ہم جا پہنچے گلگت میں(وقار کا سفرنامہ۔۔۔چھٹی قسط)

فیصل آباد سے گلگت تک سفر جو ہم نے موٹرسائیکل پر کیا، امید ہے داستان قارئین کو پسند آئے گی۔ اپنی رائے کا اظہار ضرور کیجئے ۔

فیری میڈوز، رائی کوٹ چیک پوسٹ پر رات کے وقت اندراج کرواتے ہوئے

سکیورٹی ناکہ سے گزر کر ایک بار پھر سفر شروع ہوا۔ اب روڈ پر باضابطہ ریت بھی موجود تھی جس سے سلپ ہونے کا خطرہ تھا، اس لیے محتاط رائیڈنگ اندھیرے میں بھی جاری رہی۔ ابھی کوئی تیس چالیس کلومیٹر ہی گزرے ہونگے کہ کاروں کی ایک لمبی قطار سامنے سے آتی دکھائی دی۔ سکھ کا سانس لیا کہ کوئی روڈ پر ہلچل شروع ہوئی ہے۔ لیکن اس ہلچل نے اب باضابطہ پریشان کرنا شروع کر دیا تھا۔ ہر گاڑی فل لائٹ آن اور بھاگم بھاگ جیسے ابھی پنجرے سے رہائی ہوئی ہو، ویسے بھی روڈ پر کار والے بائیکر کو کسی خاطر میں نہیں لاتے، مجبوراََ مجھے بھی LED لائٹس آن کرنا پڑیں، تب جا کے افاقہ ہوا اور سامنے والے کچھ سکون سے کراس کرنے لگے۔ ویسے میں تیز LED لائٹس کے استعمال سے گریز کرتا ہوں جب تک مجبوری نا ہو۔

اگلی بریک فیری میڈوز والے ناکے پر لگی جہاں سکیورٹی والوں نے باریک رسی لگا کے ہمارا راستہ روکا۔ اور انٹری کروانے کا کہا۔ سعد بھائی نے سب کی مشترکہ انٹری کروائی، وہیں پولیس چوکی کے کولر سے سب نے پانی پیا جو خلاف توقع شدید ٹھنڈا تھا، استفسار پر معلوم ہوا کسی قریبی چشمہ سے بھرا گیا ہے۔ رات کے .ساڑھے دس بج چکے تھے، یہاں سے گلو خلاصی کرا کے جانب استور سفر جاری رکھا۔ اب سڑک پر چھوٹی گاڑیوں کی جگہ بڑی بسوں اور ٹرکوں نے لے لی، اتنا شدید رش کہ اللہ کی پناہ اور سب بھاگم بھاگ، ایک جگہ استور کا بورڈ نظر آیا وہاں سے دائیں مڑ گئے سکھ کا سانس لیا اس طرف ٹریفک بالکل نا تھی۔ ارد گرد کے ماحول سے یکسر نابلد نگاہیں روڈ پر جمائے سفر مسلسل جاری رہا۔ ایک اور ناکے پر انٹری ہوئی اور کبھی ایک پل پھر دوسرا پل پھر تیسرا کبھی دریا کے ایک طرف کبھی دوسری طرف، سفر مسلسل جاری رہا۔ استور کے خوش آمدید والے گیٹ سے گزرے تو منزل پر پہنچنے کی نوید ملی، شاید اس روڈ پر استور کا یہ دائیں طرف والا پہلا ہی ہوٹل تھا جس کا انتخاب کیا گیا بوجہ تھکاوٹ۔ نام تھا *ریور ویو ہوٹل* پہلی منزل پر دو کمرے بک کیے، تین تین کے گروپ نے ایک ایک کمرے پر قبضہ جمایا، فریش ہوئے اور بس سونے کیلئے بستروں میں گھس گئے، سردی اتنی نا تھی لیکن گرمی بھی نا تھی، سردی گرمی سے بے خبر ناران، سیف الملوک، بابوسرٹاپ، چلاس، پھر استور پہنچنے والے مسافر لم لیٹ ہوگئے، سعد بھائی نے آرڈر جاری کیا کہ چھ بجے سب تیار ہو جائیں منی مرگ جانا ہے جبکہ یہاں حالت یہ تھی کہ لائٹس بند اور مکمل تخلیہ مابدولت سونا چاہتے ہیں۔ میں نے اور ماجد بھائی نے تو اتنی صبح اٹھ کر منی مرگ جانے سے یکسر معذرت کر لی اور باقی سب کو اجازت دی کہ آپ جانا چاہیں تو سو بسم اللہ۔ ہمارا کوئی گلہ شکوہ نہیں۔

موبائل کے سگنل ایس کام سم کی بدولت بحال ہو چکے تھے، personal hotspot سے connect کرکے رابطہ بحال کیا، گلگت میں اپنے ایک دیرینہ دوست عثمان غنی صاحب سے رابطہ ہواانہوں نے بتایا کہ میں شام پانچ بجے دفتر سے واپس آجاؤں گا آپ بھی تب تک پہنچ جاؤ۔ ہم ٹکا کے سونا چاہتے تھے اس لیے اگلے دن گلگت پہنچنے کیلیے کافی وقت تھا۔ سو ان سے پروگرام فائنل کیا، انٹرنیٹ بند، فون بند اور آنکھیں بند کرکے Good Night ہوگئے۔
ہم ایسے گھوڑے بیچ کے سوئے جیسے قوم کو اذیت میں ڈال کے سیاست دان سو جاتے ہیں۔ صبح ساڑھے سات بجے کے آس پاس آنکھ کھلی تو دیکھا سعد بھائی ابھی بستر پر موجود تھے، جب وہ موجود ہیں تو باقی تین ممبران بھی یقیناً ہونگے، طے پایا کہ رات منی مرگ کا پروگرام کینسل کرکے یہاں قریب راما لیک کا ارادہ ہے۔ تین چار گھنٹے وہاں گزار آتے ہیں پھر آپ گلگت نکل جانا اور ہم چلم چوکی کی طرف۔ ہمارے پاس بھی شام پانچ بجے تک کا وقت تھا تو سوچا سو کے کیا گزارنا راما لیک چلتے ہیں۔

ناشتہ کیا، اضافی سامان ہوٹل کی ریسپشن پر چھوڑا، کمرے کا حساب کتاب کلیئر کیا اور موٹرسائیکلوں کو راما لیک کے راستے پر ڈال دیا۔ پہلی ہی چڑھائی اتنی شدید آئی کی اوسان الرٹ ہوگئے کہ عشق کے امتحان ختم نہیں بلکہ کافی پیپر رہتے ہیں ابھی۔ دو موٹرسائیکل آگے گزر گئے ہم ٹھہرے سکون ماحول، تلاش کے بعد بھی وہ نا ملے تو اب پوچھ پوچھ کے راما کے راستے کو تلاش کیا۔ دوسرے چوک میں ساتھیوں سے ملاقات ہوگئی، بھلا ہو مقامی لوگوں کا رہنمائی کی کہ یہ نہیں دوسرا راستہ لیں اس طرف چڑھائیاں اتنی زیادہ نہیں. ایک بات ہمیشہ زہن نشین رہے نئے بائیکرز کے کہ مقامی لوگوں کیلئے بعض چیزیں تشویش ناک نہیں ہوتیں لیکن نئے بندے کیلئے مسئلہ بن جاتی ہیں۔ رکتے، سانس لیتے، گاڑی ٹھنڈی کرتے راما جا پہنچے۔ ایک خوبصورت منظر آنکھوں کے سامنے تھا۔ ایک مکمل کیمپنگ⛺ سائٹ تھی، جسے جنگل میں منگل کہنا بے جا نا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے
 

محمد قاسم وقار سیالوی
About the Author: محمد قاسم وقار سیالوی Read More Articles by محمد قاسم وقار سیالوی: 45 Articles with 11975 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.