کہ آپس میں پیسے جمع کر کے اور ماں باپ بہن بھائیوں سے
لیکے یہ شربت تیار کیا تاکہ ان کے گاؤں سے گزرنے والے تمام مسافروں کی
میزبانی کی جا سکے، (یہ ہے اس خطہ کی مہمان نوازی کی ایک چھوٹی سی مثال)
،اس کار خیر پر ان کی حوصلہ افزائی کیلئے کچھ پیسے دیے جو یہ لے نہیں رہے
تھے، بالاخر ان کے لیڈر بچے نے وصول کرکے پیاری سی مسکراہٹ کے ساتھ شکریہ
بولا اور ہم آگے بڑھ گئے، اس ناگہانی صورتِحال نے ہم کو ڈیڑھ گھنٹہ تاخیر
سے مظفر آباد پہنچایا، مظفرآباد میں پیر سیال لجپال کے خلیفہ حضرت سائیں
سہیلی سرکار رحمۃ اللہ علیہ کے مزار شریف پر حاضری دی، نماز ظہر ادا کی اور
مظفرآباد نئے پل سے گزرتے اپر اڈہ جا پہنچے جہاں سید عبدالماجد گیلانی
ہمارے منتظر تھے، یوں ہمارا گروپ دوسرے سید زادے کی آمد سے چھ افراد پر
مشتمل ہوچکا تھا۔
مظفرآباد سے بالا کوٹ کی طرف سفر شروع کیا، مظفر آباد شہر کا وہ منظر جس
میں دریا انگریزی کے لفظ U کی شکل اختیار کرتا گزرتا ہے وہاں کچھ پل رکے
اور پھر سفر بالاکوٹ کی طرف جاری رکھا۔ جی ہاں یہ وہی بالاکوٹ ہے جو آٹھ
اکتوبر کے ہولناک زلزلہ میں مکمل تباہ ہوکر نیا آباد ہوا ہے، بالاکوٹ سے
موٹرسائیکل میں مزید پیٹرول ڈلوایا اور سفر جاری رکھا۔
ایک ناکے پر معلومات لینے کیلئے رکے کیونکہ کاغان کے پاس مہانڈری کے مقام
پر پل ٹوٹ چکا ہے اور راستہ بالکل بلاک ہے۔ یہاں kpk پولیس کے ایک جوان سے
آمنا سامنا ہوا، آنکھوں پر یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ پولیس میں اتنے
باخلاق لوگ بھی ہوتے ہیں؟ اس نے پانی پلایا، اپنے فون سے پیٹی بھائیوں کو
کال کرکے راستہ کا پوچھا، ہم کو بتایا کہ پل تو تین چار دن بند رہے گا۔ آپ
لوگ کوشش کر لیں شاید موٹر سائیکل گزر جائے ورنہ آپ شوگراں اور سری پائے کی
طرف چلے جانا۔ سفر پھر سے شروع ہوا اور اگلی چیک پوسٹ پر روک دیا گیا کہ
آگے راستہ بند ہے۔ کافی دیر وہیں رکے رہے، زبیر شاہ جی و دیگر دوستوں نے
اپنے طریقہ کار سے سکیورٹی والوں کو مطمئن کیا اور صرف ہم کو آگے بڑھنے کی
اجازت مل گئی، مہانڈری پل کے پاس اچھا خاصہ رش جمع تھا، مقامی و غیر مقامی
لوگ جمع تھے، تبادلہ خیال ہو رہا تھا اور سب کسی معجزہ کے ظہور کیلئے منتظر
تھے۔۔۔۔۔جاری ہے
|