بر صغیری سماج میں مرد کے لئے بڑا بیٹا ہونا اور اکلوتا
بیٹا ہونا ایک بہت بڑا امتحان ہوتا ہے اور شادی کے بعد اس کی بیوی کو بھی
اس امتحان سے گزرنا پڑتا ہے ۔ بڑا بیٹا ہو یا اکلوتا بیٹا ہو تعلق متوسط و
نیم متوسط طبقے کے کثیر العیال گھرانے سے ہو اور اس پر مستزاد یہ کہ اوور
سیز بھی ہو پھر کسی طرح شادی بھی ہو جائے تو وہ گویا کہ کسی گناہ سے کم
نہیں ہوتی جس کی سزا نو بیاہتا جوڑے کو ساری جوانی بھگتنی پڑتی ہے ۔ جوائنٹ
کا جہنم ان کے جیون کے سارے سنہرے سالوں کو خاکستر کر کے رکھ دیتا ہے ۔
نوجوان کسی نا محرم عورت کی محبت میں مبتلا ہو جائیں تو ماں کی محبت کہیں
بہت پیچھے رہ جاتی ہے شادی کے بعد بیوی سے دل مل جائے تو ماں کا دل ہل جاتا
ہے ۔ پورا بر صغیری معاشرہ ایسی ماؤں سے بھرا پڑا ہے جنہوں نے بیٹے بہو کا
جینا حرام کر رکھا ہے اپنے حسد بغض اور اپنی فسادی بیٹیوں کے کہنے میں آ کر
بیٹے بہو کی زندگی جہنم بنا دی ہے ۔ کتنی ہی ماؤں نے اپنی سازشوں اور ریشہ
دوانیوں سے اپنے بیٹوں کے گھر اجاڑ دیئے بچوں کو باپ کی زندگی میں یتیم کر
دیا ۔ بیٹا پردیس میں کماتا ہو تو برسوں اس کی کمائی کھانے کے بعد بھی اُس
کے لئے بیوی نہیں خود اپنے لئے باندی بیاہ کر لاتی ہیں ۔ پھر پوری کوشش
ہوتی ہے کہ بہو اپنے شوہر کے پاس نہ پہنچنے پائے بلکہ کئی کئی سال تک وہ
بھی واپس نہ آنے پائے ۔ جوان بیٹا بہو کو ندی کے دو کنارے بنا دینے کے بعد
بھی ان کی تسلی نہیں ہوتی اسی لئے بہو کسی نا کسی طور ان کے عتاب کا نشانہ
بنی رہتی ہے ۔ بیٹے کی کمائی پر خود اپنا مکمل اختیار اور قبضہ ہونے کے
باوجود ان کے حسد کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوتی اور ان کی زبان انگارے ہی اگلتی ہے
۔ بیٹے کے کان بھرنے اور اسے بیوی کے خلاف اکسانے کا کوئی موقع ہاتھ سے
جانے نہیں دیتیں ۔
ملک کے طول و عرض میں مختلف وجوہات کی بِناء پر بہو بیٹیوں کو فنا کے گھاٹ
اتار دینے کے ان گنت واقعات ریکارڈ پر موجود ہیں ہر طرح کے طریقے اپنائے
جاتے ہیں ۔ زہر گولی کلہاڑی چھری گیس پیٹرول حبس دم ۔ ذبح بھی کیا گیا ہے
لاش کے ٹکڑے بھی کیے گئے ہیں سر قلم کا کیس بھی کوئی بہت دور کی بات نہیں ۔
مگر 10 نومبر کے روز بستی کوٹلی میراں میں درندہ صفت ساس نندوں اور دیگر
سسرالی قصائیوں کے ہاتھوں حاملہ بہو زارا کے قتل نے پورے معاشرے کی بنیادیں
ہلا دی ہیں ۔ لاش کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے بعد اس کے سر کو چولہے پر جلانے کی
نظیر نہیں ملتی ۔ اتنی سفاک اور شقی القلب عورتیں جو غیر بھی نہ تھیں سگی
تھیں مگر حسد کی آگ میں بھسم ہوئی پڑی تھیں کیونکہ زارا کے پردیسی شوہر نے
اپنی ماں بہنوں کے ہاتھوں اس کا جیون اجیرن دیکھ کر اُسے اپنے پاس بلا لیا
تھا ۔ اُس نے ماں کے حق حصے میں کوئی کمی نہیں کی ہر ماہ گھر کے خرچ کے لئے
ایک خطیر رقم بھجواتا تھا اور بیوی کو اپنے وسائل و آمدن کی مالک و مختار
بنا دیا اور اُس کی یہی جسارت اس کا جرم بن گئی جس کی قیمت اُس کی منکوحہ
کو اپنی جان دے کر چکانی پڑی ۔ اور یہی نہیں ، شوہر کو جادو ٹونے کر کے
اپنے قابو میں کر لینے کے الزام کے سبب اسے مرنے کے بعد بھی اپنے بطن میں
موجود بچے کے ساتھ انتہائی بہیمانہ اور وحشیانہ سلوک کا نشانہ بننا پڑا ۔
ڈسکہ کی ڈائن نے خود اپنے لخت جگر کی ہر خوشی کو ڈس لیا ۔
اس انتہائی ہولناک اور اندوہناک واردات کی خبر منظر عام پر آتے ہی جوائنٹ
فیملی سسٹم بھی موضوع بحث بن گیا ہے کیونکہ زارا کو اس کا شوہر اپنی ماں
بہنوں کی خوشنودی اور دلجوئی کے لئے ہر سال چھ ماہ بعد وطن بھیجتا تھا ۔
ابھی بھی اس نے زچگی کے لئے زارا کو پاکستان بھیجا اور اصرار کیا کہ وہ
میکے کی بجائے سسرال میں رہے ۔ حالانکہ وہ بہت اچھی طرح جانتا تھا کہ اس کی
ماں بہنیں کس قماش کی عورتیں ہیں وہ ایکبار پہلے بھی اسے نقصان پہنچانے کی
کوشش کر چکی تھیں اس کے باوجود اس نے حاملہ بیوی کو ان کے ساتھ رہنے پر
مجبور کیا اور نتیجہ آج سب کے سامنے ہے ۔ زارا تو قتل ہو گئی مگر بیشمار
ایسی زارائیں ہیں جو بس قتل نہیں ہوئیں اور جوائنٹ کے جہنم کا ایندھن بنی
ہوئی ہیں ۔ مرد اپنی ماں بہنوں کی چیرہ دستیوں اور فتنہ پروری سے واقف ہونے
کے باوجود بیوی کو ان کے شر کا شکار بننے کے لئے وقف کر دیتے ہیں ۔ اور
ایسے نابغوں میں اوور سیز کا مقام سب سے بلند ہے ۔
جو اوور سیز برسہا برس پردیس میں اپنا خون پسینہ ایک کرنے کے باوجود اس
لائق نہیں ہیں کہ اپنے نکاح میں آئی ہوئی عورت کو اپنے ساتھ رکھ سکیں اس کے
جائز شرعی حقوق پورے کر سکیں اسے معاشی اور معاشرتی تحفظ فراہم کر سکیں تو
اُنہیں حق ہی کیا ہے شادی کا اور اپنی منکوحہ کو نا محرم رشتوں کے نرغے میں
تنہا چھوڑنے کا ۔ انہیں چاہیئے کہ اپنی باقی زندگی بھی اپنے بےحس اور خود
غرض گھر والوں کو ہی پالنے اور ان کی عیاشیاں پوری کرنے میں گزاریں ۔ بیٹوں
کو اپنی ملکیت سمجھنے والی اور اُنہیں اپنے نکمے نکھٹو دامادوں کا کفیل بنا
کر رکھنے والی ماؤں کو چاہیئے کہ وہ
ساری عمر اُن کی شادی نہ کریں ۔ رکھیں اپنی گود میں بٹھا کر ، کسی لڑکی کی
زندگی برباد نہ کریں ۔
مردوں کو ایک بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیئے کہ آپ کی ماں کے قدموں تلے آپ
کی جنت ہے آپ کی بیوی کی نہیں ۔ وہ کسی گملے میں نہیں اُگی نہ ہی کھجور سے
ٹپکی ہے اُس کی اپنی بھی ماں ہے اور اُس کی جنت اُس کی ماں کے قدموں تلے ہے
آپ اپنی جنت اپنی ذمہ داری پر پکی کریں اپنا فرض بیوی کے سر نہ تھوپیں کہ
دونوں کی کسی طرح آپس میں نہیں بنتی مگر آپ مُصر ہیں کہ بیوی ہی صبر و شکر
اور در گزر سے کام لے اور آپ کی ماں کی ہر تلخ و ترش حتیٰ کہ سازشوں ریشہ
دوانیوں کو بھی برداشت کرے چاہے اس کے نتیجے میں اُس کی جان چلی جائے ۔
شادی کے چند ہی روز بعد اپنی نئی نویلی دلہنوں کو اپنے گھر والوں کے رحم و
کرم پر چھوڑ کر کئی کئی سال کے لئے واپس دیار غیر لوٹ جانے والے پردیسیو!
اگر آپ پچھلے دس پندرہ سالوں سے اوور سیز ہیں اور دو چار بھائی بہنوں کو
نمٹانے کے بعد ہی کہیں جا کر آپ کی باری آئی اور ابھی بھی آپ کو اپنی زندگی
خود جینے کی اجازت نہیں تو ایک بات اچھی طرح سے جان لیں اور سمجھ لیں کہ
اگر کسی کے دل میں اپنی سگی اولاد کے لئے رحم نہ ہو تو کیا پرائی اولاد کے
لئے ہو گا؟
اپنی آنکھیں کھولیں اور دیکھیں کہ جن بھائی بہنوں کی شادیاں آپ نے کی تھیں
وہ سب اپنی ازدواجی زندگی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں بلکہ آپ ہی کی مالی
معاونت سے عیاشیاں کر رہے ہیں ۔ کسی کو احساس نہیں اس سوچ سے کوئی سروکار
نہیں کہ آپ بھی جواں سال ہیں صحتمند ہیں تبھی تو دیار غیر میں اپنا خون
پسینہ ایک کر رہے ہیں آپ کے بھی کوئی جذبات ہوں گے جسمانی فطری تقاضے ہوں
گے یہی ضرورت آپ کی بیوی کی بھی ہو گی ۔ شریعت بھی تسلیم کرتی ہے کہ شادی
شدہ عورت شوہر کے بغیر چار ماہ سے زیادہ صبر نہیں کر سکتی مگر وہ شادی کے
بعد بھی کسی بیوہ کی طرح اپنے نفس کو کچلنے پر مجبور ہے جبکہ سب سے زیادہ
آپ کماتے ہیں محنت آپ کی زیادہ ہے اور آپ ہی قربانی کا بکرا بنے ہوئے ہیں
اور آپ ہی کی بیوی تنہائی اور جدائی کی اذیتیں جھیل رہی ہے اوپر سے آپ نے
اسے جوائنٹ کے جہنم میں دھکیل رکھا ہے ۔ آپ جلدی جلدی آ نہیں سکتے اُسے پاس
بلا نہیں سکتے تو کم از کم اتنی خبر تو رکھیں کہ آپ کی غیر موجودگی میں وہ
کن حالات سے دوچار ہے ۔ آپ ہی کی کسی کو کوئی پروا نہیں کوئی آپ کو انسان
نہیں سمجھتا آپ بس نوٹ جھاڑنے کی مشین ہیں اگر یقین نہ ہو تو کسی وقت سب
کچھ چھوڑ چھاڑ ہمیشہ کے لئے واپس آنے کی بات کر یں آپ کے گھر میں صفِ ماتم
بچھ جائے گی ۔
|