ہم راما گاؤں پہنچ چکے تھے، انتہائی منظم انداز میں
کیمپنگ سائٹ بنائی گئی تھی، سب ساتھیوں نے مشورہ کیا کہ کیوں نا یہاں ایک
رات کیمپ میں گزاری جائے۔ سب کی نظریں میری طرف اٹھیں، اب جب سارے تیار ہیں
تو انکار کرنا مناسب ہی نہیں تھا۔ سید زبیر شاہ جی نے مہر لگا دی کہ میں
وقار صاحب کو رکنے کا کہتا ہوں وہ انکار کر ہی نہیں سکتے۔ یقیناً ایسا ہی
تھا انکار کی گنجائش ہی نہیں تھی، ایک کیمپ سیلیکٹ کیا، اس میں اپنا سامان
رکھا، اور راما جھیل کی طرف سفر شروع کیا۔ ایک اور بات ذہن نشین رہے کہ
جھیل پر جانے کا راستہ ہو اور کچا نا ہو یہ شاذ و نادر ہی ہے۔ یہ بھی جیپ
ٹریک ہے اور آدھے سے زیادہ خچروں پر طے کیا جاتا ہے یا پیدل۔ اس پیدل ٹریک
پر مقامی افراد موٹرسائیکل بھی بطور ٹیکسی چلاتے ہیں، ہم نے بھی ان کے
دیکھا دیکھی موٹرسائیکل پیدل ٹریک پر ڈال دی لیکن جلد ہی اپنے فیصلہ پر
نظرثانی کرتے ہوئے موٹرسائیکل کو ایک سائڈ پر کھڑا کر دیا اور بقیہ ٹریک
پیدل کرنا شروع کیا۔ اسی دوران گلگت کے چار طالب علموں کے گروپ سے آمنا
سامنا ہوا انتہائی ملنسار اور باخلاق تھے، جب انہوں نے دیکھا کہ مجھے مشکل
پیش آ رہی ہے تو ایک پیدل ہوگیا اور اپنی جگہ مجھے بائک پر بٹھا لیا۔ کچھ
فاصلہ طے ہوا نظر نیچے گہری کھائی پر پڑی اور تنگ راستے پر تو یکایک بائک
روکنے کا کہہ کے پیدل ہو لیا۔ ان میں سے دو لڑکے میرے ہمراہ پیدل ہوگئے کہ
مہمان ہے کہیں ڈر ہی نا جائے۔ اللہ سلامت رکھے ان کو ۔ شاید فیس بک دوبارہ
آمنا سامنا کرادے زندگی کے کسی موڑ پر۔
کچھ اور بھی سیاح ٹریک پر موجود تھے، دھڑا دھڑ سیلفیاں چل رہی تھیں، ساتھ
ہی کچھ میری طرح ہانپتے کانپتے رکتے رکاتے چل رہے تھے۔ جن کو پیدل چلنے کا
شوق ہی نا ہو ان کا جھیل تک پہنچنا چاند پر پہنچنے کے مترادف ہے۔ ایسی
صورتحال میں جلد بازی نہیں بلکہ کچھوے کی چال چلتے جائیں تھک جائیں تو بیٹھ
جائیں۔ بڑی جھیل سے پہلے ایک گلیشیر کی جھیل سے آمنا سامنا ہوتا ہے جس کو
کٹورا جھیل کہہ رہے تھے، ہم نے ساتھی سے کہا کہ اس کو آپ کیا نام دو گے تو
تھکاوٹ سے چور ممبر نے جھٹ سے کہا *تھکاوٹ لیک 🤦🏻♂️*
اس سے آگے ایک اور پانی کا چھوٹا سا ذخیرہ نظر آیا اس کی شکل کے مطابق
تلوار جھیل کا نام دیا گیا۔ اس سے آگے راما جھیل کا درشن ہوا۔ لیکن جھیل تک
جانے کیلئے ابھی مزید بیس منٹ نیچے اترنا پڑنا تھا۔ بہت سارے شوقین ٹورسٹ
فیملیاں یہاں سے ہی فوٹوشوٹ کرکے واپس پلٹ گئیں اور ہم جا پہنچے جھیل کے
کنارے، چونکہ ہم رات کیمپ⛺ میں گزارنے کا حتمی فیصلہ کر چکے تھے اس لیے
یہاں کچھ وقت بیتانا اچھا لگا۔ کچھ یخ بستہ پانی میں نہا لیے ہم نے وضو
کرنے پر ہی اکتفا کیا۔ ارد گرد کچھ وقت گزارا، اللہ کہ قدرت پر بے ساختہ
سبحان اللہ نکل رہا تھا۔
اس جگہ کی خاص بات کہ یہاں سے نانگا پربت the killer mountain 🗻 کا نظارہ
بہت قریب سے کیا جا سکتا ہے۔ یہی نظارہ کرنے لوگ فیری میڈوز جاتے ہیں۔ ماجد
شاہ جی اور سعد بھائی مزید قریب سے دیکھنے کا عزم لیکر اور آگے پہاڑ کی
دوسری طرف کیلئے روانہ ہو گئے، میں واپس پلٹا، کنٹین سے تازہ گرما گرم
پکوڑے اور چائے سے ریفریشمنٹ حاصل کی، کچھ وقت تنہائی میں گزارا، مختلف
خیالات کی دنیا میں گم رہا۔ پھر واپس نکلا، راستے میں ایک جڑی بوٹی پر نظر
پڑی (جس کا نام بٹبیڑہ یا زخم حیات ہے) جانی پہچانی لگی، ایک مقامی چرواہے
سے تصدیق کی اور تھوڑی سی ہمراہ لے لی کیونکہ راما میں شاپر کا استعمال
ممنوع ہے اور میں ویسے بھی خالی ہاتھ تھا اس لیے زیادہ نا لا سکا۔
واپس کیمپ سائٹ پر پہنچا تو زبیر شاہ جی نے اپنی مجلس سجا رکھی تھی، ابھی
تک ان کا مکمل تعارف نہ ہوا تھا، لیکن کمال کی آواز رکھتے ہیں، دینی نالج
بھی پورا، مسائل پر بھی عبور، لوگوں کی چہرہ شناسی کا الگ سے تجربہ۔ یہاں
سگنل نہیں تھے اور شام کے پانچ بج رہے تھے، گلگت میں عثمان بھائی منتظر
ہونگے کال کرنا لازمی تھا۔ پتا چلا کہ نیچے پولیس چوکی کے پاس سگنل آتے
ہیں۔ ہم وہاں پہنچے واقعی سگنل مل گئے، جب گلگت میں بات ہوئی تو وہ پریشان
تھے کہ مہمان پہنچے نہیں اور وہ کھانا بنا کے منتظر تھے۔ اللہ اللہ۔ معذرت
کی اور کل پہنچنے کا وعدہ کرکے فون بند کیا۔ دفتر میں رابطہ کیا، گھر بات
کی اور واپس کیمپ میں آگئے۔ سردی بڑھ رہی تھی اور نیند بھی بھوک کی طرح
زوروں پر تھی۔
امجد صاحب نے مرغی ذبح کی، شاہ جی اور شانی بھائی نے چکن ہانڈی تیار کی،
روٹیاں قریبی تنور سے لے آئے، کیمپ میں بیٹھ کے dinner کیا، دوران طالب
علمی سکاؤٹ کیمپ کی یاد تازہ ہو گئی. کھانا کھا کے کچھ دیرآگ سینکتے رہے،
گپ شپ کا ماحول رہا، مقامی لوگوں سے گفت و شنید ہوتی رہی، سردی بڑھ رہی تھی
اور ہم واپس بستروں میں آ پہنچے۔
اس دور دراز علاقہ میں اچانک بھائی اقبال صابری کا ایک قول سلور یاد آیا جو
انہوں نےپنجاب کی سردیوں میں فرمایا تھا کہ *کمبل بنانے والو ایک طرف سے
تھوڑا لمبا رکھو سمجھ ہی نہیں آتی کہ اس کو اوڑھنا کس طرف سے ہے* ایسے ہی
کمبل سے میرا واسطہ پڑا تھا۔ منہ چھپاؤ تو پاؤں باہر پاؤں چھپاؤ تو منہ
باہر۔ سکڑ کے سونے کی عادت نہیں تھی بس ساری رات ہل جل کے گزاری، اس نتیجہ
پر پہنچا کہ کیمپ میں سونا بھی کوئی معمولی بات نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے۔
|