بہاولپور صوبہ بحالی ایک خواب یا حقیقت

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ریاست بہاولپورجس نے جوناگڑھ،کشمیر کی ریاستوں میں سے سب سے پہلے آگے بڑھ کر قائداعظم کی آوازپرلبیک کہااوربرصغیرکے مسلمانوں کے خواب پاکستان سے الحاق کا اعلان کیا اور پھر نئی مملکت کے لئے مالی ایثار اور قربانی بھی دی۔

وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے نواب سرصادق محمد خان عباسی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ عظیم درسگاہ انکی علم دوستی کا عظیم شاہکار ہے ۔بحالی صوبہ بہاولپور کے سوال پر انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ اگر بہاولپوری عوام صوبہ بحال کروانا چاہتے ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں البتہ آئینی طریقہ کار اختیار کیا جائے ۔

نواب صلاح الدین عباسی نے غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کا اعلان کر دیا ۔ رجسٹریشن کے بعد سیاست کے بڑے بڑے سیاسی برج بہاولپور عوامی پارٹی میں شامل ہو کر ملک کی تیسری سیاسی قوت بن جائیں گے انتظامی صوبہ کے بجائے لسانی تعصب کا پرچار کر نے والے نا م نہاد سرائیکی دانشوارسرائیکستان کے نام پر تخریبی سیا ست کررہے ہیں صادق گڑھ پیلس میں منعقدہ جلسہ کی تاریخ ساز کامیابی پر امیر آف بہاولپور نواب صلاح الدین عباسی ، سینیٹر محمد علی درانی ، ملک فاروق اعظم ، میاں شمس الرحمن ،شاہد حمید رحمانی ، میاں ایاز اور رافعت الرحمن تحریک استقلال ،صوبہ بحالی تحریک کے صوبائی رہنما اکرم انصاری ،افضل خان شکرانی ،فیصل انصاری ، دل مراد خاں بلوچ شوکت علی ایڈووکیٹ ن اور الحاج بلیغ الرحمان خان مبارکباد کے مستحق ہیں۔ بہاولپور صوبہ بحالی کے ساتھ ساتھ سرائیکی ،ہزارہ سمیت ملک میں مزید نئے انتظامی صوبوں کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ علاقائی عوام کو مہنگائی ،بے روزگاری جیسے بحرانوں سے بچایا جا سکے لیکن لوگ اور جماعتیں لسانیت کی بنیاد پر خود کو زندہ رکھنے اور تعصب کی بنیاد پر سیاست کرنے کی کوشش کر رہی ہیں بہاولپور کی عوام اور محب وطن سیاستدان آئین اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں اس لیے عوام امن کے پاسبان ہونے کی وجہ سے اپنے انتظامی صوبہ کے علاوہ دیگر حقوق کی خاطر 1970کی طرح مزید قربانیوں سے دریغ نہیں کریں گے سرائیکی دانشور ظہور دھریجہ نے سینیٹر محمد علی درانی پر الزام لگایا ہے کہ ان کا ڈومیسائل بہاولپور کی بجائے اسلام آباد کا ہے اور دوسرا کہ انہوں نے 18ویں ترمیم پر دسخط کئے جبکہ محمد علی درانی نے ان کی تردید کی کہ ان کے ڈومیسائل پر محلہ سرور شاہ احمد پور شرقیہ کا ایڈریس موجود ہے جبکہ 18ویں ترمیم کے موقع پروہ اجلاس میں شریک ہوئے اور نہ ہی دسخط کئے ۔

پاکستان کے ساتھ سب سے پہلے الحاق کرنے والے نواب صادق عباسی پنجم کے وارث امیر آف بہاولپور نواب صلاح الدین عباسی نے بہاولپورصوبہ کی بحالی کوتاریخی،قانونی،آئینی ،اور اخلاقی حق قراردیتے ہوئے صوبہ بحالی اور عوام کے ساتھ ہونے والی مسلسل ناانصافیوں کے خاتمے کے لئے "بہاولپورعوامی پارٹی "کے قیام کا اعلان کردیا اورکہاہے کہ ہر حکومت نے ہمیں لوٹااورہمارا استحصال کیا لیکن اب ظلم کے اس کاروبارکوبندکرانے کاوقت آگیا ہے ،عوام تیاری کریں،اب ہر ظلم پر مزاحمت ہوگی اور پے درپے دھوکے کھانے والے عوام اپنا حق چھین کرلیں گے۔صوبہ بہاولپوربحال کراکے عوام کوخوشحال بنائیں گے اور پاکستان کی خوشحالی میں اہم کرداراداکریں گے ۔یہ اعلان انہوں نے ڈیرہ نواب صاحب میں 200سال قدیم تاریخی صادق گڑھ پیلس میں ایک بہت بڑے عوامی اجتماع سے خطاب میں کیا۔"بہاولپورعوامی پارٹی "کے قیام کے اعلان کا عوام نے زبردست نعروں سے خیرمقدم کیا۔"اعلان بہاولپور"کے تحت یہ جماعت صوبہ بہاولپورکی بحالی اور بہاولپورخطہ کے عوام کے حقوق کے حصول کے لئے جدوجہدکرے گی۔انہوں نے کہاکہ عوام کی حکمرانی، خوشحالی، آئندہ نسلوں کے بہتر مستقبل ، پاکستان کی خوشحالی منافقت کی سیاست کے خاتمہ وملکی سیاست میں تبدیلی اوراسلام کی سربلندی کے لئے بہاولپورعوامی پارٹی کاقیام کااعلان کیاہے۔ ریاست بہاولپورجس نے جوناگڑھ،کشمیر کی ریاستوں میں سے سب سے پہلے آگے بڑھ کر قائداعظم کی آوازپرلبیک کہااوربرصغیرکے مسلمانوں کے خواب پاکستان سے الحاق کا اعلان کیا اور پھر نئی مملکت کے لئے مالی ایثار اور قربانی بھی دی۔ بہاولپوراوراس کے باسیوں کے ساتھ املاک کی فروخت سے لے کرپانی کی فراہمی،مالی حصہ میں بخیلی سے لے کر نوکریوں میں زیادتیوں تک ناانصافیوں کی ایک مسلسل داستان ہے جس پر ہربہاولپوری خون کے آنسورورہاہے اورپوچھتاہے کہ اس کا حق کیونکر چھینا جارہاہے۔ بہاولپوراوراس کے عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں آٹے میں نمک کے برابر بیان کی ہیں۔ اب مزید نہ زیادتی قبول ہے اورنہ غلامی، بیروزگاری، ظلم قبول ہے،اب نہ املاک کا نیلام قبول ہے اورنہ آبی دہشت گردی، معاشی دہشت گردی ،معاہدہ خلافی ، یحیٰی خان،اس کا ایل ایف او اورنہ ہی اس کے پیروکار قبول ہیں۔ہمیں صرف بانی پاکستان حضرت قائداعظم کا پا کستان اوران کا نواب صادق محمدخان پنجم کے ساتھ ہونے والا معاہدہ قبول ہے۔آباء نے پاکستان بنایا،ہم نے اب پہلے اپنے خطہ اور اس کے عوام کوخوشحال بناناہے اور اس کے ساتھ اس مملکت خدادکوخوشحال اورمضبوط بنانے میں اسلاف کا وعدہ پوراکرکے دکھاناہے۔ ہر حکومت نے بہاولپور اور نواب خاندان کو لوٹااورہمارا استحصال کیا۔سیاسی جماعتیں اور ان کے لیڈر ظلم کے اس کاروبار کو بند کرائیں۔ مجھے علم ہے کہ کیا ہو رہا ہے اورمجھے یہ بھی پتہ ہے کہ بہاولپورصوبہ کیسے بنے گا۔بہاولپور صوبہ کسی اسمبلی یا پارلیمنٹ سے نہیں بننا بلکہ یہ صرف بہاولپور کی گلیوں، سڑکوں اور ریلوے ٹریک پر بنے گا۔امیر آف بہاولپورنے اعلان کیاکہ اب ہر ظلم اور زیادتی کے خلاف عملی مزاحمت ہو۔آپ کو اپنا حق چھننے کے لئے باہر نکلنا ہو گا،قربانی دینا ہو گی اوراس میں عوام اب اکیلے نہیں بلکہ میں ان کے ساتھ ہوں۔ بہاولپورصوبہ کی بحالی ہماراتاریخی،قانونی،آئینی ،اور اخلاقی حق ہے جسے ہم لے کر رہیں گے۔ عوام تیاری کریں اور وہ مناسب وقت پر عوام کو سڑکوں پر نکلنے کی کال دیں گے اورپھر گھروں میں بیٹھنا حرام ہو گا۔ جوان،بچے،بوڑھے،خواتین سب اسی وقت گھروں کو واپس جائیں گے جب صوبہ بحال ہوگا۔ انشاء اللہ بہت جلد بہاولپورصوبہ بحال ہوگا۔ بہاولپور صوفیاء ،فقیروں ،سچے اور معصوم لوگوں کی دھرتی ہے۔یہ 63سال سے ناانصافیوں اورظلم برداشت کرنے والے لوگوں کی دھرتی ہے ۔صوبہ بحال کراکے اسے منافقوں،لٹیروں اور وعدہ خلافوں کے حوالے نہیں کرسکتا۔ مخالفت قبول ہے لیکن منافقت قبول نہیں۔ اہل بہاولپورنے "ون یونٹ" کے قیام سے آج تک بہت دھوکے کھائے ہیں،اسی پر بس نہیں،بے شمار لوگوں کواسمبلیوں میں بھیجالیکن ہر مرتبہ جن کو بھیجا،وہ گم ہوگئے یا عوام کو بھول گئے۔انہوں نے کہاکہ ہمیں صوبہ کے قیام سے کم،کچھ قبول نہیں لیکن صوبہ بنانے کے ساتھ ساتھ نہ صرف آپ کی تقدیر بدلنی ہے بلکہ اس خطہ کی تقدیر بھی بدلنی ہے۔ عوام سیاسی وابستگیوں،ذاتی مفاد اورتعصبات سے بالاتر ہوکر صوبہ بہاولپورکی بحالی کے لئے تمام بہاولپوری متحدہوجائیں۔ آج میں خاندانی روایات کے برعکس باہر نکل آیا ہوں۔1875ء کے بعدآج پہلا موقع ہے کہ پورے بہاولپورکے عوام اس محل کی چھاؤں میں اکھٹے ہوئے ہیں۔ہم یہاں عہد کرتے ہیں اور اس پر سب کاربند ہوں گے۔

پاکستانی حکمرانوں اورعوام کیلئے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ بہاولپور نے پاکستان کیلئے کیا قربانیاں دیں اسکے صلے میں بہاولپور کو کیا ملا۔

نواب آف بہاولپور نے تحریک پاکستان کیلئے 52ہزار پونڈ کا نذرانہ قائداعظم محمد علی جناح ؒ کو قیام پاکستان سے پہلے پیش کیا برٹش دور میں دریائے ستلج پر بھاکڑہ ننگل ڈیم کی تعمیر 95%مکمل ہو چکی تھی جس سے چولستان کی بنجر زمین کو آباد کرنے کیلئے پانی کی فراہمی کا حصہ بھی منظور ہوچکا تھا ۔بہاولپورریاست کو پاکستان میں شامل کرنے پر دریائے ستلج اور بیاس کے پانیوں کے روکنے کی دھمکی بھارتی لیڈر شپ پہلے ہی دے چکی تھی۔نواب صاحب کو بھارت میں ریاست کی شمولیت پر راجپوتانہ کی ریاستوں کے مہاراجوں کے چیئرمین بنانے کے علاوہ منہ مانگی رقم کی ادائیگی کی بھی آفر دی گئی تھی۔خدانخواستہ ریاست بہاولپور کاالحاق بھارت کے ساتھ کردیا جاتاتو پنجاب کو سندھ سے ملانے والے ذرائع مواصلات میسر نہ آنے پر آج کا پاکستان دوحصوں میں تقسیم ہوتا ۔ کون نہیں جانتا کہ پانی زندگی ہے نواب آف بہاولپور نے اپنی رعایا کی زندگیوں کو داؤ پر لگا کر بھارتی لیڈر شپ کو جواب دیا کہ پچھلا دروازہ بھارت کی طرف اور اگلا دروازہ پاکستان کی طرف کھلتا ہے ۔ہم شریف لوگ ہیں اگلا دروازہ استعمال کرینگے نواب آف بہاولپور نے 25اکتوبر 1947کو پاکستان سے ریاست بہاولپور کا الحاق کرادیا۔گورنمنٹ آف پاکستان کو تنخواہیں چلانے کیلئے روپے کی آج کی قدر کے لحاظ سے 40بلین روپے کی امداد نہ صرف دی بلکہ ریاستی فوج بھی پاکستان کے حوالے کردی۔

گورنمنٹ آف پاکستان نے انڈین ایکٹ 1935کے تحت 3اپریل 1951کو بہاولپور کو صوبہ کا درجہ دیا۔جبکہ اسوقت بلوچستان کی صوبائی حیثیت نہیں تھی۔1952میں بہاولپور کی صوبائی اسمبلی کے قیام کیلئے انتخابات کرائے گئے جسکے نتیجے میں مخدومزادہ سید حسن محمود وزیر اعلیٰ اور چوہدری فرزند علی ایڈوکیٹ سپیکر منتخب ہوئے ۔بہاولپور کا اپنا پبلک سروس کمیشن اور خود مختار ہائی کورٹ بھی تھا۔

لاہور کی حکمرانی کے قیام کیلئے سازش کے تحت پنجاب، سندھ ،بہاولپور اور فرنٹیئر کے صوبوں کے علاوہ بلو چستان جسکی صوبائی حیثیت نہیں تھی پر مشتمل ون یونٹ کا قیام عمل میں لائے ۔ چاہئیے تو یہ تھاکہ مغربی پاکستان کا ون یونٹ قائم کرنے کی بجائے مشرقی پاکستان کے تین یا چار صوبے بنا دیے جاتے جو استحکام پاکستان کا باعث بنتے۔ ون یونٹ میں شامل ہونے والے صوبوں میں صرف صوبہ بہاولپور سر پلس تھا۔آج کے روپے کی قدر کے لحاظ سے چار ارب پچاس کروڑ روپے ون یونٹ کو ملے ۔اصولی طور پر عوامی مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے ون یونٹ کا دارلخلافہ بہاولپور شہر کو بنایا جاتا کیونکہ یہ شہر کوئٹہ ،کراچی، پشاور سے مساوی فاصلوں پر تھا۔حق تو یہ ہے پاکستان کا دارلخلافہ بھی آتش فشاں کی پٹی پر واقع اسلام آباد کی بجائے بہاولپور کو بنایا جاتا تو عوامی مشکلات کے حل کے لیے لمبے سفر نہ کرتے پڑتے۔پاکستان تو دو قومی نظریہ کے تحت وجود میں آیا ۔ون یونٹ کا جب تجربہ ناکام ہوا تو پنجاب ،سندھ ،سرحدبشمول بلوچستان جسکی صوبائی حیثیت نہ تھی صوبے بنا دیے گئے لیکن بہاولپور کو اسکی عوام کی خواہش کے برعکس پنجاب میں ضم کر دیا گیا۔یحییٰ خان نے صرف ملک توڑنے کی سازش نہیں کی بلکہ موجودہ پاکستان کے خلاف بھی سازش کر کے پنجاب کو پاکستان کی60%آبادی کا صوبہ بنادیا پنجاب کی اتنی بڑی آبادی تینوں صوبوں کے لیے قا بل قبول نہ رہی۔مرکز کی ہر سیاسی حکومت کو جب بھی پنجاب نے چاہا ناکام کردیا جو 1985ء سے 2011ء تک پنجاب کے سیاسی کردار سے ظاہر ہے۔بہاولپور کو پنجاب میں شامل کرنے پر بہاولپوری عوام سراپا احتجاج بن کر سڑکوں پر نکل آئی احتجاجی جلسے اور جلوس روزانہ کا معمول بن گئے بالآخر ایک دن حکمرانوں کے حکم پرپر امن جلوس پر گولی چلوا کر دو معصوم ورکرز کو شھید اور درجنوں کو زخمی کر دیا مارشل لاء عدالتوں کے زریعے100سے زیادہ لیڈروں اور ورکرز کو مختلف جیلوں میں بند کردیا گیا۔نہ تو اس معاہدے کا لحاظ رکھا گیا جو قائداعظم ؒ اور نواب آف بہاولپور کے مابین ہوا نہ گورئمنٹ آف پاکستان کے 3اپریل 1951کے حکم کا احترام کیا گیا جسکے تحت بہاولپور کو صوبائی حیثیت ملی تھی۔ نہ ون یونٹ میں شمولیت پر جو معاہدہ ہوا تھا اسکا احترام کیا گیا۔ بہاولپور صوبہ ون یونٹ میں شامل ہوا تھا نہ کہ پنجاب میں۔ 1970ء کے انتخابات کے نتائج ریفرنڈم ثابت ہوئے جسمیں بہاولپوری عوام نے 85%ووٹ بہاولپور صوبہ بحالی کے امیدواروں کے حق میں دئیے ۔1973ء کے آئین پر احتجاجاً دو ایم این ایز میاں نظام الدین حیدر اور مخدوم نور محمد ہاشمی نے دستخط نہ کیے۔

پچھلے 40سالوں میں بہاولپوری عوام کا استحصال جاری ہے ۔ان سالوں میں پانچ نئے ڈویژن اور 17اضلاع بنائے گئے بہاولپور کا ہر ضلع 185کلومیٹر لمبا ہے ون یونٹ سے پہلے تین اضلاع تھے آج بھی تین ہی ہیں ۔ہر نئے ضلع میں ڈسٹرکٹ ہسپتال ، لڑکوں اورلڑکیوں کیلئے ڈگری کالج ،ڈسٹرکٹ پولیس لائن اور ضلع کے صوبائی اور مرکزی دفاتر کے قیام سے6شہروں کانئے ضلعی ہیڈ کوارٹر بننے سے۔انڈسٹری قائم ہوتی ، ہر ضلع کو سو میل لمبی رابطہ سڑکیں، 20گاؤں میں بجلی کی فراہمی ،ذرعی آلات اور ٹیوب ویلوں پر سبسڈی کے علاوہ دوسری مراعات بھی ملتیں۔اگر تین کے بجائے نو اضلاع قائم ہوجاتے توکتنی ترقی ہوتی لیکن سازش کے تحت ترقی معکوس ہو گئی ظلم تو یہ ہے کہ بہاولپور کو ترقی یافتہ ظاہر کر کے میڈیکل کالج ،انجینئرنگ کالج اور یونی ورسٹی میں بہاولپور کے نوجوانوں کا کوٹہ ختم کر کے ان کا مستقبل تاریک کر دیا گیا ہے۔

بہاولپور کا بجٹ پنجاب کی آبادی کے لحاظ سے13%ہے لیکن ان چالیس سالوں میں اوسطاً حصہ اڑھائی فیصد ملا ہے ۔ایسے لگتا ہے کہ بجٹ بہاولپوری عوام کو مستحقین زکوٰۃ سمجھ کر دیا جارہا ہے۔ نوکریوں کی تقسیم 13%کے بجائے 1%سے بھی کم ہیں۔دریائے ستلج اور بیاس کے پانیوں کو 830 بلین روپے میں فروخت کیا گیا ۔دریائے ستلج میں پانی کے لیے دو مجوزہ نہریں آج تک تعمیرنہ ہو سکیں جبکہ دنیا کے کسی قانون کے تحت دریاؤں کی ٹیل پر آباد انسانوں کے ہیومن اور ڈومیسٹک کمزمپشن کے لیے پانی کی فراہمی کو یقینی بناناانسانوں کا بنیادی حق ہے لیکن اس حق کو یکسر ختم کردیاگیا ہے۔جس سے اس علاقہ کی عوام ہیپاٹائیٹس ،گردوں ،پیٹ اور جلدی بیماریوں کا شکار ہو کر زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلاء ہونے لگے ہیں۔ لاکھوں ٹربائینوں کے دن رات چلنے سے میٹھے پانی کی ریزر وائر خطر ناک حد تک گرتی جا رہی ہے۔اگر دریائے ستلج کی ری چارجنگ کابندوبست فوری طور پر نہ کیا گیا تو ایسی صورت میں کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کا کیا بنے گا؟

بہاولپورکی نہروں کو تین کیوسک پانی فی ہزار ایکڑ فراہم کیا جارہا ہے جبکہ مظفر گڑھ کینال 8کیوسک فی ہزار ایکڑ پر چلائی جا رہی ہے اگر ٹیکنیکل جائزہ لیا جائے تو پنجاب کی بعض نہروں کو اس سے بھی زیادہ پانی دیا جا رہا ہے۔بہاولپور میں برسات کی اوسط ایک سے ڈیڑھ انچ سالانہ ہے جبکہ لاہور اور اپر پنجاب بیس سے تیس انچ سالانہ ہوتی ہے ان حالات میں بہاولپور کی نہروں کوکم پانی فراہم کرنا ظلم نہیں تو کیا ہے؟

حیرت ہے کہ آج کے جدید دور میں بہاولپور شہر کی واٹر سپلائی صرف% 15 عوام کو میسر ہے ۔بہاولپور کی 51%عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے جبکہ باقی ملک میں یہ شرح 26%سے 29%ہے۔پنجاب کا لٹریسی ریٹ 52%جبکہ بہاولپور کا 34%۔پانچ سالہ بچوں کی شرح اموات پنجاب بھر کی بانسبت بہاولپور میں سب سے زیادہ ہے۔بہاولپور کی املاک کی لوٹ سیل کا معاملہ سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی میں پیش ہو چکا ہے۔

پاکستان کے بجٹ 2009ء 2010,ء میں پنجاب کا حصہ 334بلین روپے ہے شرح آبادی پر بہاولپور کا حصہ 43.4بلین روپے بنتا ہے جبکہ بہاولپور کو صرف 1.2بلین روپے دیے گئے پنجاب کا بجٹ 2009،2010ء 489 بلین روپے ہے جسمیں بہاولپور کا حصہ 64بلین روپے بنتا ہے جبکہ ملا صرف 11بلین ہے ۔بہاولپور کے لیے اگلے دو سالوں کے لیے کوئی ڈویلپمنٹ سکیم نہیں اسی طرح پچھلے تین سالوں میں بھی بہاولپور کے اضلاع کے لیے کوئی ڈویلپمنٹ سکیم نہیں تھی موجودہ مالی سال میں بھی فنڈز زکوٰۃ کے برابر ہے۔یہ اعدادو شمارثابت کرتے ہیں کہ ایسے حالات میں بحالی صوبہ بہاولپورکی تحریک کے خلاف ہر سازش ناکام ہو گی۔ 1970ء کے انتخابات میں مخدوم زادہ سید حسن محمود کے الحاق پنجاب کا ساتھ دینے پر بری طرح شکست کھائی۔بہاولپور کے لیڈران کرام پنجاب کے حکمرانوں سے سیاسی تعلقات قائم کرنے میں احتیاط برتیں کہیں تاریخ اپنے آپ کو پھر نہ دھرادے۔انشاء اللہ بہاولپور صوبہ بحال ہو کر رہے گا۔
umar
About the Author: umar Read More Articles by umar: 17 Articles with 13154 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.