لاہور، جو کبھی باغات کا شہر کہلاتا تھا، اپنی سرسبز و
شاداب فضاؤں، قدیم درختوں اور صاف ہوا کے لیے مشہور تھا، آج سموگ کے دبیز
بادلوں تلے دب چکا ہے۔ وہ شہر، جو زندگی سے بھرپور تھا، اب زہریلی دھند میں
لپٹا ہوا نظر آتا ہے، جہاں سردیوں کی صبحیں دھوپ کی نرم کرنوں کے بجائے
گہری دھند اور آلودگی کے سائے میں جاگتی ہیں۔یہ سموگ محض فضائی آلودگی نہیں،
بلکہ انسانی صحت اور ماحول کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ سڑکوں پر چلنے والے
لوگ، اسکول جاتے بچے اور دفاتر میں کام کرنے والے افراد سب اس کے نشانے پر
ہیں۔ سانس کی بیماریاں، دمہ، آنکھوں میں جلن اور دل کے امراض بڑھتے جا رہے
ہیں۔ یہ دھند صرف پھیپھڑوں میں نہیں گھستی، بلکہ لوگوں کی روزمرہ زندگی، ان
کے خوابوں اور ان کے مستقبل کو بھی دھندلا رہی ہے۔یہ بحران صرف ماحولیاتی
چیلنج تک محدود نہیں، بلکہ ایک گہرا معاشرتی اور اقتصادی مسئلہ بن چکا ہے۔
ماہرین کے مطابق، سموگ کی بنیادی وجوہات میں گاڑیوں کا دھواں، صنعتی اخراج،
زرعی باقیات جلانے کا عمل اور شہری جنگلات کی کمی شامل ہیں۔ ناسا کی حالیہ
تصاویر کے مطابق، پنجاب بالخصوص لاہور زہریلی سموگ کے گہرے بادلوں کی لپیٹ
میں ہے، جو خلا سے بھی واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ ایئر کوالٹی انڈیکس
(AQI)، جو فضائی آلودگی کی پیمائش کا ایک معیار ہے، باریک ذرات (PM2.5)،
موٹے ذرات (PM10)، نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ (NO₂) اور اوزون (O₃) کی سطح پر
مبنی ہوتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق صاف ہوا کے لیے AQI کی سطح
50 سے نیچے ہونی چاہیے، جبکہ 100 سے زائد سطح کو مضر صحت اور 300 سے اوپر
کو انتہائی خطرناک تصور کیا جاتا ہے۔افسوس کی بات ہے کہ لاہور میں AQI
معمول کے مطابق 300 سے بڑھ جاتا ہے اور بعض دنوں میں 1000 تک پہنچ جاتا ہے،
جو شہریوں کی صحت پر شدید منفی اثر ڈال رہا ہے اور اسے دنیا کے آلودہ ترین
شہروں میں شامل کر چکا ہے۔
سموگ کے بڑھتے ہوئے اثرات نے انسانی صحت پر شدید منفی اثرات ڈالے ہیں۔
پنجاب کے سرکاری اسپتالوں کی حالیہ رپورٹ کے مطابق، حالیہ دنوں میں لاکھوں
مریض رپورٹ ہو رہے ہیں۔ ان مریضوں میں سانس کی بیماریوں، دمہ، آنکھوں کی
جلن اور دل کے امراض کی شکایات عام ہیں۔ خاص طور پر بچے، بوڑھےاور پہلے سے
بیمار افراد اس ماحولیاتی بحران کا سب سے زیادہ شکار ہو رہے ہیں۔ عالمی
تحقیق کے مطابق، فضائی آلودگی انسانی زندگی کی اوسط عمر کو تقریباً چار سال
تک کم کر سکتی ہے اور اگر یہی صورتحال جاری رہی تو یہ اعداد و شمار مزید
خراب ہو سکتے ہیں۔
سموگ کا اثر صرف انسانی صحت تک محدود نہیں، بلکہ معیشت پر بھی گہرا اثر ڈال
رہا ہے۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان کو فضائی آلودگی کی وجہ
سے سالانہ اربوں ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ اس نقصان میں صحت کی دیکھ بھال
کے اخراجات، کام کے ضیاع اور زرعی پیداوار میں کمی شامل ہے۔ زہریلی ہوا نے
نہ صرف شہریوں کی روزمرہ زندگی کو مشکل بنا دیا ہے بلکہ کاروباری سرگرمیاں،
تعلیمی ادارے اور دیگر اہم شعبے بھی متاثر ہوئے ہیں۔ تعلیمی ادارے سموگ کے
باعث بند کیے جا رہے ہیں اور دفاتر میں حاضری کم ہو رہی ہے، جس سے معیشت پر
اضافی دباؤ بڑھ رہا ہے۔
زرعی پیداوار پر سموگ کے اثرات بھی واضح ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق، حالیہ
برسوں میں سموگ نے چاول اور گندم جیسی اہم فصلوں کی پیداوار میں 5 سے 20
فیصد تک کمی کر دی ہے۔ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کی تحقیق کے مطابق، سموگ
نہ صرف پودوں کی افزائش کو متاثر کرتی ہے بلکہ زمین کی زرخیزی کو بھی نقصان
پہنچاتی ہے۔ یہ بحران خوراک کی پیداوار کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکا ہے،
جو نہ صرف معیشت بلکہ ملک کی غذائی سلامتی کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔
سموگ کی سب سے بڑی وجہ ٹرانسپورٹ سے نکلنے والا دھواں ہے، جو کل آلودگی کا
43 فیصد بنتا ہے۔ لاہور کی 73 لاکھ سے زائد گاڑیوں میں ایک بڑی تعداد پرانی
اور ناقص حالت کی ہے، جو زہریلے ذرات خارج کرتی ہیں۔ فلٹر کے بغیر چلنے
والی صنعتیں 25 فیصد آلودگی کی ذمہ دار ہیں، جبکہ فصلوں کی باقیات جلانے کا
عمل 20 فیصد آلودگی میں حصہ ڈال رہا ہے، جس سے مسئلہ مزید سنگین ہو رہا ہے۔
ماحولیاتی ماہرین کے مطابق، سموگ کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے فوری اور مؤثر
اقدامات کی ضرورت ہے۔ یورو 5 ایندھن کا استعمال، جو یورو 2 کے مقابلے میں
60 فیصد کم زہریلے ذرات خارج کرتا ہے، ایک اہم قدم ہو سکتا ہے۔ پبلک
ٹرانسپورٹ کی بہتری کے ذریعے ذاتی گاڑیوں کے استعمال کو کم کیا جا سکتا ہے،
جبکہ شہری جنگلات کا قیام اور شجرکاری مہمات ہوا کے معیار کو بہتر بنانے
میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔ سخت قانون سازی کے ذریعے صنعتوں اور
ٹرانسپورٹ سے زہریلے اخراج کو محدود کرنا بھی ناگزیر ہے۔ چین نے جدید
ٹیکنالوجی، قابل تجدید توانائی، اور مؤثر ماحولیاتی پالیسیوں کے ذریعے
فضائی آلودگی کو کنٹرول کرتے ہوئے ایک کامیاب ماڈل پیش کیا ہے۔ ہائی اسپیڈ
ریلوے، الیکٹرک گاڑیاں، شہری جنگلات اور زرعی باقیات کے مؤثر انتظام جیسے
اقدامات نے چین میں نہ صرف آلودگی کم کی بلکہ معیشت کو بھی مضبوط کیا۔
پاکستان، جہاں آلودگی اور کمزور ٹرانسپورٹ نظام بڑے چیلنجز ہیں، چین کے
تجربات سے سیکھ کر فوری اور پائیدار اقدامات کے ذریعے ماحولیاتی بحران کو
کم اور معیشت کو بہتر بنا سکتا ہے۔
چین کا ہائی اسپیڈ ریلوے نیٹ ورک اس کی سب سے بڑی کامیابیوں میں سے ایک ہے۔
2008 میں بیجنگ اور تیانجن کے درمیان پہلی ہائی اسپیڈ ٹرین متعارف کروائی
گئی، جو 117 کلومیٹر کا فاصلہ صرف 30 منٹ میں طے کرتی ہے۔ آج، چین کے پاس
دنیا کا سب سے بڑا اور تیز ترین ریلوے نیٹ ورک ہے، جو ہر سال لاکھوں ٹن
کاربن اخراج کو کم کرتا ہے۔ پاکستان، جہاں عوامی ٹرانسپورٹ کا نظام کمزور
اور ناقص ہے، چین کی طرز پر جدید ریلوے نیٹ ورک متعارف کروا کر نہ صرف
ٹرانسپورٹ مسائل حل کر سکتا ہے بلکہ فضائی آلودگی کو بھی کم کر سکتا ہے۔
لاہور میں اورنج لائن میٹرو ٹرین، جو چین کے تعاون سے مکمل کی گئی، ایک
نمایاں مثال ہے۔ یہ منصوبہ روزانہ تقریباً 250,000 مسافروں کو سفر کی سہولت
فراہم کرتا ہے، جس سے ٹریفک دباؤ اور فضائی آلودگی میں کمی آئی ہے۔ تاہم،
یہ صرف ایک ابتدائی قدم ہے۔ پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی اسی طرز کے
منصوبے شروع کیے جا سکتے ہیں تاکہ شہریوں کو بہتر سفری سہولیات فراہم کی جا
سکیں اور ماحول پر دباؤ کم کیا جا سکے۔
چین نے الیکٹرک گاڑیوں کو فروغ دینے کے لیے وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کی
ہے۔ آج، چین دنیا میں الیکٹرک گاڑیوں کا سب سے بڑا پروڈیوسر اور صارف ہے۔
ملک بھر میں الیکٹرک گاڑیوں کے لیے چارجنگ اسٹیشنز کے نیٹ ورک نے عوامی
استعمال کو آسان اور مؤثر بنایا ہے۔ پاکستان، جہاں پرانی گاڑیاں اور موٹر
سائیکلیں فضائی آلودگی میں 43 فیصد تک حصہ ڈالتی ہیں، چین کے اس ماڈل کو
اپنانے سے کاربن اخراج کم کر سکتا ہے اور ایندھن کے اخراجات میں نمایاں کمی
لا سکتا ہے۔
زرعی باقیات جلانے کا مسئلہ، جو سموگ کا ایک بڑا سبب ہے، چین نے جدید
مشینری اور بایو انرجی کے فروغ کے ذریعے حل کیا۔ چین نے کسانوں کو سبسڈی
فراہم کی تاکہ وہ فصلوں کی باقیات کو جلانے کے بجائے انہیں بایو انرجی میں
تبدیل کر سکیں۔ پاکستان میں بھی کسانوں کو ایسی مشینری فراہم کی جا سکتی ہے
جو اس مسئلے کو حل کرنے میں مددگار ہو اور فضائی آلودگی میں کمی لائے۔
چین نے شہری جنگلات (اربن فاریسٹ) کے ذریعے فضائی آلودگی کو کم کرنے میں
کامیابی حاصل کی ہے۔ بیجنگ اور دیگر بڑے شہروں میں شجرکاری مہمات کے ذریعے
نہ صرف آلودگی کم کی گئی بلکہ ہوا کے معیار کو بھی بہتر بنایا گیا۔ لاہور،
جو کبھی باغات کا شہر کہلاتا تھا، اب شہری جنگلات کی کمی کا شکار ہے۔
شجرکاری مہمات کو ترجیح دے کر سموگ کے مسئلے کو مؤثر طریقے سے کم کیا جا
سکتا ہے۔
پاکستان کے لیے یہ ایک فیصلہ کن لمحہ ہے کہ وہ ماحولیاتی آلودگی جیسے سنگین
مسئلے سے نمٹنے کے لیے مؤثر اور جامع اقدامات کرے۔ چین کی مثال ہمارے سامنے
ہے کہ حکمت عملی، جدید ٹیکنالوجی اور عوامی و حکومتی تعاون کے ذریعے آلودگی
پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کو بھی ماحولیاتی تحفظ کو اپنی اولین
ترجیحات میں شامل کرتے ہوئے قابل تجدید توانائی، الیکٹرک گاڑیوں، جدید
ٹرانسپورٹ نظام اور شجرکاری جیسی پائیدار پالیسیوں کو اپنانا ہوگا۔ صرف
فوری اور طویل المدتی اقدامات ہی نہ صرف ماحول کو محفوظ بنا سکتے ہیں بلکہ
معیشت کو بھی مضبوط کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم آنے
والی نسلوں کے لیے ایک صحت مند اور مستحکم پاکستان کی بنیاد رکھیں۔
ماحولیاتی بحران ایک واضح وارننگ ہے کہ اگر ہم نے فوری اقدامات نہ کیے تو
اس کے نتائج سنگین ہوں گے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم متحد ہو کر اپنے شہروں کو
دوبارہ باغات کا شہر بنائیں اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک صاف، سرسبز اور
صحت مند ماحول یقینی بنائیں۔ یہ نہ صرف ایک قومی ضرورت بلکہ ہماری اجتماعی
ذمہ داری بھی ہے ۔
شہرِ خفا
یہ لاہور تھا باغوں کا نگر
یہاں خوشبو تھی ہر رہگزر
یہاں دھوپ تھی روشنی کا سفر
تھا سبزہ بھی زندہ فضا کا اثر
مگر دھند چھائی ہوا بند گئی
یہ زہراب پھیلازمیں تھم گئی
یہ شہر خفا ہےیہ ہم سے ناراض
یہ چپ کی صدائیں یہ منظر اداس
یہ دھرتی ہماری یہ مان ہمارا
کریں پھر سے روشن جہاں کا نظارہ
چلو عزم لے کر بڑھائیں قدم
کریں پاک دھرتی کو سرسبز ہم
|