لاکھوں شامی مظلوموں کی آہیں رائیگاں نہیں گئیں۔ ظالم شامی حکمراں بشارالاسد روس میں پناہ لینے کیلئے مجبور

شام میں اپوزیشن نے فتح حاصل کی ہے یا پھر اسرائیل نے ۰۰۰؟ ایک طرف بشارالاسد حکومت کے خاتمے نے شامی عوام خصوصاً جیلوں میں قید ہزاروں افراد بشمول معصوم بچے و خواتین کیلئے آزادی کا پیغام دیا تو دوسری جانب ظالم اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو نے گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کرتے ہوئے شام میں سینکڑوں فضائی حملے کرکے شام کو پوری طرح سے کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسرائیلی فوج کے مطابق اس نے 480 فضائی حملے کیے ہیں اور شام میں اینٹی ایئر کرافٹ بیریئرز، ایئرفیلڈز، ہتھیار بنانے والی فیکٹریوں، ہتھیاروں کے ڈپو، فوجی سٹرکچرز، لانچرز اور فائرنگ پوزیشن کو ہدف بنایا گیا۔یہی نہیں بلکہ ابھی اسرائیل کے شام پر حملے جاری ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق بتایا جاتا ہیکہ گولان کی پہاڑیوں کے بفرزون سے باہر نکل کر اسرائیلی ٹینک دمشق سے 25 کلو میٹر دور تک پہنچ گئے ہیں۔اسرائیلی فوج نے شام کے شہر لطاکیہ کے قریب فضائی دفاعی تنصیب کو نشانہ بنایا، اس کے ساتھ ہی شامی بحریہ کے جہازوں کے ساتھ ساتھ فوجی گوداموں کو بھی نقصان پہنچایا۔ اسرائیل کے حالیہ فضائی حملوں کے نتیجے میں لطاکیہ کے ساحل پر موجود شامی بحریہ کے جہاز مکمل طور پر تباہ ہوگئے ہیں۔ ان حملوں نے نہ صرف بحری بیڑے کو نقصان پہنچایا بلکہ لطاکیہ کی بندرگاہ کے بنیادی ڈھانچے کو بھی بری طرح متاثر کیا۔ان حملوں کو جاری رکھتے ہوئے اسرائیل نے شام میں حملوں کو سلامتی کے تحفظ کیلئے محدود اور عارضی اقدامات قرار دیاہے۔چند عرب ممالک نے گولان کی پہاڑیوں میں بفر زون میں اسرائیلی فوج کے قبضے کی مذمت کی ہے۔ سعودی عرب، مصراورقطر نے کہا ہے کہ اسرائیل کا یہ اقدام شام کی خود مختاری، بین الاقوامی قانون اور 1974 کے ‘ڈِس انگیجمنٹ’ معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔اسرائیلی حملوں کے دوران وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے منگل10؍ڈسمبر کے روز شامی اپوزیشن (فاتحین) کو خبردار کیا کہ وہ ایران سے ہاتھ ملانے سے باز رہیں اور اگر انہوں نے ایران کو شام میں تنظیم نو کی اجازت دی تو پھر ان کا بھی وہی حشر ہو گا جو اس سے قبل بشار الاسد حکومت کا ہوا۔ایکس پر منگل کے روز ایک ویڈیو پیغام میں اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ شامی باغی(فاتحین) ایران یا حزب اﷲ کو ہتھیار واپس کریں اور نہ انہیں اپنی سرزمین پر قدم جمانے کا موقع دیں۔ نیتن یاہو نے کہا کہ اگر ایسا کچھ کیا گیا تو پھر شامی باغیوں کو اس کی بھاری قیمت چکانی ہو گی اور اسرائیل طاقت کا استعمال کریگا۔ظالم اسرائیلی وزیراعظم کا بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا جب پہلے ہی اسرائیل کی فوج نے تسلیم کیا ہے کہ وہ اس وقت گولان کی پہاڑیوں میں بفر زون میں بھی داخل ہو گئی ہے۔اسرائیل کی فوج نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس نے سینکڑوں حملوں میں گذشتہ 48 گھنٹوں میں شام میں تمام اسٹریٹجک ہتھیاروں کے ذخائر تباہ کر دیے ہیں۔ٹیلیگرام پر ایک پوسٹ میں اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس کی بحریہ نے شام کی دو بحریہ کی جگہوں کو نشانہ بنایا ہے اور اس کے علاوہ سمندر سے سمندر میں 80 سے 190 کلومیٹر تک مار کرنے والے میزائل بھی شامل ہیں۔ اسرائیلی فوج کے مطابق اس نے اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے 15 بحری جہاز بھی تباہ کیے ہیں۔ اس طرح اسرائیل اپنی ظالمانہ کاررائیوں کے ذریعہ شام کا شدید نقصان کیا ہے ۔یہ تو رہے شام میں بشارالاسد حکومت کے خاتمہ کے بعد کے حالات ۰۰۰ اس سے قبل قاتلینِ شام یعنی بشارالاسد اور اسکا والد حافظ الاسد نے جس طرح شام میں ظلم و استبدادکا بازار گرم کیا تھا اس کا جائزہ لیتے ہیں تو رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۰۰۰

ظالم بشارالاسد کو اقتدار سے بے دخل ہونے کے ساتھ ساتھ مظلموں کی طرح ملک سے باہرروس میں پناہ گاہ تلاش کرنی پڑی۔ذرائع ابلاغ کے مطابق روس نے دوسرے ملک میں کتنے ہی عیش و آرام کی زندگی بسر کریں لیکن اقتدار جانے کا غم اتنا ستائے گا اور مظلوموں کی آہیں اسکا جینا حرام کردیں گی۔ اور ایسا ہی ہوا یعنی اتوار8؍ ڈسمبر2024 کو صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے نے باپ بیٹے کی پانچ دہائیوں سے زائد عرصہ پر مشتمل خصوصاً بشارالاسد کی14 برسوں تک اقتدار پر قابض رہنے کی جدوجہد کا ڈرامائی انداز میں خاتمہ ہوگیا۔ ان برسوں میں ان کا ملک ایک وحشیانہ خانہ جنگی کے نتیجے میں بکھر کر رہ گیا تھا اور عالمی اور علاقائی طاقتوں کی پراکسی جنگ کا میدان بن گیاتھا۔امریکی ذرائع ابلاغ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس زوال کے برعکس جب سنہ 2002 میں بشار الاسد غیرمتوقع طور پر شام کے صدر بنے تو قوم کو امید تھی کہ اپنے والد کی تین دہائیوں تک ملک پر آہنی گرفت کے بعد وہ ایک نوجوان مْصلح ثابت ہونگے۔ کیونکہ وہ صرف 34 سال کی عمر میں اقتدار سنبھال رہے تھے اور مغربی تعلیم یافتہ ماہر امراض چشم ہونے کے ساتھ ساتھ نرم خودکھائی دیتے تھے۔عوام کو کیا معلوم تھا کہ حافظ الاسد کا بیٹا اسی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے شامی عوام کے خون کا پیاسا ہوگا۔ مارچ 2011 میں صدربشارالاسدکو حکومت مخالف مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا تو بشارالاسد نے انہیں کچلنے کیلئے اپنے ظالم والد والے وحشیانہ ہتھکنڈوں کا استعمال کیا۔ جیسے ہی یہ بغاوت خانہ جنگی میں بدلی، تو اس نے اپنے اتحادیوں ایران اور روس کی حمایت کے ساتھ، حزب اختلاف کے زیرِقبضہ شہروں کو دھماکوں سے اڑانے کیلئے اپنی فوج اتاری۔بین الاقوامی انسانی حقوق کے گروپوں اور استغاثہ نے شام کی حکومت کے زیرانتظام حراستی مراکز میں بڑے پیمانے پر تشدد اور ماورائے عدالت پھانسیوں کے الزامات عائد کیے۔بتایا جاتا ہیکہ شام کی جنگ میں تقریباً پانچ لاکھ افراد ہلاک اور جنگ سے پہلے کی دو کروڑ 30 لاکھ کی آبادی میں سے نصف بے گھر ہو چکے ہیں۔ جیسے ہی اس بغاوت نے خانہ جنگی کی شکل اختیار کی، لاکھوں شامی سرحد پار کر کے اردن، ترکی، عراق ، لبنان اور یورپ کی طرف نکل گئے۔بشار الاسد کی اقتدار سے رخصتی کے ساتھ 54 سال سے کم عرصے پر محیط ان کے خاندان کی حکمرانی بھی ختم ہو گئی ہے۔ کچھ عرصے قبل ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ شام میں حالات پرسکون ہوچکے ہیں اوربشار الاسد کی مشکلات کافی کم ہو گئیں ہیں کیونکہ طویل لڑائی کے بعد حکومتی فورسز نے شام کے بیشتر علاقوں کا دوبارہ سے کنٹرول سنبھال لیا تھا جبکہ شمال مغربی علاقے اپوزیشن گروہوں اور شمال مشرقی علاقے کردوں کے کنٹرول میں تھے۔ عرب لیگ نے گذشتہ برس شام کی رکنیت بحال کر دی تھی اور سعودی عرب نے 12 برس بعد مئی 2024میں شام میں اپنے پہلے سفیر کی تقرری کا اعلان کیا تھا۔تاہم نومبر کے آخر میں شمال مغربی شام میں مقیم اپوزیشن گروہوں کی طرف سے شروع کی گئی ایک حیرت انگیز کارروائی کے ساتھ ہی جیوپالیٹکل صورتحال تیزی سے بدل گئی۔ حکومتی افواج تیزی سے پسپا ہوئیں جبکہ بشار الاسد کے دیگر اتحادی روس اور ایران، یوکرین کی جنگ اور اسرائیل کے ساتھ حزب اﷲ اور حماس کی ایک برس سے جاری جنگوں کے باعث، مداخلت سے گریزاں نظر آئے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق بشارالاسد اپنے ارکان خاندان کے ساتھ روس پہنچ گئے ہیں ۔

دمشق کے باہر صیدنایا فوجی جیل یا انسانی ذبح خانہ
شام کی بدنام زمانہ جیل صیدنایا جسے ’’انسانی ذبح خانہ‘‘ بھیکہا جاتا ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق جہاں بشارالاسد حکومت نے مبینہ طور پر لاشوں کو کچلنے کے لئے ’’آئرن پریس‘‘ کا استعمال کیا تھا۔ دمشق کے بالکل باہر صیدنایا جیل کو اپوزیشن نے ہفتہ کے آخر میں خالی کردیا تھا جب اپوزیشن گروپس نے شام کے دارالحکومت پر قبضہ کرلیا تھا۔ سوشل میڈیا پر جاری ویڈویوز میں پھٹے ہوئے کپڑوں میں ملبوس قیدیوں کو خوشی سے چیختے ہوئے دکھایا گیا جب اپوزیشن عسکریت پسندوں نے انہیں بتایا کہ انہیں بدنام زمانہ جیل سے رہا کیا جارہا ہے ، جہاں اسد حکومت نے اپنے سیاسی دشمنوں پر تشدد کیا اور انہیں پھانسی دی۔ ’قیدیوں کو آزاد کرتے وقت اپوزیشن فوج نے ان سے کہا :’’ڈرو مت! … بشار الاسد گر گیا! تم ڈرتے کیوں ہو؟‘‘ ان قیدیوں کو جن میں ان کے چھوٹے بچوں کے ساتھ خواتین بھی شامل تھیں، کو ان کی چھوٹی چھوٹی حدود سے خوفناک مقام سے باہر نکالنے کی کوشش کی، جسے انسانی حقوق کے گروپوں کی جانب سے ’انسانی ذبح خانہ‘ کہا جاتا ہے۔ایوننگ اسٹینڈرڈ کی رپورٹ کے مطابق جیل سے پریشان کن تصاویر میں ایک چھوٹے بچے کو اس کے زیرزمین سیل میں رکھا ہوا دکھایا گیا ہے، جو اسد خاندان کی بدحالی کی گہرائیوں کو ظاہر کرتی ہے، جو بالآخر پانچ دہائیوں سے زائد عرصے کی حکمرانی کے بعد منہدم ہو گئی۔ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر گروپوں نے دعویٰ کیا ہے کہ صیدنایا میں ہر ہفتے درجنوں افراد کو خفیہ طور پر پھانسی دی جاتی تھی، اندازے کے مطابق صرف 2011 سے 2016 کے درمیان 13,000 شامی مارے گئے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق مبینہ طور پر پھانسی کے بعد قیدیوں کی لاشوں پر بڑے ہائیڈرولک پریس کا استعمال کیا جاتا تھا۔ شامی صحافی کے مطابق، ان کی ہڈیوں کو کچل کر پاؤڈر بنا دیا جاتا اور اس عمل کے دوران ان کا خون جمع کرنے کے لیے نیچے کنٹینرز موجود تھے۔مزید دسیوں ہزار قیدیوں کے بارے میں بھی اطلاعات ہیں جنہیں ابھی رہا ہونا باقی ہے کیونکہ انہیں جیل کے نیچے چھپے ہوئے سیلوں میں رکھا گیا تھا اور ان کا پتہ نہیں چل سکا تھا۔

ایک اردنی سرکاری اہلکار نے کہا ہے کہ شام کے صدر بشار الاسد کا اقتدار ختم ہونے کے بعد ایک اردنی شہری واپس اپنے ملک آیا ہے جس نے 38 برس شام کی جیلوں میں کاٹے۔اسی طرح لبنان سے تعلق رکھنے والے سہیل حماوی 33 سال تک قید میں رہنے کے بعد پیر کو اپنے ملک واپس ہوئے۔اردن میں انسانی حقوق کی عرب تنظیم نے منگل کو کہا کہ شام میں اب بھی 236 اردنی باشندے زیرِحراست ہیں۔اسی طرح ایک شخص بتاتا ہیکہ یہ اس کی زندگی کا آخری دن تھا یعنی اسی 8؍ ڈسمبر 2024کو پھانسی ہونے والی تھی اس طرح یہ اسکی زندگی کا آخری دن تھا لیکن اﷲ نے اسے بچا لیا اور وہ آزاد ہوگیا۔واضح رہیکہ بشار الاسد کے اقتدار کو ختم کرنے والی ان کی مخالف فورسز نے اتوار کو جیلوں کے دروازے کھول کر ہزاروں قیدیوں کو رہا کر دیا تھا۔سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے 2022 میں اندازہ لگایا تھا کہ سنہ 2011 میں بغاوت شروع ہونے کے بعد، جو خانہ جنگی کا باعث بنی، سے ایک لاکھ سے زیادہ افراد جیلوں میں ہلاک ہو چکے ہیں۔بشارالاسد کی ظالمانہ کاررائیاں اب ختم ہوچکی ہیں لیکن دوسری جانب اسرائیل مستقبل میں کس قسم کے اقدامات کرتا ہے اور شامی قوم کو سکون و راحت کی زندگی گزارنے دیتا ہے یا پھر مختلف الزامات کے تحت غزہ اور لبنان کی طرح یہاں پر بھی مسلمانوں کا قتلِ عام کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے حالات انتہائی سنگین نوعیت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ شام پر اسرائیلی حملے تیسری جنگ عظیم کی طرف لے جارہے ہیں ۔ اب دیکھنا ہیکہ عالمی قیادت اور اقوام متحدہ اس جانب کس قسم کا اظہار کرتی ہے اور اسرائیل گولان کی پہاڑیوں سے ہٹتا ہے یا نہیں۔

فاتحین شام گروپس کے قائد ابو محمد الجولانی اور ہیئۃ التحریر الشام
فاتحین شام کی قیادت کرنے والے ابو محمد الجولانی کا امریکی ٹی وی نیٹ ورک پی بی ایس کو دیئے جانے والے ایک انٹرویو کے مطابق انکااصلی احمد حسین ہے اور انہیں ابوالجولانی گولان کی پہاڑیوں کی وجہ سے کہا جاتا ہے، جہاں انکے خاندان کا تاریخی تعلقبتایا جاتاہے۔اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق ابوالجولانی 1975 اور 1979 کے درمیان پیدا ہوئے جبکہ انٹرپول کے مطابق ان کی تاریخ پیدائش 1975 ہے۔

اسی انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ وہ 1982 میں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں پیدا ہوئے تھے جہاں ان کے والد پیٹرولیئم انجینئر کے طور پر کام کرتے تھے۔ 1989 میں ان کے اہلخانہ شام واپس لوٹے اور اس کے بعد ان کی پرورش دمشق کے قریب ہوئی۔چند خبروں کے مطابق انھوں نے دمشق میں طب کی تعلیم حاصل کی لیکن تیسرے سال کے دوران عراق میں القاعدہ میں اس وقت شمولیت اختیار کر لی جب امریکہ نے 2003 میں حملہ کیا۔کہا جاتا ہے کہ وہ جلد ہی عراق میں القاعدہ کے سرگرم رہنما ابو مصعب الزرقاوی کے قریبی ساتھی بن گئے لیکن 2006 میں الزرقاوی کی ہلاکت کے بعد لبنان منتقل ہو گئے جہاں انھوں نے جند الشام نامی لبنانی عسکری گروہ کو تربیت فراہم کی۔اس کے بعد ان کی عراق واپسی کی اطلاعات موجود ہیں جہاں امریکی فوج نے انھیں گرفتار کیا اور کچھ عرصہ تک قید میں رہنے کے بعد جب 2008 میں ان کو رہائی ملی تو وہ نام نہاد دولت اسلامیہ میں شامل ہو گئے۔بتایا جاتا ہے کہ انھیں امریکی کیمپ بکا نامی قید خانے میں رکھا گیا تھا جہاں ان کے نظریات پختہ ہوئے اور مستقبل میں بننے والی نام نہاد دولت اسلامیہ کے رہنماوں سے تعلقات بھی استوار ہوئے۔چند رپورٹس کے مطابق الجولانی اگست 2011 میں شام واپس لوٹے اور انھوں نے القاعدہ کی ایک شاخ کھولی جس کا مقصد صدر بشار الاسد کے خلاف جنگ تھا۔ تاہم ایک لبنانی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ الجولانی حقیقت میں عراقی شہری ہیں اور ان کے نام کی وجہ فلوجہ کا وہ علاقہ ہے جسے الجولان کہتے ہیں اور ان کا تعلق اسی علاقے سے ہے۔جبھہ النصرہ نامی اس عسکریت پسند گروہ کی قیادت سنبھالنے کے بعد اطلاعات کے مطابق الجولانی کی ذاتی معلومات کو اتنا خفیہ رکھا گیا کہ گروہ کے اکثر اراکین تک اپنے سربراہ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے۔

2011 میں شام میں بغاوت خانہ جنگی کی شکل اختیار کر گئی تو الجولانی ابوبکر البغدادی کی جانب سے خصوصی مشن پر شام پہنچے تاکہ دولت اسلامیہ کی ایک مقامی شاخ کی بنیاد رکھ سکیں۔ 2012 میں ’جبھہ النصرہ‘ کا آغاز ہوا اور یہ دولت اسلامیہ کی عراقی شاخ بن گئی۔تاہم 2013 میں جب ابوبکر البغدادی نے باقاعدہ طور پر جبھہ النصرہ اور دولت اسلامیہ کے انضمام کا اعلان کیا تو الجولانی نے اسے رد کرتے ہوئے الاقاعدہ کے سربراہ ایمن الزواہری کی حمایت کا اعلان کر دیا۔یہ وہ وقت تھا کہ جب جبھہ النصرہ عسکری اعتبار سے طاقتور ہوتی جا رہی تھی۔ جولائی 2016 میں الجولانی نے اعلان کیا کہ ان کے گروہ کا القاعدہ سے کوئی تعلق نہیں رہا اور اسے اب جبھہ فتح الشام کے نام سے پکارا جائے۔2017 میں اس گروہ کو ’ہیئت تحریر الشام‘ کے نام سے ایک اتحاد کی شکل دی گئی جس میں دیگر تنظیمیں بھی شامل تھیں اور اس کے سربراہ الجولانی تھے۔

اس تنظیم نے مقامی سطح کے مسائل کو ترجیح دی اور 2021 میں الجولانی نے امریکی ادارے پی بی ایس کو انٹرویو میں کہا کہ انھوں نے القاعدہ کے عالمی جہاد کے نظریے کو ترک کر دیا ہے اور اب ان کا مقصد شام میں بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ اور ملک میں اسلامی نظام قائم کرنا ہے۔اس انٹرویو میں الجولانی نے کہا کہ ’جب ہم القاعدہ میں تھے، تب بھی یورپی یا امریکی اہداف کو نشانہ بنانے کے خلاف تھے۔ ہم نے ایسا کبھی نہیں کیا۔‘انھوں نے کہا کہ ہیئت تحریر الشام کو دہشت گرد گروہ کا درجہ دینا ’غیر منصفانہ‘ اور ’سیاسی‘ فیصلہ تھا۔

ابوبکر البغدادی نے باقاعدہ طور پر جبھہ النصرہ اور دولت اسلامیہ کے انضمام کا اعلان کیا تو الجولانی نے اسے رد کرتے ہوئے الاقاعدہ کے سربراہ ایمن الزواہری کی حمایت کا اعلان کر دیا۔الجولانی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حالات کے مطابق خود کو ڈھال لیتے ہیں۔ پہلے ان کے نظریات القاعدہ سے قریب تھے لیکن بعد میں انھوں نے مقامی ایجنڈا کو اپنا لیا۔ان کی قیادت میں ہیئت تحریر الشام نے حلب صوبے میں اسلامی نظام نافذ کیا، عدالتیں بنائیں اور پولیس فورس تک قائم کی۔ حلب میں ان کا کافی اثرورسوخ ہے جو شام میں اپوزیشن کا مرکز بھی سمجھا جاتا ہے۔ یہ علاقہ اس لیے بھی اہم ہے کیوں کہ یہ ترکی کی سرحد سے ملتا ہے۔اس دوران الجولانی نے عسکری کارروائیوں کے ساتھ ساتھ مقامی انتظامیہ چلانے اور سفارت کاری میں مہارت بھی دکھائی اور شام کے تنازع میں ایک اہم کردار بن کر ابھرے۔بتایا جاتا ہیکہ وہ علاقے جو ان کے گروہ کے زیر انتظام ہیں، وہاں ایک ایسی حکومت موجود ہے جو معیشت، صحت، تعلیم اور سکیورٹی تک کا انتظام کرتی ہے۔ الجولانی نے یہ کہا ہے کہ ان علاقوں میں ’اسلامی حکومت ہے لیکن دولت اسلامیہ کے نظریات کے تحت نہیں۔‘تاہم خبروں اور تجزیہ کاروں کے مطابق ان کے گروہ نے اپنے مخالفین کے خلاف سخت رویہ اپنایا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ایسی اطلاعات بھی موجود ہیں کہ ان کے گروہ نے قیدیوں پر تشدد کیا ہے۔ الجولانی ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو دعوت دیتے رہے ہیں کہ وہ ان کے زیر انتظام علاقے میں موجود جیلوں کا دورہ کریں اور وہاں پر حالات کا جائزہ لیں۔

واضح رہے کہ امریکی حکومت بھی الجولانی کو ’دہشت گرد‘ قرار دیتی ہے اور ان کی گرفتاری کے لیے معلومات فراہم کرنے پر 10 ملین ڈالر کی انعامی رقم رکھی گئی ہے۔لیکن امریکی ذرائع ابلاغ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے پیر کو صحافیوں سے گفتگو کے دوران کہاکہ نامزد دہشت گرد تنظیوں کا مسلسل جائزہ لیا جاتا ہے اور نامزدگی کے باوجود امریکی حکام کو ان سے بات چیت سے نہیں روکا جاسکتا‘۔ انہوں نے کہا کہ اگر’’ہیئۃ التحریر الشام‘‘کو جس کو ایچ ٹی ایس کے نام سے بھی جانا جاتا ہے کی جانب سے اپنے لیبل کو تبدیل کرنے کے حوالے سے اقدامات سامنے آتے ہیں تو اس کے بار میں جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ اس کا مکمل انحصار اس کے اقدامات پر ہوگا۔ اب دیکھنا ہے کہ ہیئۃ التحریر الشام مستقبل قریب میں حکومت چلانے کیلئے کس قسم کے اقدام کرتی ہے اور اسرائیلی حملوں کا جواب دیتی ہے یا پھر کسی مصلحت کے تحت خاموشی اختیار کرتے ہوئے مستقبل کا لائحہ عمل ترتیب دیتی ہے۔

محمد البشیر شامی عبوری حکومت کے نگران وزیر اعظم نامزد
محمد البشیر نے ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے خطاب میں کیا ہے کہ انہیں شام کی عبوری حکومت کا نگران وزیراعظم نامزد کیا گیا ہے۔ شام میں سابق صدر بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد محمد البشیر کو عبوری حکومت تشکیل دینے کی ذمہ داری سونپی گئیہے۔عرب نیوز کے مطابق محمد البشیر یکم؍ مارچ 2025 تک اس عہدے پر فائز رہینگے۔محمد البشیر کو ملک کی قیادت ایک ایسے وقت میں سونپی گئی ہے جب شام کو پیچیدہ سیاسی اور انسانی چیلینجز کا سامنا ہے۔ محمد البشیر 1983 میں شمال مغربی شام کے صوبہ ادلب میں پیدا ہوئے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق اس سال جنوری میں انہیں ادلب میں نام نہاد شامی سالویشن حکومت (ایس ایس جی) کا سربراہ نامزد کیا گیا۔اس تقرر سے قبل البشیر 2022 سے 2023 تک ایس ایس جی کے ترقیاتی اور انسانی امور کے وزیر رہے۔وہ شامی گیس کمپنی کے سابق ملازم ہیں اور ان کے پاس انجینئرنگ کے ساتھ ساتھ شریعت اور قانون کی ڈگریاں بھی ہیں۔2024 کے آغاز میں جنرل شوریٰ کونسل نے اپنی ساتویں مدت کے لیے محمد البشیر کو وزارتی کونسل کی قیادت کے لیے منتخب کیا جس کے لیے ان پر اکثریتی ووٹ کے ساتھ اعتماد کا اظہار کیا گیا۔
Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 359 Articles with 262026 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.