7 اگست 2024 کی صبح کا سورج ہم کو ناران کے پرفضا مقام پر
طلوع ہوا۔ صبح سویرے سب قافلہ اراکین جاگ چکے تھے، چھ افراد کیلئے ایک واش
روم تھا بس لائن اپ رہے۔ ایسی صورتحال میں سب سے زیادہ فائدہ مند وہ رہتا
ہے جو سب سے پہلے فراغت پا لے، شامت اس کی آتی جو آخر میں رہ جائے۔ جس وقت
سفر مشکل راستے کا ہو تو ساتھ سامان کم سے کم ہونا چاہیے۔ اس لیے ہم نے
اپنے بیگ اور اضافی سامان ہوٹل کے استقبالیہ پر ہی رکھ دیے۔ مہربانی ہوٹل
والوں کی کہ انہوں نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ شاید رش ہوتا تو وہ بھی
کہتے کہ یا تو کمرہ کا کرایہ ادا کرو یا ساتھ لیکر جاؤ۔ چونکہ پل ٹوٹنے کی
بدولت اک دکا ٹورسٹ ہی موجود تھے اس لیے انہوں نے بھی کوئی اعتراض نہ کیا۔
بیگ رکھنے کے بعد ہم نے ساتھ والے ہوٹل سے ناشتہ کیا۔ جس ہوٹل میں رات
گزاری تھی ناشتہ وہاں بھی ہو سکتا تھا لیکن انہوں نے بھی منگوا کے دینا تھا
اس لیے بہتر سمجھا کہ کچھ چل پھر کے کوئی اچھا سا ناشتہ پوائنٹ تلاش کرتے
ہیں۔ جو قریب ہی مل گیا۔ روائتی انڈہ، پراٹھہ، چنے، چائے سے ناشتہ کرکے
مسافر اگلے سفر کیلئے بالکل تیار تھے۔
بعد از ناشتہ جھیلوں کی ملکہ بلکہ نانی دادی جھیل سیف الملوک کی طرف عازم
سفر ہوگئے۔ بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ یہ جیپ کا ٹریک ہے، مستقل مزاجی دیکھیے
کہ سالہا سال گزرنے کے باوجود راستہ سارا آف روڈ ہے، آج بھی جیپ ٹریک ہی ہے۔
البتہ جو راستہ خچروں پر طے ہوا کرتا تھا وہ بھی اب جیپ ٹریک بن چکا ہے،
خچروں پر سیاحوں کو لے جاکر غریب لوگوں کو روزگار مل جاتا تھا اب جیپ کے
ٹھیکیداروں کی چاندی ہے۔ ہم نے اپنی موٹرسائیکلوں کا رخ سیف الملوک کی طرف
موڑ دیا، گزشتہ اقساط میں آپ ملاحظہ کر چکے کہ کاغان، ناران بالکل خالی اور
سنسان تھے ایسا ہی اس راستہ پر دیکھا۔ البتہ دو تین جیپ ملی جس میں زیادہ
تر لوکل ہی موجود تھے، پتھر، گرد، دھول اور مسلسل چڑھائی ہم ہی کیا ہماری
موٹرسائیکل کا بھی سانس پھولنے لگا۔ میرے مصاحب ماجد گیلانی صاحب نے تو یہ
بارہ کلومیٹر کا ٹریک آٹھ کلومیٹر پیدل اور چار کلومیٹر وقفہ وقفہ سے
موٹرسائیکل پر طے کیا اور میں نے آدھا موٹرسائیکل پر اور آدھا اس کو اتر کر
زور آزمائی میں گزارا۔
راستہ میں مختصر وقفے کرتے، موٹرسائیکل کا انجمن ٹھنڈا کرتے بالاخر محترمہ
سیف الملوک صاحبہ کا دیدار نصیب ہوا۔ دور سے چھوٹی سی جھیل محسوس ہوئی لیکن
کشتی رانی کے دوران احساس ہوا کہ اتنی بھی چھوٹی نہیں۔ جھیل میں صرف ہماری
کشتی رواں دواں تھی، ہم نعت شہہءدیںﷺ پڑھتے، جھیل کی سیر سے لطف اندوز ہوتے
رہے، خوبصورت سیاحتی مقام ہے مگر مزید خوبصورت بنانے کی بہت گنجائش ہے۔
اگرچہ یہاں کوڑے دان، تنبیہہ بورڈ آویزاں ہیں، کھانے پینے کے سٹال بھی
موجود ہیں لیکن بہت کچھ مزید ہو سکتا ہے ۔ شاید آنے والے وقتوں میں بے ہنگم
تعمیرات کی بجائے اس جگہ کی خوبصورتی کو محفوظ رکھنے کے کچھ اقدامات اٹھائے
جائیں۔
یہاں سنا کرتے تھے کہ پریاں fairy🧚♀️ اترتی ہیں، آج تو بالکل سنان تھا،
سوچا شاید کسی اک دکا پری سے آمنا سامنا ہو جائے گا مگر کہاں۔ ایک صاحب سے
پوچھا کہ پریوں کا سنا تھا کیا واقعی ہوتی ہیں؟ کہنے لگا پیچھے مہانڈری کا
پل بہہ گیا ہے اس لیے پہنچ نہیں سکیں ۔ کچھ پل گزار کے واپسی شروع کی۔
واپسی چڑھائی کی نسبت قدرے آسان ہوتی ہے لیکن موٹرسائیکل سواروں کیلئے مشکل
تو ہوتی ہے ہے۔ لوز پتھر اور سائڈ پر کوئی رکاوٹ نہیں اور مسلسل اترائی
سمجھ لیں کہ ساری کی ہوئی ورزش کا امتحان ہوتا ہے۔
واپس ہوٹل پہنچے، ایک ایک چائے کا کپ نوش کیا، بقیہ سامان موٹرسائیکلوں پر
لوڈ کیا اور بابوسرٹاپ کی طرف چل دیے۔ آسمان بادلوں سے ڈھکا تھا، آگے مزید
سردی ہونے والی تھی اس لیے سب نے برساتیاں زیب تن کیں جو بارش اور سردی
دونوں میں ساتھ نبھانے والی تھیں۔ ناران سے بابو سر ٹاپ تک کا روڈ بہت مزے
کا تھا۔ ہوا میں خنکی تھی، میرے ساتھ مسئلہ یہ بنا کہ جیکٹ لا نہیں سکا تو
کام برساتی سے چلانا پڑا۔ دوسرا کچھ بادل بھی وادی کو گھیرنے کی کوشش میں
تھے تو حفظ ما تقدم کا تقاضا یہی تھا کہ بندوبست کرکے روانہ ہوا جائے۔
ناران سے بابو سر ٹاپ تک کے راستے نے ساری تھکن اتار دی۔ لمحہ بہ لمحہ
بدلتے مناظر، شاندار روڈ، کھلی فضا، خالی روڈ اور ہم آوارہ گردوں کی دنیا
کے باسی۔ اس رائیڈ کا جو لطف آیا وہ بیان سے باہر ہے۔ بلکہ اگر کہوں کہ اب
تک کے تمام اسفار کا سب سے مزے کا سفر لگا۔ پہاڑ ایسے جیسے ان پر سبز قالین
بچھایا گیا ہو، دریا کا پانی صاف شفاف جیسے چشمہ کا پانی۔ جگہ جگہ رکتے،
تصویر کشی کرتے سفر جاری رہا۔ ہلکھی پھلکی بوندا باندی کبھی ہم کو بھگو
جاتی اور کبھی یخ بستہ ہوا کے تھپیڑے ہماری سستی کو دور کر
جاتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)
|