ہم چا پہنچے گلگت میں (وقار کا سفرنامہ۔۔۔۔آتھویں قسط)

یہ سفر ہم نے اگست ٢٠٢٤ میں فیصل آباد سے گلگت تک کیا۔ اس کی مختصر روئیداد ہے۔ امید ہے قارئین پسند کریں گے ۔

راما کیمپنگ سائٹ سے واپسی کا سفر

9 اگست 2024ء کی صبح ہم کو راما کیمپنگ ⛺⛺ سائٹ پر ہوئی۔ صرف میں ہی نہیں شاید ایک دو اور دوست بھی ٹھیک طرح نیند نہیں کر پائے ہونگے یہ میرا گمان ہے، پوچھا اس لیے نہیں کہ سفر میں ہمیشہ ایسی بات کریں جس سے دوسرے کو حوصلہ اور مزید سفر کا جذبہ پیدا ہو۔ سب چھ بجے تک تیار تھے، ناشتہ ہم نے استور کرنے کا پروگرام بنایا۔ ناشتہ کے بعد کیا کرنا ہے؟ یہ وہ سوال تھا جس سے میں دلی طور پر بچنا چاہتا تھا کیونکہ میں کل سے ہی اپنا پلان جانب گلگت موڑ چکا تھا۔ زبیر شاہ جی کا کوئی حکم ہوتا تو میرے لیے انکار کرنا ممکن نا تھا۔ دوسری وجہ ساتھی منی مرگ جانا چاہتے تھے اور وہاں 150 سی سی سے کم بائک کو داخلہ کی اجازت ہی نہیں بصورت دیگر جیپ لینا پڑتی جس کا کرایہ 24 ہزار کے لگ بھگ بتایا جا رہا تھا۔ اگرچہ کرایہ آپس میں برابر تقسیم ہونا تھا لیکن سعد بھائی اور شانی بھائی اپنی 150 موٹرسائیکل پر جانا چاہتے تھے، پیچھے بچنے تھے ہم چار لوگ، اگر جیپ کی سواری ہی کرنی تھی تو اتنا دور موٹرسائیکل لانے کا مقصد ہی کیا تھا؟ اس لیے دو آپشن تھے یا تو سب جیپ پر جاتے یا سب بائک پر۔ ایسا فی الحال ممکن نظر نہیں آ رہا تھا اس لیے میں منی مرگ کی جگہ گلگت کو فائنل کر چکا تھا۔

ہمارے اک ساتھ اگرچہ 4 دن ہی گزرے تھے لیکن محسوس ایسے ہوا جیسے کافی عرصہ سے جانتے ہیں۔ زبیر شاہ جی ہمارے دیرینہ دوست سید نعمان شاہ جی تترال کہون والے کے عزیز نکلے جس سے اور زیادہ قلبی سکون ملا۔ شانی بھائی بھی ذوقی آدمی تھے جبکہ امجد بھائی درویش صفت اور خاموش مزاج ہمیشہ ہم سے الگ تھلگ اپنی ہی دنیا میں محو نظر آئے، ماجد شاہ جی میرے پہلے کشمیر کے موٹرسائیکل سفر سے آج تک تقریباً ہمراہ ہیں اس لیے تقریباً ہم مزاج ہیں، سعد بھائی سے کافی عرصہ کا تعلق ہے لیکن یہ سفر ہمارا ایک ساتھ پہلا تھا۔ سب دوستوں کے ساتھ خوبصورت لمحات گزارے، اک ساتھ مسکرائے، اک ساتھ کھایا پیا، گرمی سردی میں اک ساتھ رہے، یقیناً ہم پنڈی تک اکٹھے آتے تو مزہ کچھ اور تھا ہم گھر سے اتنی دور استور کے علاقہ میں ایک دوسرے کو الوداع کہنے کو تیار تھے، آپس میں بغل گیر ہوئے، سیدھی بات ہے اپنے جذبات کو کنٹرول کیے ہوئے تھا، زیادہ بات چیت سے بچتے ہوئے جلدی روانہ ہونا چاہتا تھا سو سب دوستوں کو الوداع کہا اور ہم دونوں اپنی بائک پر بیٹھ کر استور سے گلگت کی طرف عازم سفر ہوئے۔ باقی احباب دن 11 بجے کی بس کی ٹکٹ خرید چکے تھے۔

استور سے نکلے تو محسوس ہوا کہ آگے موسم گرم ہونے والا ہے۔ منہ کو چادر سے لپیٹا پھر ہیلمٹ پہنا، ڈبل دستانے چڑھائے، سفر شروع کیا، راستہ نیم پختہ تھا لیکن جا بجا ورکرز کھڈوں کو مٹی سے بھرنے میں مصروف نظر آئے۔ جیسے جیسے ہم نیچے کی طرف آ رہے تھے موسم میں گرمی کا عنصر بڑھتا جاتا تھا۔ استور موڑ پر پہنچے تو کچھ بچے انگور بیچنے میں مصروف تھے ان سے خریداری کی، مین ہائی وے پر جانب جگلوٹ سفر جاری رکھا، خشک پہاڑ ہمارے دائیں بائیں موجود تھے، روڈ بہت شاندار تھا اس لیے سپیڈوسپید سفر جاری رکھا۔ آگے ایک پانی کا نالہ نظر آیا تو موٹرسائیکل ایک سائڈ پر روکی، انگوروں کو ٹھنڈے پانی سے غسل دیا اور وہیں نوش کر لیے۔ سفر پھر سے شروع تھا، جگلوٹ سے آگے تین عظیم پہاڑی سلسلوں کا جنکشن پوائنٹ آیا جہاں کوہ ہمالیہ، کوہ قراقرم اور کوہ ہندوکش کا آغاز ہوتا ہے۔ تینوں پہاڑی سلسلوں کے سرے یہاں ملتے ہیں پھر دور دراز علاقوں تک اپنی اپنی سمت میں پھیلتے چلے جاتے ہیں، یادگار بھی بنی ہے اور یادگار پر کچھ لوگوں نے اپنی ہیند رائٹنگ کرکے یادگار کا ستیاناس کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، ابھی اس جگہ ہم تصاویر بنا رہے تھے کہ دو بائیکرز پہنچے، تھوڑا سا تعارف ہوا تو معلوم ہوا کہ اپنے شہر فیصل آباد کے ہیں خوشی ہوئی ساتھ تصویر بنائی اور آگے سفر شروع کیا۔ اگلا پوائنٹ سکردو جنکشن تھا جہاں سے راستہ سکردو کی طرف مڑتا ہے وہاں سے آگے ہم گلگت بلتستان کے دارالحکومت گلگت میں داخل ہوگئے، جمعہ کا دن تھا مساجد میں لوگ جمعہ کی ادائیگی میں مصروف تھے اور ہم گرمی کے ستائے مسافر اپنی جائے سکونت کی تلاش میں سرگرداں تھے۔ گلگت میں ہمارا مسکن کونوداس کے علاقہ میں تھا۔ گلگت شہر کے بیچوں بیچ دریائے سندھ بہتا ہے، ہم دریا کے اس پار پہنچے، عثمان بھائی سے رابطہ ہوا۔ کچھ تگ و دو کے بعد ملاقات ہوگئی، گرم جوشی سے بغلگیر ہوئے، موٹر سائیکل گیراج میں کھڑا کیا اور کمرے میں جا پہنچے، غسل کرکے لباس تبدیل کیا جو ناران سے اب تک زیب تن تھا دو وجوہات کی بنا پر ایک تو میرے کپڑے استری نا تھے دوسرا جہاں استری ملی وہاں بجلی نا تھی، جہاں بجلی تھی وہاں استری نا تھی۔ اور یہ میری زندگی کا پہلا موقع تھا کہ ایک ٹراؤزر شرٹ میں تین دن گزارے ورنہ میں شلوار قمیض ہی پہنتا ہوں یہ سب دوست جانتے ہیں۔

فریش ہونے کے بعد نماز پڑھی اسی اثنا میں کھانا لگ چکا تھا جو عثمان بھائی کی مہمان نوازی کا آئینہ دار تھا۔۔۔۔۔ یوں ہم کشمیر کی نیت سے نکلنے والے مسافر۔۔۔۔۔ *گلگت جا پہنچے*۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری یے
 

محمد قاسم وقار سیالوی
About the Author: محمد قاسم وقار سیالوی Read More Articles by محمد قاسم وقار سیالوی: 29 Articles with 5906 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.