ہم جا پہنچے گلگت میں (وقار کا سفرنامہ۔۔۔۔۔۔نویں قسط)

یہ سفر ہم نے اگست ٢٠٢٤ میں فیصل آباد سے گلگت تک کیا۔ اس کی مختصر روداد ہے امید ہے قارئین پسند کریں گے ۔

شپ شورو اور شو شورو (دو گلگتی ڈشیں)


کھانے کے بعد کچھ دیر سستایا اور پھر نکل کھڑے ہوئے گلگت کے دورہ کو۔ گلگت میں بھی فیصل آباد کی طرح کاروباری مراکز کا شیڈول ہے یعنی کاروباری مراکز جمعہ کو بند اور سرکاری ادارے اتوار کو۔ آج بھی جمعہ تھا اور زیادہ تر دکانیں بند تھیں، لیکن اکا دکا کھلی بھی تھیں۔ اندرون شہر کی کچھ سڑکوں پر رائڈ کی، این ایل آئی مارکیٹ شاید گلگت کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے، یہ بھی مکمل بند تھی، اسی کے پاس ایک ڈرائی فروٹ شاپ پر چلے گئے، فریش ڈرائی فروٹ کا سٹاک موجود تھا، یہاں ایک خاص بات جو نوٹ کی کہ ہر گھر میں فروٹ کے درخت یا انگور کی بیلیں موجود ہیں، پھلوں کو خشک کرنے کا فن بھی تقریباً سب لوگوں کوآتا ہے، ہمارے کھڑے کھڑے ایک بچہ شاپر میں کچھ لے کر آیا، دکاندار نے اس کو تولا اور پیسے نکال کے اس کو دے دیے، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ خوبانی خشک کرنے کے مرحلہ میں اس کی گٹھلی نکال لی جاتی ہے اور گھروں میں خواتین و بچے اس گٹھلی کی گری نکال کے بازار میں بیچ دیتے ہیں۔ یہاں پہلی بار خشک جاپانی پھل سے بھی واسطہ پڑا، خشک آم، چیری، کڑوے باداموں کی خاص قسم جس کے بارے بتایا گیا کہ معدہ کی سوزش اور سینے کی جلن کیلئے بہت آزمودہ ہیں۔ خشک شہتوت جو ہمیشہ سہون شریف سے ہی آتے دیکھے یہاں بھی اچھی کوالٹی میں موجود تھے، فریش چلغوزہ کی بھی زیارت ہوئی دکاندار نے کمال سخاوت کرتے ہوئے کچھ کھانے کو دیے، جتنی دیر دکان میں رہے کبھی اخروٹ، کبھی بادام، کبھی چیری کچھ نا کچھ کھاتے رہے وہ بھی دکاندار خود چیک کرواتا رہا۔ یہاں یہ بھی معلوم ہوا کہ سلاجیت بھی ایک نمبر سے تین چار، پانچ نمبر تک مل جاتی ہے۔

پیسوں کیلئے قریبی ABL کے ATM تک گیا تو اندر نا تو AC تھا نا لائٹ نا اس کا دروازہ اندر سے لاک ہوتا تھا، سوچا کمپلین کروں تو اندر ٹیلیفون کی تار موجود تھی اور سیٹ بالکل نہیں۔ موبائل کی لائٹ آن کرکے مشین کو آرڈر دیا اور پیسے مل گئے۔ الحمدللہ۔

یہاں سے مزید آگے بڑھے تو ایک جگہ عثمان بھائی نے بائک روکی اور کھا کہ آؤ برف کھاتے ہیں۔ حیران تھا کہ یہ کونساوقت ہے برف کھانے کا اور اگر موڈ ہوا بھی تو گھر جا کے کھا لیں گے۔ لیکن جلد بازی بالکل نا کی کیونکہ ہم تو مہمان تھے اور ہمیشہ کچھ نیا کرنے، جاننے اور سیکھنے کا اشتیاق رہتا ہے، کچھ دیر میں تین سٹیل کی پیالیوں میں برف کا گولا ہمارے سامنے تھا۔ البتہ اس پر مختلف رنگوں کی جگہ صرف روح افزا ڈالا ہوا تھا۔ چونکہ اس چیز سے ہم سکول کے دور سے واقف ہیں تب تیلے پر لگا کے ملا کرتا تھا، جب ہائی سکول میں شفٹ ہوئے تو جیب خرچ بھی ایک روپیہ سے پانچ روپے ہفتہ وار ہوگئے تو سکول کے باہر *چاچا بورا* گولا فروش سے پیالی میں برف کا گولا کھانا شروع کیا، کمال ذائقہ ہوتا تھا ڈرائی فروٹ، مختلف رنگ کے شربت اور کھویا اور ساتھ چاچا بورا کی طالب علموں کے ساتھ سخاوت کا لطف ہی الگ ہوتا تھا۔ ذہن بھی کیا ہے ایک پیالی گولا کی آتے ہی مجھے نوے کی دہائی میں لے گئی۔ جب پہلا چمچ کھایا تو ذائقہ کچھ مختلف لگا۔ میری حیرانگی کو بھانپتے ہی میزبان نے جھٹ سے کہا کہ یہ برف عام نہیں ہے، یہ گلیشیر کی برف ہے، پہاڑوں سے لیکر آتے ہیں اور مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں اور یہ اس سے گولا بناکے دیتے ہیں۔ روح افزا تو بس دل پشوری کیلئے ہے ورنہ لوگ سادہ بھی شوق سے کھاتے ہیں۔ اب اجزائے ترکیبی معلوم ہونے پر اس کی فوٹو بنائی تاکہ سند رہے۔

کچھ سڑکوں پر گشت کرنے کے بعد دریائے سندھ کے کنارے آگئے، پتھروں پر بیٹھ کے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا سے لطف اندوز ہوئے، کافی اندھیرا تھا لیکن روڈ کا کنارہ ہونے کی وجہ سے وقفہ وقفہ سے گاڑیوں کی لائٹس بھی پڑتی جس سے دریا کا منظر اور سہانا ہو رہا تھا، سچی بات ہے کہ دریا کا کنارہ پتھروں سے ٹکراتا پانی اور یخ بستہ ہواوں نے طبیعت کو ہشاش بشاش کر دیا۔ نہیں معلوم کتنی دیر بیٹھے پھر اٹھے اور گھر آگئے۔

رات کے کھانے کا مینیو مقامی ڈشوں سے لبریز تھا، جس میں قیمہ والی روٹی جسے چھوٹا پیزہ بھی کہہ سکتے ہیں مقامی زبان میں اس کو *شپ شورو* کہتے ہیں، ایک دوسری ڈش جو پاستہ ٹائپ تھی، میدہ سے بنی چوڑی سویاں جن میں قیمہ لپیٹ کر گول انڈے جیسی شکل دی گئی تھی ساتھ شوربا جس کا نام *شوشورو* بتایا گیا۔ اب مجھے نہیں معلوم کہ یہ پشتو نام تھے یا گلگتی۔ میٹھے چاول تھے انتہائی لذیذ ڈرائی فروٹ کے اضافی چھڑکاؤ کے ساتھ۔ کھانے کے معاملے میں ہم اتنے چٹورے تو واقع نہیں ہوئے لیکن عثمان بھائی کی اس محبت اور بھابھی صاحبہ کی محنت سے ہونے والی کوکنگ کو بھلا کون بد نصیب ٹال سکتا تھا۔ دوران طعام میزبان نے بتایا کہ بچوں کو پیزہ، شوارما ، چاکلیٹ کی بجائے ہوم منسٹری گھر میں اس سے ملتی جلتی شکلوں والی صحت مند اجزاء سے بنی چیزیں بنا کے دیتی ہیں۔

گلگت میں دن کو موسم جتنا گرم تھا رات کو اتنا ہی سہانا ہوجاتا ہے۔ رات بہت سکون سے گزری، صبح 8 بجے ناشتہ کیا، عثمان بھائی مکان کی چھت پر لے گئے جہاں کا منظر دیکھ کے دل باغ باغ ہو گیا۔ چھوٹی سی چھت کیا تھی کچن گارڈننگ کا شاہکار تھا، ایک طرف مرغیوں کا ڈربہ تھا جس میں دیسی مرغ اور مرغیاں سکونت پذیر تھیں، دوسری طرف سبزیوں کی کیاری تھی۔ جس میں دھنیا، ہری مرچیں، پودینہ، سونف، شملہ مرچ، بینگن، بھنڈی توری، لہسن، پیاز، کدو سمیت متعدد سبزیاں موجود تھیں اور تو اور ایک گملے میں مکئی 🌽 کی چھلیاں بھی موجود تھیں۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے اب یہ نہیں پتا کہ ملکہ عالیہ سے یہ شوق عثمان صاحب میں شفٹ ہوا یا ان کی وجہ سے ان کی عادت بنی۔ کھاد ہو یا سنڈی سے بچاؤ کا سپرے سب کچھ دیسی ساختہ خود بنا رکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (جاری ہے)
 

محمد قاسم وقار سیالوی
About the Author: محمد قاسم وقار سیالوی Read More Articles by محمد قاسم وقار سیالوی: 29 Articles with 5903 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.