24 نومبر 2024 کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، جس کی
قیادت سابق وزیرِ اعظم عمران خان کر رہے ہیں، نے لاہور میں اپنے سب سے بڑے
اور اہم جلسوں میں سے ایک کا انعقاد کیا۔ اس جلسے کو ایک سیاسی طاقت کا
مظاہرہ سمجھا گیا، لیکن یہ محض ایک طاقتور اجتماع نہیں تھا بلکہ پی ٹی آئی
کا ایک منصوبہ بند اقدام تھا جس کے ذریعے پارٹی اپنے سیاسی اثر و رسوخ کو
دوبارہ قائم کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ جہاں پارٹی قانونی جنگوں، اندرونی
اختلافات اور ریاستی دباؤ کا سامنا کر رہی ہے، وہیں لاہور کا یہ جلسہ اس کی
مضبوط عوامی حمایت اور پاکستان کی سیاسی سمت کو دوبارہ تشکیل دینے کی کوشش
کا ایک واضح اشارہ تھا۔
جلسے سے چند ہفتے قبل، سیاسی تجزیہ کاروں اور پارٹی کے اندرونی حلقوں میں
یہ بحث جاری تھی کہ کیا پی ٹی آئی عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران جو
سیاسی مقبولیت حاصل کی تھی، اسے برقرار رکھ سکے گی؟ پارٹی، جسے وسیع پیمانے
پر اپنی قیادت کی گرفتاریوں اور پارلیمنٹ سے اپنے اراکین کی بے دخلی جیسے
چیلنجز کا سامنا تھا، ایک بڑے اجتماع کی توقع کر رہی تھی تاکہ وہ پاکستان
کی سیاسی منظر نامے میں خود کو دوبارہ ایک طاقتور اپوزیشن کے طور پر متعارف
کرا سکے۔
اس جلسے سے قبل ایک نایاب اور خصوصی انٹرویو میں، پی ٹی آئی کے سینئر رہنما
**شبلی فراز** نے *دی نیشنل وائس* سے بات کرتے ہوئے کہا: "یہ صرف ایک جلسہ
نہیں ہے، بلکہ پی ٹی آئی کے جوش و جذبے کی علامت ہے جو ابھی تک زندہ ہے۔
لوگ عمران خان کے ساتھ ہیں اور ان کی 'نیا پاکستان' کی ویژن پر یقین رکھتے
ہیں۔ ہم جو اجتماع دیکھیں گے وہ صرف ایک سیاسی بیان نہیں ہوگا، بلکہ یہ
پاکستان کے مستقبل کے لیے ایک موڑ ثابت ہوگا۔"
عمران خان جب لاہور کے تاریخی مینارِ پاکستان پر اسٹیج پر پہنچے، تو ان کے
الفاظ نے ہزاروں حامیوں کے دلوں میں گونج ماری، جو سردی اور دیر رات کے
باوجود ان کی باتیں سننے کے لیے موجود تھے۔ "یہ محض ایک سیاسی جلسہ نہیں
ہے،" خان نے پُرعزم آواز میں کہا۔ "یہ ایک تحریک ہے، انصاف کے لیے، جوابدہی
کے لیے، اور ایسے پاکستان کے لیے جہاں قانون کی حکمرانی ہو۔"
خان نے موجودہ حکومت کے خلاف بڑھتے ہوئے عوامی غصے کا بھی ذکر کیا: "آج کے
حکمران شاید سمجھتے ہیں کہ انھوں نے ہمیں شکست دے دی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے
کہ انھوں نے صرف لوگوں کو متحد کر دیا ہے۔ قوم جاگ چکی ہے۔ یہ ہماری حقوق
کے لیے طویل جدوجہد کا صرف آغاز ہے۔"
ان کی تقریر کا محور انصاف، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی تھا۔ خان نے
موجودہ حکومت کو کرپشن اور پیچھے سے ہونے والے سودے بازیوں پر سخت تنقید کا
نشانہ بنایا، جنہیں انہوں نے پاکستان کی خودمختاری اور ترقی کے لیے نقصان
دہ قرار دیا۔ "جب میں اقتدار میں تھا تو ہم نے اصلاحات کیں اور کرپشن کے
خلاف جنگ کی۔ لیکن آج، یہ نظام کرپٹ ایلیٹ کے ہاتھوں یرغمال ہو چکا ہے جو
خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔"
جلسے میں لاہور کے مینارِ پاکستان پر تقریباً **2 لاکھ افراد** جمع ہوئے،
جو پی ٹی آئی کے حق میں نعرے لگاتے اور عمران خان کی حمایت میں بینرز اور
جھنڈے لہرا رہے تھے۔ یہ واضح تھا کہ پی ٹی آئی کی جڑیں عوام میں ابھی تک
مضبوط ہیں، حالانکہ سیاسی طوفان نے پارٹی کو اپنی گرفت میں لیا ہے۔
**فیضان علی**، ملتان سے ایک پی ٹی آئی حامی نے کہا: "ہم یہاں اس لیے ہیں
کیونکہ ہم عمران خان کے ویژن پر یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے ہمیں ایک بہتر
مستقبل کی امید دی، اور ہم جانتے ہیں کہ پاکستان کو کرپٹ سیاسی اشرافیہ سے
بچایا جا سکتا ہے۔ یہ جلسہ حکومت کو پیغام دے رہا ہے کہ ہم ان کے ساتھ
ہیں۔"
جلسے میں جو جوش و جذبہ تھا، وہ محسوس کیا جا سکتا تھا، جہاں لوگ "میاں
نواز، میاں زرداری، دونوں چور ہیں!" جیسے نعرے لگا رہے تھے — جو پاکستان کے
دو بڑے سیاسی خاندانوں، شریف اور بھٹو خاندانوں کی طرف اشارہ تھا، جنہیں پی
ٹی آئی نے مسلسل کرپشن کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
عمران خان کی تقریر میں یہ بات بھی صاف ظاہر ہوئی کہ پی ٹی آئی خود کو صرف
ایک اپوزیشن جماعت کے طور پر نہیں بلکہ "کرپٹ مافیا" کے خلاف جنگ لڑنے والی
مرکزی قوت کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ ان کا خطاب ایک وسیع تر طبقے کی حمایت
حاصل کرنے کے لیے تھا، جو پاکستان کی روایتی سیاسی جماعتوں سے مایوس ہو چکا
ہے۔
جلسے کا ایک اہم پہلو عمران خان کا اپوزیشن جماعتوں کو متحد ہونے کی دعوت
دینا تھا۔ انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان مسلم لیگ
نون (پی ایم ایل-این) سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کو ایک ساتھ آنے کی پیشکش
کی۔ "ہمارے سیاسی نظریات مختلف ہو سکتے ہیں، لیکن ہمارا ایک مشترکہ مقصد ہے
— پاکستان کا مستقبل،" خان نے کہا۔ "آئیں، ملک کے لیے ہاتھ ملائیں تاکہ ایک
ایسا نظام قائم ہو جس میں عوام کی آواز حقیقی طور پر اہم ہو۔"
حکومت نے اس جلسے پر فوری ردعمل ظاہر کیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات **مریم
اورنگزیب** نے سوشل میڈیا پر اس جلسے کو "مایوسی کی ایک علامت" قرار دیا
اور کہا، "عمران خان ایک ناکامی اور انتشار کی علامت بن چکے ہیں۔ ان کی
سیاست تقسیم اور نفرت پر مبنی ہے، جس نے پاکستان کو تباہی کے دہانے پر
پہنچا دیا ہے۔ ملک آگے بڑھ رہا ہے، اور ان کے پیروکار جلد ہی سمجھ جائیں گے
کہ وہ گمراہ ہو چکے ہیں۔"
تاہم، حکومت کے ردعمل نے جلسے کی حمایت میں کمی نہیں کی۔ ناقدین کا کہنا ہے
کہ پی ٹی آئی کا چیلنج صرف سیاسی نہیں بلکہ پاکستان کے نظام میں اصلاحات کا
مطالبہ ہے۔
یہ جلسہ پی ٹی آئی کی طاقت کا ایک مظہر تھا، لیکن آنے والا وقت اس بات کا
تعین کرے گا کہ آیا یہ سیاسی تبدیلی کا باعث بنے گا یا نہیں۔ پی ٹی آئی کی
مشکلات میں قانونی مقدمات اور پارٹی کے اندر گہرے اختلافات شامل ہیں۔ اس کے
علاوہ، سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ عمران خان کی قیادت کے بغیر پی ٹی آئی اپنے
عوامی جذبات کو برقرار رکھ پائے گا یا نہیں۔
چند روز بعد پی ٹی آئی کے رہنما **فواد چوہدری** نے کہا: "جو کچھ ہم نے آج
دیکھا، وہ صرف ایک ہجوم نہیں تھا۔ یہ ایک انقلاب کا آغاز تھا۔ عوام تبدیلی
کا مطالبہ کر رہے ہیں، اور وہ خاموش نہیں رہیں گے۔ ہم اس جدوجہد کے اگلے
مرحلے کے لیے تیار ہیں۔"
چاہے یہ جلسہ پی ٹی آئی کی سیاسی بحالی کا سنگ میل ثابت ہو، یہ کہنا مشکل
ہے۔ تاہم ایک بات واضح ہے: 24 نومبر 2024 کا دن تاریخ میں اس طور پر یاد
رکھا جائے گا جب پی ٹی آئی نے موجودہ سیاسی نظام کے خلاف اپنی مزاحمت کو
دوبارہ اجاگر کیا، اور اس کے اقتدار میں واپسی کی عزم کو مزید تقویت دی۔
پی ٹی آئی کی نظریں اب آنے والے عام انتخابات پر مرکوز ہیں، اور پارٹی نے
پاکستان بھر میں مزید جلسوں کی تیاری شروع کر دی ہے۔ اب یہ بات صاف ہے کہ
حالات پہلے سے کہیں زیادہ سنگین ہو چکے ہیں۔ چاہے یہ جلسہ سیاسی فتح میں
بدلتا ہے یا محض ایک اور سنگ میل ثابت ہوتا ہے، ایک بات یقینی ہے کہ سیاسی
محاذ پر لائنیں کھینچ چکی ہیں، اور عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی کسی
طور بھی پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
اس جلسے کا اثر صرف پاکستان تک محدود نہیں رہا۔ عمران خان کی تقاریر اور
اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا جمع ہونا عالمی برادری کی توجہ کا مرکز بن چکا
ہے۔ عالمی طاقتیں اور ہمسایہ ممالک، خاص طور پر بھارت اور افغانستان، اس
سیاسی بحران کو گہری نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان کے مالیاتی اداروں اور
تجارتی شراکت داروں کے ساتھ تعلقات پر بھی اس سیاسی بحران کے اثرات مرتب ہو
سکتے ہیں۔ عالمی برادری اس بات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے کہ پی ٹی آئی کی
سیاسی کارروائیاں پاکستان کے مستقبل اور اس کے عالمی تعلقات کو کس طرح
متاثر کرتی ہیں۔
|