اس میں کوئی شک نہیں کہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) ٹیکنالوجی
ایک نیا تکنیکی اور صنعتی انقلاب چلا رہی ہے۔ تاہم ، اس کے اطلاق کے بارے
میں بدستور تشویش بھی پائی جاتی ہے۔اسی حوالے سے ابھی حال ہی میں چین کے
شہر زے چیانگ میں مصنوعی ذہانت کی ذمہ دارانہ ترقی اور اطلاق کو اجاگر کرنے
والے ایک فورم میں اندرون و بیرون ملک کے ماہرین اور صنعت کے اندرونی افراد
نے انسانیت کے فائدے کے لیے مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کو بروئے کار لانے
کے لیے عوام پر مبنی نقطہ نظر اپنانے پر زور دیا ہے۔
شرکاء نے بات چیت کے دوران مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی سے پیدا ہونے والے
ممکنہ مسائل کو ذہن میں رکھتے ہوئے مؤثر اے آئی گورننس کی ضرورت پر زور دیا
۔اس نکتہ کو بھی اجاگر کیا گیا کہ ڈیجیٹل تبدیلی نہ صرف ٹیکنالوجی کو مقبول
بنانے کے بارے میں ہے بلکہ انسانی معاشرے اور اخلاقی اقدار پر زیادہ محتاط
نظر ڈالنے کی ضرورت بھی ہے۔
ماہرین اس بات پر تو متفق ہیں کہ انسانی فلاح و بہبود کو بہتر بنانے کے لئے
مصنوعی ذہانت کی ترقی کو فروغ دیا جائے ، لیکن اس بات پر بھی زور دیتے ہیں
کہ اس کوشش کو معاشرتی سلامتی کو ترجیح دینی چاہئے ، انسانی حقوق کا احترام
کرنا چاہئے ، عالمی اقدار کا اشتراک کرنا چاہئے ، اور عوام پر مرکوز ،
اخلاقی نقطہ نظر اپنانا چاہئے۔
اس ضمن میں مصنوعی ذہانت کی حکمرانی کی تجویز بھی سامنے آتی ہے جس میں
تکنیکی جدت طرازی اور بین الاقوامی تعاون کو فروغ دیتے ہوئے حکومت، کمپنیوں
اور مجموعی طور پر معاشرے کی مشترکہ کاوشیں شامل ہیں۔ماہرین کے نزدیک سائنس
اور ٹیکنالوجی کے لیے عوام پر مبنی اصول ضروری ہے۔ مصنوعی ذہانت کا انسانوں
پر مثبت اثر ہونا چاہئے۔ اسے متبادل کے بجائے معاون کے طور پر کام کرنا
چاہئے۔
ایک بڑے اور ذمہ دار ملک کی حیثیت سے چین نے نظم و نسق کی حامل مصنوعی
ذہانت کی ترقی میں ہم آہنگی کے حصول کے لئے مسلسل اقدامات کیے ہیں۔ جولائی
2023 میں سائبر اسپیس ایڈمنسٹریشن آف چائنا (سی اے سی) نے جنریٹیو مصنوعی
ذہانت کی خدمات کے انتظام کے بارے میں عبوری ہدایات جاری کیں، جو دنیا میں
اپنی نوعیت کی پہلی کاوش ہے۔ ستمبر 2024 میں مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ
مواد کی شناخت سے متعلق ایک ضابطہ تشکیل دیتے ہوئے اسے عوامی رائے کے لئے
جاری کیا گیا۔
چینی حکام مصنوعی ذہانت سے متعلق سماجی ذمہ داری کے بارے میں زیادہ سے
زیادہ آگاہی اور نامناسب استعمال کی روک تھام پر زور دیتے ہیں۔ساتھ ساتھ
چین نے ڈیجیٹل اور مصنوعی ذہانت کے فرق کو ختم کرنے کے لئے پسماندہ دنیا کی
حمایت کا بھی اظہار کیا ہے۔ماہرین اس حقیقت کو سمجھنے کی اہمیت پر زور دیتے
ہیں کہ ہم مصنوعی ذہانت کو کس طرح متعارف کرا رہے ہیں اور ترقی ، شرکت اور
اطلاق کو کیسے یقینی بنایا جا رہا ہے۔اس ضمن میں دیکھا جائے تو تکنیکی
صلاحیتیں ، بنیادی ڈھانچے کی لاگت اور دیگر عوامل نہایت اہمیت رکھتے ہیں.
ان سوالوں کا جواب تعاون میں ہی مضمر ہے جس میں بڑے ممالک کا کردار نہایت
اہمیت رکھتا ہے۔چین کی بات کی جائے تو یہاں ، مصنوعی ذہانت نئی معیار کی
پیداواری قوتوں کی ترقی کے لئے ایک اہم انجن بن رہی ہے۔ چین اب 4500 سے
زیادہ مصنوعی ذہانت کمپنیوں کا گھر ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، ملک
کی بنیادی مصنوعی ذہانت کی صنعت 2023 میں 578 بلین یوآن (تقریباً 81.3 بلین
امریکی ڈالر) سے زیادہ کے سائز تک پہنچ گئی، جو سال بہ سال 13.9 فیصد زیادہ
ہے.
چینی ماہرین کے نزدیک ملک کو اب بھی کمپیوٹنگ پاور اور ڈیٹا انفراسٹرکچر
میں خامیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے ، اور اس شعبے میں غیر معمولی ترقی کو
فروغ دینے کی ضرورت ہے ، خاص طور پر جدید تحقیق اور ترقیاتی اداروں اور
اسٹارٹ اپ کمپنیوں کی مدد لازم ہے ، تاکہ مصنوعی ذہانت کی اصل جدت طرازی کو
مضبوط بنایا جاسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ چین کو بین الاقوامی سطح پر دوسرے
ممالک کی جانب سے پیدا ہونے والے خطرات کے بارے میں بھی محتاط رہنے کی
ضرورت ہے۔تکنیکی ماہرین کہتے ہیں کہ چین کو ترقی اور ریگولیشن میں دوسرے
ممالک کے تجربات سے سیکھنا چاہئے، اور گورننس کے ایسے طریقوں کو تلاش کرنا
اور نافذ کرنا چاہئے جو چین کے ترقیاتی فلسفے اور مراحل کے مطابق ہوں.
|