ہم جا پہنچے گلگت میں (وقار کا سفرنامہ۔۔پانچویں قسط)

اگست ٢٠٢٤ میں ہونے والے ایک سفر کی داستان جو ہم نے فیصل آباد سے گلگت تک موٹرسائیکل پر کیا۔

دودی پت سر جھیل

طے شدہ شیڈول کے مطابق ہم نے #بابوسرٹاپ کی زیارت کرکے واپس آنا تھا اور جلکھنڈ سے براستہ نوری ٹاپ شاردہ وادی نیلم میں اتر جانا تھا۔ اس لیے خوبصورت روڈ پر چھکو چھک موٹرسائیکل بھگائی، #لولوسردودی پت نیشنل پارک میں بریک لگائی، اتنی زیادہ خاموشی، گہرے نیلے رنگ کی جھیل اور عارف لوہار کا گانا۔ ۔۔۔۔۔ *یاراں کولوں یار گواچن لگ پئے نیں* ۔۔۔۔ اکلوتے ہوٹل پر پنجابی عملہ نے سیاحوں کی عدم موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پورا ماحول بنا رکھا تھا۔ نہیں معلوم اس خوبصورت موسم میں کس کی اندرونی چوٹیں درد کر رہی تھیں جو دکھی گانوں سے دل بہلا رہا تھا۔ چارپائیاں نظر آئیں تو دھڑام سے لم لیٹ ہوگئے، چائے اور بسکٹ سے عیاشی کی، لولوسر جھیل کے ساتھ کچھ فوٹوبازی کی اور پھر سے سفر شروع کیا۔۔۔۔۔ ٹاپ و ٹاپ بابوسر ٹاپ۔۔۔۔

بابوسرٹاپ کی چڑھائیاں آئیں تو سب کو تاکید تھی کہ موٹرسائیکل کو پہلے گیئر میں رکھنا ہے، ایک smoth طریقہ سے چلیں گے، گیئرتبدیل نہیں کرنا۔ ریس کم یا زیادہ کے چکر میں بائک بند ہوئی تو دوبارہ اس کا موشن پکڑنا کافی دشوار ہو سکتا ہے۔ روڈ پر اکا دکا موٹرسائیکل یا مقامی افراد کے پک اپ وغیرہ نظر آئے۔ #بابوسرٹاپ پر پہنچے تو توقع کے عین مطابق ایک ہو کا عالم تھا، ایسا سناٹا کہ کمرہ امتحان کا تصور ہوتا۔ جھولے ہی کیا زپ لائن بھی خاموش تھی، ٹکٹ دینے والے خود اس پر ہوٹے لے رہے تھے، تاریخی چٹان کے سامنے کھڑے ہوکر تصاویر بھی بنوائیں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ سردی میں اضافہ ہو رہا ہے تھا اور غروب آفتاب میں بھی محض ایک گھنٹہ ہی بچا تھا۔ ہم نے جانب چلاس اترائی شروع کی۔ بابوسرٹاپ کی یہ سائڈ کافی زیادہ اترائی ہے بہت احتیاط سے اترتے اور آگے بڑھتے چلے گئے، راستہ میں ایک جگہ بوقت مغرب بریک لگائی پھر سفر شروع کیا اور چلاس جا پہنچے۔

چلاس کافی گرم ہے ایک گھنٹہ پہلے ہم سردی سے ٹھٹھر رہے تھے اور چلاس میں رات کے 8 بجے گرمی سے حالت غیر ہو رہی تھی۔شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم بابو سر ٹاپ کے فریزر سے نکل کر ڈائریکٹ کچن میں پہنچے تھے۔ یہاں ماجد شاہ جی نے SCOME کی سم خریدی ایک ہفتہ کا پیکج لگایا اور پھر سے سفر شروع۔

یہاں سے ہمارا اصل ایڈوینچر شروع ہوتا ہے۔ کشمیر کی پلاننگ کئی ہفتوں سے جاری تھی اوربابوسرٹاپ پہنچتے پہنچتے سارا پلان تبدیل ہوا اور ہم چلاس سے استور کی طرف نکلنے کا شیڈول مرتب کر بیٹھے، چلاس کے اس سٹاپ پر دو مین روڈ یکجا ہوتے ہیں، ایک جو کاغان ناران بابوسرٹاپ سے ہوتا ہوا چلاس پہنچتا ہے دوسرا مردان، سوات، بشام، کوہستان سے ہوتا چلاس پہنچتا ہے۔

تھوڑا آگے ایک ڈرائیور ہوٹل پر عشائیہ کیلئے رکے، سبزی، دال، کابلی پلاؤ سے شکم سیری کی، کھانا کھانے کے بعد اگلے پلان پر بہت شدید قسم کا اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس کی شدت اتنی تھی کہ میں اور ماجد شاہ جی نے یکسر خاموشی میں ہی عافیت سمجھی۔ ہم دونوں تو اکٹھے بارہا سفر کر چکے ہیں لیکن باقی چار دوستوں کے ساتھ یہ ہمارا پہلا ٹور تھا، مزاج کا پتا نہیں تھا اس لیے لگ پتا گیا۔ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ استور زیادہ گرم ہے یا ہمارا مشاورتی اجلاس؟ میں اور ماجد شاہ جی نگاہیں نیچی کیے سہمے رہے، جب ہم سے رائے پوچھی گئی تو ہمارا ایک ہی دوٹوک موقف تھا کہ اس ٹور میں سکردو نہیں جانا، دوسرا واپسی بھی کشمیر تک موٹرسائیکل پر کرنی ہے۔ کچھ مندوبین سکردو جانے پر بضد تھے، بالاخر فائنل یہ ہوا کہ ہم رات استور میں جا کے رکتے ہیں، علی الصبح چلم چوکی سے منی مرگ جائیں گے، اللہ اللہ کرکے گرماگرم اجلاس گرماگرم چائے کے ساتھ اختتام پذیر ہوا اور پھر سے سفر شروع ہوا۔

اب رات کا سماں تھا، چلاس سے سکردو کا روڈ تھا اور ہم تھے۔ دور دور تک نہ کوئی بندہ نا بندے کی ذات، ہمیں نہیں معلوم کہ ہمارا راستہ نخلستان سے گزر رہا ہے یا چولستان سے۔ موٹرسائیکل کی لائٹ کی روشنی میں نگاہیں سڑک پر جمائے بائک بھگاتے جا رہے تھے، سوزوکی 150 سعد بھائی چلا رہے تھے اور سب سے آگے تھے، پیچھے دیکھے بغیر کہ باقی دو موٹرسائیکل بھی ان کے ساتھ ہیں کہ نہیں۔ اس کے بعد ہونڈا 125 زبیر شاہ جی چلا رہے تھے جس کے سائڈ شیشے سرے سے موجود ہی نہیں کہ اندازہ ہو سکے کہ تیسری موٹرسائیکل کتنی دور ہے دوسرا موٹرسائیکل دھواں مار گئی تھی جس کی بدولت عین پیچھے کم فاصلے میں ہم کو رائڈ کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن تھا، تیسری یاماہا 125dx ناچیز چلا رہا تھا جو زندگی میں پہلی بار اس روڈ پر آیا تھا سیر کرنے۔

رات گہری ہوتی جا رہی تھی اور سڑک کے خاندانی قسم کے کھڈے تراہ نکال دیتے، بریک لگاتا تو ساتھی نظروں سے اوجھل ہوتے۔ قرآنی آیات اور ورد وظیفے شاید ایسے موقع کیلئے ہم سنبھال کے رکھتے ہیں بس پڑھنا شروع کیے، ایک سرنگ بھی آئی، کچا پکا راستہ بھی، پختہ سڑک بھی اور عجیب و غریب اونچے پہاڑ بھی لیکن ہماری جانے بلا ہم تو سڑک پر توجہ مرکوز کیے جارہے تھے کہ پولیس کی گاڑیوں کی لائٹس دکھائی دیں، جیسے جیسے قریب پہنچے معلوم ہوا کہ پولیس ہی نہیں ساتھ رینجرز بھی ہے ، سب مسلح اور بہترین پوزیشن لیے وقفہ وقفہ سے کھڑے تھے روڈ بلاک کرکے، تراہ تو واقعی نکل گئے جب انہوں نے روکا۔ جپھی ڈالنے کے سٹائل میں ایک بزرگ پولیس والے نیں ہماری تلاشی اور مختصر انٹرویو کیا، رات کے اس وقت آنے پر کچھ حیران بھی ہوئے اور ایک آواز لگائی مہمان ہیں جانے دو۔ اور راستہ کھل گیا ابھی تک چلاس سے یہاں تک گاڑیاں یا گاڑی کی سواریاں یہی سکیورٹی والے ہی ملے باقی سب سناٹا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے
 

محمد قاسم وقار سیالوی
About the Author: محمد قاسم وقار سیالوی Read More Articles by محمد قاسم وقار سیالوی: 29 Articles with 5892 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.