مہانڈری پل پر تین طرح کا رش موجود تھا، ایک تو وہ
کوسٹروں والے جو ٹور لیکر آئے، سواریاں پیدل بھیج کے خود دوسری سواریوں کا
انتظار کرنے لگے، دوسرا رش ان بائیکرز کا تھا جو ہماری طرح منتظر تھے کہ
تھوڑی سی جگہ ملے اور ہم نکل جائیں، تیسرا رش ان مقامی افراد کا تھا جو اس
ساری صورتحال پر تبصرہ کرنے، گھنٹوں بیٹھ کے حالات کا جائزہ لینے، سیاحوں
کا سامان اٹھا کے دوسری طرف لیجانے میں مصروف تھے۔ ملی جلی سی کیفیت تھی،
ہم بھی دو گھنٹوں سے اسی کشمکش میں مبتلا تھے، مختلف آراء زیر غور تھیں،
شوگراں جائیں؟ واپس بالاکوٹ اور کشمیر نکلیں؟ ایک مقامی بزرگ نے اپنے گھر
رکنے کی آفر کی اور کہا کہ میرے بچے بھی سفر پر ہیں اس لیے چاہتا ہوں کہ آپ
لوگوں کی میں خدمت کروں تاکہ بوقت ضرورت ان کی بھی کوئی مدد کرے (کمال سوچ
اور جذبہ تھا) ، ہمارے گروپ ممبران وقفہ وقفہ سے سکیورٹی پر معمول پولیس
والے بھائیوں سے محو مذاکرات تھے، انہوں نے یقین دہانی کرا دی کہ اندھیرا
ہونے دیں کچھ کرتے ہیں، صبح سے نکلنے والے مسافروں کو یہیں سورج ڈھل چکا
تھا، بھوک لگ رہی تھی اسی اثناء میں زبیر شاہ جی نے اپنا بیگ کھولا جس میں
سے نمکو کے تین پیکٹ نکالے اور ہم سب کھانے لگے، اس کشمکش کے ماحول میں یہ
نمکو کسی بیرونی امداد سے کم نا تھی، ایک ڈرائیور صاحب سے تھوڑی گپ شپ لگی
وہ اتنا متاثر ہوئے کہ چلو وقت گزاری کیلئے بندے مل گئے لیکن ساتھ ہی پکا
سیگریٹ بھرنا شروع کر دیا تا کہ گپ شپ طویل ہونے کی صورت میں چاک و چوبند
رہ سکے اور ہم نے وہاں سے کھسکنے کو ہی عافیت جانا۔ یہیں ایک بلوچی بائیکر
لیاقت قاضی صاحب سے بھی ملاقات ہوئی جو کراچی بینک میں جاب کرتے ہیں اور
یہاں بائیک کھڑا کرکے ہوٹل کی تلاش میں نکل گئے۔
سورج ڈھلنے کے بعد اندھیرا گہرا ہونے لگا جب پولیس والوں نے کہا کہ لے آؤ
موٹرسائیکل، بس وہ دس منٹ ایسے ہی تھے جیسے ٹافیوں سے بھرے باکس میں بچے کو
رسی سے لٹکا دیا جاتا ہے کہ اٹھا لو جتنی اٹھا سکتے ہو، نہ اس سے ٹافیاں
اٹھائی جاتی ہیں نا خود کا بیلنس رکھ پاتا ہے۔ کچھ ساتھی آگے گئے ہوئے تھے،
کچھ موٹرسائیکلوں کے پاس تھے، بس اندھا دھند موٹرسائیکلوں کو ناکے سے گزار
کے پل کی جانب بھگا دیا۔ وہاں سکیورٹی کے بہت سارے اہلکار متعین تھے، مقامی
افراد کام کرنے والے ورکرز کو ہلا شیری دے رہے تھے، ٹک ٹاکرز اور یوٹیوبرز
دنیا والوں کو پل کی تازہ اپ ڈیٹ دے کر میرا چینل سبسکرائب کرکے گھنٹی کا
بٹن دبانے کی گزارشات کرنے میں مصروف عمل تھے، جو راستہ بنایا گیا تھا وہ
پیدل گزرنے کیلئے تھا لیکن بائیکرز کہاں ٹلنے والے تھے، تین تین لوگوں نے
دھکا دے کر بائیک کو ریت اور پتھروں کے مکسچرپر چڑھانا شروع کیا، بائک کو
جب زور دیتے تو باریک پتھر اڑ کر پیچھے آنے والوں کو لگنا شروع ہوئے جن میں
چند fwo کے سپروائزر یا ورکرز کو بھی لگے، بس فٹافٹ راستہ کو بند کرنے کا
حکم سنا دیا گیا۔ ہمارے گروپ کے دو بائک گزر چکے تھے، ناچیز اور ایک اور
صاحب پیچھے رہ گئے، جو گزر گئے وہ الگ پریشان اور ہم الگ سے،، خیر سامنے
موجود ورکرز سے منت ترلا کرکے قومی طریقہ اپنایا کہ ہم دو لوگوں کو بھی
جانے دو اللہ تمہیں بہت دے گا۔ 🫣۔
ہم کو بھی اجازت مل گئی لیکن جب اس چڑھائی تک پہنچے تو اللہ اللہ وہ راستہ
تھا ہی نہیں، ریت اور پتھروں کا ڈھیر تھا جس میں ٹائر دھنستا جا رہا تھا۔
ماجد شاہ جی بیک سے دھکا لگا رہے تھے، میں نیچے اتر کر سٹارٹ موٹرسائیکل کو
آگے بڑھا رہا تھا، نالے پر عارضی پل جو پائپوں کی مدد سے بنایا تھا اس پر
پہنچے تو چھوٹے پتھروں کی جگہ بڑے پتھروں اور ریت سے واسطہ پڑا۔ خیر خدا
خدا کرکے دوسری طرف نکلے تو معلوم ہوا کہ جتنی موٹرسائیکل نکلی ہیں ان میں
ہم کل چھ بائیکرز باقی سب مقامی لوگ تھے، کاغان میں داخل ہوئے تو ایک ہو کا
عالم تھا، لوگ ہمارا منہ ایسے تک رہے تھے جیسے ہم ابھی ابھی دوسرے سیارے سے
اترے ہوں۔ ہم کو بھوک نے پھر آ لیا تھا کیونکہ نمکو زیادہ عرصہ چلنے والی
نہ تھی۔ اس لیے ہوٹلوں کا سراغ لگانا شروع کیا۔ ہر کوئی سروس فراہم کرنے کو
تیار تھا مگر مینیو میں سے صرف چند چیزیں موجود تھیں۔ آٹھ روز سے وہ خود ہی
پکا کے کھا رہے تھے سیاح تو بس اکا دکا ہی آجا رہے تھے، کاغان پل کے ساتھ
ہی ہوٹل پر رکے، کھانا کھایا اور ناران کی طرف بڑھ گئے۔ سنا تھا کہ وہاں
ہوٹل مناسب مل جاتے، رات 9:30 بجے کے آس پاس ناران پہنچے، دو کمروں پر
مشتمل اپارٹمنٹ مل گیا وہ بھی تین ہزار روپے میں جس میں چھ لوگ بآسانی
ایڈجسٹ ہو گئے، کھانا تو کھا چکے تھے، بس نہائے، لباس تبدیل کیا اور سپرد
بستر ہوگئے۔
یوں 6 اگست 2024ء کو فیض آباد پنڈی سے صبح 6 بجے شروع ہونے والی رائیڈ رات
ساڑھے 9 بجے ناران جا کر اختتام پذیر ہوئی۔ تھکے ہارے شیر جوان ناران کے
موسم کی خنکی، مکمل خاموشی اور تھکاوٹ کی وجہ سے جلد ہی خواب خرگوش کا لطف
لینے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (جاری ہے)
|