ہاں یا ناں؟

زندگی میں اکثر ایسے مواقع آتے ہیں جب انسان کے لیے فیصلہ کرنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے ۔ میرے خیال میں اللہ تعالٰی جب کسی انسان کو آزمائش میں ڈالتا ہے تو اس کے سامنے ایک سے زیادہ آپشنز رکھ دیتا ہے تا کہ انسان اللہ تعالٰی کی عطا کی ہوئی عقل سلیم اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے لیے صحیح سمت کا تعین کرے ۔ایسا ہی معاملہ میرے ساتھ بھی اس وقت سے چل رہا ہے جب مرحوم سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو ان ہی کے باڈی گارڈ ملک ممتاز قادری نے دن دھاڑے 25 گولیاں مار کے شہید کر دیا تھا۔یاد رہے کہ سلمان تاثیرایک عیسائی خاتون آسیہ بی بی کو تحفظ ناموس رسالت قانون کے تحت ہونے والی سزا سے بچانے کی کوششوں میں اس طرح کے بیانات دینے لگے تھے جو مذہبی انتہا پسندوں کی ضد بن گئے اور مذہبی جماعتوں کے افراد نے اپنے اپنے بحر بیکراں سے ایسے ایسے جذباتی بیانات داغے کہ بہت سے معتدل اعتقادات رکھنے والے اور سیکولر نظریات کے حامل افراد بھی ان انتہا پسند افراد کے ہمنوا نظر آنے لگے ۔

بظاہر یہ معاملہ دو انتہاؤں کو چھوتے نظریات ، مذہبی جنونیت اور سیکولر انتہا پسندی میں تصادم نظر آتا تھا مگر سلمان تاثیر کے قتل کے بعد یہ معاملہ اس سے کہیں زیادہ سنگین ہو گیا یہاں تک کہ معاملہ اس حد تک جا پہنچا کہ علمائے کرام کی جانب سے ایسے فتاوی صادر کر دیے گئے کہ سلمان تاثیر کی نماز جنازہ ہی نہ پڑھائی جائے اسلام اور تحفظ ناموس رسالت کے نام پر لگائے جانے والے فتاوی سے ڈرتے ہوئے اور مزید کسی نقصان سے بچنے کے لیے سلمان تاثیر کے موقف سے ہم آہنگ اور ان کے قریبی مقتدر اشخاص نے سلمان تاثیر کے قتل کے بارے رسمی بیانات دینے کے بعد چپ سادھ لی اور مذہبی انتہا پسند افراد اسی شد و مد سے نہ صرف اپنے موقف کا دفاع کرتے رہے بلکہ وقفے وقفے سے مختلف بیانات داغتے، احتجاجی ریلیاں، جلسے اورجلوس بھی نکالتے رہے تا کہ سلمان تاثیر کے قتل کے مبینہ ملزم ، جو بارہا اپنے قتل کا اقرار بھی کر چکا تھاکے عدالت میں ہونے والے ٹرائل پر اثر انداز ہوا جا سکے ۔

اسی اثنا میں مذہبی اور جنونی گروہوں نے آنجہانی شہباز بھٹی کو بھی سر عام تیس گولیاں مار کے ان کے گھر کے باہرشہید کر دیا ۔ واضح رہے کہ صدر آصف علی زرداری نے شہبازبھٹی کو ناموس رسالت کے قانون پر نظرثانی کیلئے بنائی جانیوالی کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا تھا جس کے بعد ان کو کئی بارقتل کی دھمکیاںبھی ملی تھیں۔سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیرشہید اور وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور آنجہانی شہباز بھٹی شہیدکے بہیمانہ قتل کے بعد انتہا پسندوں نے ایک طرح سے سیکولر خیالات کے حامی افراد پر برتری حاصل کر لی ۔ ان حالات کے بعد وزیر اعظم کی طرف سے شر پسند عناصر کو مزید کسی قسم کی کارروائی سے روکنے کے لیے وزیر اعظم کو کئی بار یہ تردیدی بیان دینا پڑا کہ تحفظ ناموس رسالت کے قانون میں حکومت کوئی تبدیلی لانے کا ارادہ نہیں رکھتی۔

وزیر اعظم کی طرف سے آنے والے بیان کے بعد یوں معلوم ہونے لگا تھا کہ اب جلد ہی سابق گورنر شہید کے قاتل ممتاز قادری کوجلد ہی رہا کر دیا جائے گا مگر انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے ممتاز قادری کو دو دفعہ سزائے موت سنا کر مذہبی اور جنونی افراد کو ایک بار پھر سے متحرک کر دیا ۔

میں نے مختصراً تمام حالات اپنے قارئین کے سامنے رکھ دیے تا کہ اس سارے منظر نامے کو دیکھتے ہوئے کوئی نتیجہ نکالا جا سکے ۔

عین ممکن ہے وہ تمام افراد جوسلمان تاثیر اور شہباز بھٹی کو مورد الزام ٹھہراتے ہوں ان کو میرا ان دونوں افراد کے نام کے ساتھ شہید کا لفظ لگانا ناگوار گزرا ہو اور یقیناً وہ تمام افراد مجھے بھی لعن طعن ہی کریں گے اور یہی کہیں گے کہ میں نے جانبداری دکھائی ہے ۔ ان تمام افراد سے عرض ہے کہ سلمان تاثیر کو جس وقت بے دردی سے پچیس گولیاں مار کر قتل کیا گیا نہ انھوں نے اسلام کے پہلے رکن توحید کا انکار کیا تھا، نہ رسالت کا ، نہ ہی وہ موقع واردات پراسلام مخالف بیان بازی کر رہے تھے نہ ہی وہ کسی غیر شرعی جگہ سے آ رہے تھے نہ ہی جا رہے تھے بلکہ وہ اپنے ایک دوست کے ساتھ ہوٹل سے کھانا کھا کر اس امید پر ہوٹل سے بے خوف و خطر باہر آ رہے تھے کہ باہر موجود وردی میں کھڑے افراد نے میری حفاظت کا حلف لے رکھا ہے ۔ اگر ایک لمحے کو بھی یہ مان لیا جائے کہ سلمان تاثیر ناموس رسالت کے مرتکب ٹھہرے تھے تو کیا ممتاز قادری کو یہ زیب دیتا تھا کہ وہ ان کے سکواڈ میں رہتا؟ ان کے ساتھ کھاتا پیتا اور روز و شب گزارتا؟ اس کا اولین فرض بنتا تھا کہ وہ احتجاجاً اپنی نوکری میں تبدیلی کرواتا یا مستعفی ہو جاتا بجائے اس کے مذہبی جنونیت کی ایسی تاریخ رقم کرتا کہ ایک نہتے انسان کے جسم میں 25 گولیاں اتار دیتا۔یہی انتہا پسندی آنجہانی شہباز بھٹی کے قتل کے موقع پر بھی دیکھنے کو ملی جب قاتلوں نے سفاکی سے آنجہانی کو 30 کے قریب گولیاں مار کر مردانگی کا بھر پور مظاہرہ کیا۔ ان تمام دلائل کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں ببانگ دہل اس بات کا اعادہ کرتا ہوں کہ یہ دونوں شخصیات مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھوں شہید ہوئی ہیں ۔

ان تمام دلائل سے بھی پہلے میرے قارئین بخوبی جانتے ہیں کہ کسی بھی سرکاری و غیر سرکاری نوکری حاصل کرنے کے لیے امیدوار کو اس بات کا صریحاً حلف دینا ہوتا ہے کہ اس کا تعلق کسی مذہبی گروہ سے نہیں نہ ہی وہ کسی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتا ہے ۔کیا ممتاز قادری کا مذہب ، دین، ایمان اور ضمیر اسے اس بات کی اجازت دیتے تھے کہ وہ ایک مذہبی گروہ سے وابستگی رکھتے ہوئے ایک انتہائی اہم شخصیت کے ساتھ ڈیوٹی کرے؟ اور دوران ڈیوٹی ان پر بے دریغ گولیا ںبرسائے؟

ممتاز قادری کو راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کی جانب سے دو دفعہ سزائے موت سنائے جانے کے بعد انتہا پسند مذہبی تنظیم سنی تحریک نے بروز جمعہ پورے پاکستان کے تمام شہروں میں ہر مین روڈ اور چوک کو بلاک کر کے ہنگامے کیے، توڑ پھوڑ کی ، ٹائر جلائے اورعام عوام کی گاڑیوں کے شیشے توڑ کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ۔ کیا عشق رسول کا یہ تقاضا ہے کہ اپنے ہی ملک کے طول و عرض کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے؟ عام شہریوں کا جینا دو بھر کر دیا جائے ؟اگر ممتاز قادری اپنے کیے پر اتنا ہی نازاں ہے اور اس کی مذہبی جماعت بھی اپنے ہیرو کی بہادری پر اتنی ہی مطمئن ہے تو سلمان تاثیر کے ورثاءکوممتاز قادری کی رہائی کے بدلے 200 ملین کی رقم دینے کی پیشکش کو کیا سمجھا جائے؟ اور صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری کو بھی پیپلز پارٹی حکومت کے پانچ سال پورے کرنے میں معاونت کا لالچ دینا کیا ہے؟

جب اللہ تعالٰی نے قرآن پاک میں واشگاف الفاظ میں یہ بات فرما دی کہ دین میں کوئی جبر نہیں تواپنا نظریہ اور عقیدہ دوسروں پر مسلط کرنے کے لیے یہ جبر و استبداد ، کھلی بدمعاشی اور دہشت گردی کیوں؟ کیا ممتاز قادری اور اس کی قبیل کے تمام انتہا پسند پاکستانی معاشرے میں اسی طرح دھونس اور دھاندلی کے ذریعے اپنا نقطہ نظر عوام الناس پر مسلط کرتے رہیں گے؟ کیا پاکستانی معاشرے میں آزادی حق رائے دہی ہمیشہ ایک سوالیہ نشان ہی رہے گا؟

ان تمام سوالات کے جوابات میں اپنے قارئین پر چھوڑتا ہوں اور ان سے درخواست کرتا ہوں کہ مجھے بتائیے کہ سلمان تاثیر اورشہباز بھٹی جیسے لوگ ہمارے معاشرے کے لیے بہتر ہیں جو دلائل و براہین اور بات چیت کو اولین فوقیت دیتے ہیں یا وہ جنونی اشخاص جو طاقت کے زور پر اور قانون کو ہاتھ میں لینے پر ایمان رکھتے ہیں؟
Syed Zaki Abbas
About the Author: Syed Zaki Abbas Read More Articles by Syed Zaki Abbas: 22 Articles with 33865 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.