عمران خان، ڈاکٹر عبد القدیر خان اور ٹیکنو کریٹس کی حکومت

امام جلال الدین رومی ؒ ایک حکایت میں لکھتے ہیں کہ ایک درویش ہرات کے بازار سے گزر رہا تھا۔ اُس نے ایک امیر کے غلام کو دیکھا جس نے اطلس کا لباس پہنا ہوا تھا اور قمر سے زریں پٹکا پہن رکھا تھا۔ درویش نے آسمان کی طرف نظر اُٹھائی اور کہا ”اے خدا تو ہمارے اس سخی رئیس سے بندہ پروری سیکھ(نعوذ باللہ)“

یہ گستاخ درویش بالکل مختاج، برہنہ اور بے نوا تھا اور جاڑے کی سرد ہوا سے ٹھٹھر رہا تھا۔اسی وجہ سے وہ خودی کے عالم میں حق تعالیٰ پر طعنہ زن ہوا۔ شائد اُس کو اللہ تعالیٰ کی ہزار ہا بخششوں پر اعتماد تھا اور اُس نے ناز سے یہ کلمے کہہ دیئے۔ عام لوگوں کو نہ ایسے درویشوں کی تقلید کرنی چاہیے اور نہ ہی اُن پر بدگمانی کرنی چاہیے۔ اس واقع کو تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ بادشاہِ وقت اُس امیر پر ناراض ہو گیا اور اُس کو قید خانے میں ڈلوا دیا۔ اس کے ساتھ ہی اُس نے امیر کے خوش لباس غلاموں پر بھی سختیاں شروع کر دیں اور اُن کو شکنجوں میں کس کر پوچھا کہ اپنے مالک کے دفینے کا پتہ بتاﺅ ورنہ تمہاری زبانیں اور ہاتھ کاٹ دوں گا۔تمام غلام خاموش رہے۔ اس پر بادشاہ کے غضب کی آگ اور بھڑک اُٹھی اور وہ مسلسل ایک ماہ تک اُن پر بے جا سختیاں کرتا رہا۔ یہاں تک کہ ایک ایک کی ہڈیاں ٹوٹ گئی لیکن کیا مجال کہ کسی ایک کی زبان پہ بھی اپنے مالک کا بھید اُگلا ہو۔تب اُس گستاخ درویش کو خواب میں ایک فرشتے نے کہاکہ اے شخص تو اللہ کو بندہ پروری کا سبق دیتا ہے ذرا ان غلاموں سے بندہ بننے کا سبق تو سیکھ لے۔

قارئین! ”سب سے پہلے پاکستان“ کا نعرہ لگانے والے انکل سام کے غلام جنرل مشرف کے بعد”جمہوریت ہی سب سے بڑا انتقام ہے“ کا سلوگن لے کر برسرِ اقتدار آنے والوں نے تین سالوں میں عوام کی وہ حالت کی ہے کہ سانپ کے ڈسے ہوئے اب رسی سے بھی ڈر رہے ہیں۔پوری پاکستانی قوم کسی بھی سیاستدان پر اعتماد کرنے کے لیے اب تیار نہیں ہے۔ میاں محمد نواز شریف جنرل مشرف کے جانے کے بعد عوام میں سب سے زیادہ مقبولیت رکھتے تھے۔ لیکن خدا جانے یہ سعودی عرب کا دباﺅ ہے یا کوئی خفیہ معاہدہ کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران میاں محمد نواز شریف نے پوری قوم کو ہر موقع پر مایوسی کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔درجنوں مواقع ایسے آئے کہ اگر وہ چاہتے تو وہ عوام کو ریلیف مہیا کرنے کے لیے حکومت گِرا سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے آصف علی زرداری کو ریلیف دینا زیادہ مناسب سمجھا۔مہنگائی، بے روزگاری، بدامنی، لاقانونیت، دہشت گردی اور اب ڈینگی فیور اور سیلاب کے ہاتھوں تباہ حال پاکستانی میاں محمد نوازشریف سے جو اُمیدیں رکھتے تھے اُنہوں نے وہ پوری نہیں کیں۔حالانکہ مسلم لیگ (ن) نظریاتی طور پر افواجِ پاکستان کی حلیف جماعت ہے۔اس کے باوجود کہ پاکستان پیپلز پارٹی اپنے قیام سے لے کر اب تک اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور اینٹی ملٹری ڈکٹیٹر شپ جماعت سمجھی جاتی ہے۔آصف علی زرداری کی سیاسی بصیرت کو سلام پیش کرنے کا دل چاہتا ہے کہ انہوں نے پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ اور فوج کے درمیان فاصلوں کو ختم کر دیا۔جبکہ فطری حلیف اس وقت حریف بن چکے ہیں اور آل پارٹیز کانفرنس کے موقع پر میا ں محمد نواز شریف کے غلط موقع پر صحیح سوالات نے اس خلیج کو اور بڑھا دیا ہے۔جنرل اشفاق پرویز کیانی اور جنرل پاشا میاں محمد نوازشریف کے سوالات کو خوش دلی سے قبول نہ کر سکے اور اس کا نتیجہ آنے والے الیکشن میں سب کے سامنے آجائے گا۔

قارئین! ایک نیا نظریہ پاکستانی عوام میں تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔ نوجوانوں اور پڑھے لکھے لوگوں کی اکثریت کا یہ خیال ہے کہ عمران خان، ڈاکٹر عبد القدیر خان اور پورے پاکستان کے ٹیکنو کریٹس یعنی پروفیشنلز آپس میں اتحاد کریں اور اگلی حکومت اِن لوگوں کی ہو۔حیرانگی کی بات یہ ہے کہ پاکستانی فوج بھی اس نظریے کو درست سمجھتی ہے اور میڈیا پر گزشتہ چند ہفتوں سے عمران خان ، ڈاکٹر عبد القدیر خان اور ٹیکنو کریٹس کو ملنے والی کوریج اس بات کی گواہ ہے کہ افواجِ پاکستان عوام کو ریلیف دینے کے لیے کسی منصوبے پر کام کر رہی ہے۔گزشتہ 64سالوں کے درمیان فوج نے یہ اچھی طرح سمجھ لیا ہے کہ سیاسی گندگی کو صاف کرنے کے لیے جب بھی اُنہیں مجبوراً حکومت سنبھالنا پڑی اس کا عوام پر بُرا اثر پڑا اور فوج کی توقیر اور عزت عوام کی نگاہ میں کم ہوئی۔افواجِ پاکستان دنیا کی پانچ بہتری عسکری قوتوں میں شمار ہوتی ہیں۔ اور اسلامی ممالک میں جن کی تعداد 50سے زائد ہے، پاکستانی فوج سب سے بڑی قوت تسلیم کی جاتی ہے۔خفیہ ادارے اور سکیورٹی ایجنسیز اس وقت عمران خان، ڈاکٹر عبد القدیر خان اور اُن کی ٹیم کو ایک اتحاد میں جوڑنے کے لیے کام کرنا شروع کر چکے ہیں۔اگر ایسا عملی طور پر ہو گیا تو یقین رکھئے کہ پاکستان میں انقلاب صرف ڈیڑھ سال کے فاصلے پر موجود ہے۔

قارئین! راقم نے تحریک ِ انصاف کے سربراہ عمران خان، ڈاکٹر شیریں مزاری، رﺅف حسن اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو آزاد کشمیر ریڈیو FM93پر گزشتہ دنوں انٹرویو کیا۔ان لوگوں کی گفتگو میں پاکستان کے لیے محبت ، عوام کے لیے درد اور مستقبل کے لیے اُمیدیں تھیں۔اس انٹرویو میں میرے ہمراہ سینئر جرنلسٹس کشمیر پریس کلب راجہ حبیب اللہ خان اور محمد رفیق مغل بھی موجود تھے۔پوری دنیا سے ہزاروں لوگوں نے انٹرنیٹ کے ذریعے ان دونوں قائدین کو سلامِ محبت، گل ہائے عقیدت اور نیک خواہشات پیش کیں اور 90فیصد سے زائد لوگوں نے عمران خان اور ڈاکٹر عبد القدیر خان سے درخواست کی کہ وہ پاکستانی عوام کی مشکلات ختم کرنے کے لیے آپس میں اتحاد کر کے سیاسی تبدیلی کی مشترکہ جدوجہد کرےں۔اگرچہ ڈاکٹر عبد القدیر خان اس بات پر بے ساختہ کھلکھلا کر ہنس پڑے اور انہوں نے کہا کہ میرا فیلڈ سائنس اور انجینئرنگ ہیں اور میں پاکستانی قوم کے لیے کسی بھی قسم کی ریسرچ اور ایجادات کرنے کے لیے ہر وقت حاضر ہوں۔شرط صرف یہ ہے کہ یہ درخواست کرنے والی حکومت بدمعاشوں،بدعنوانوں اور دھوکے بازوں کی نہ ہو۔اسی طرح جب میں نے عمران خان سے یہ سوال کیا کہ لاکھوں لوگ جو آپ کا انٹرویو سن رہے ہیں وہ سوال کر رہے ہیں کہ عمران خان کے پاس 1992ءکا ورلڈ کپ جیتنے والی کرکٹ ٹیم کی طرح تحریکِ انصاف کی شکل میں ایک اچھی اور جانی پہچانی ٹیم کیوں نہیں ہے تو عمران خان کا یہ کہنا تھا کہ اُن کی جماعت میں اچھی شہرت رکھنے والے پڑھے لکھے لوگوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے۔میں نے ازراہِ مذاق عمران خان کو چھیڑا کہ آپ سے بہتر تو جنرل مشرف کی مسلم لیگ ہے کہ اُس میں عتیقہ اوڈھو جیسا ایک جانا پہچانا چہرہ تو موجود ہے ۔ اس پر عمران خان نے قہقہہ لگا کر کہا کہ جانے پہچانے چہرے کے ساتھ ساتھ نیک کردار اور اچھی شہرت کا ہونا بنیادی قابلیت ہوتی ہے۔ عمران خان نے ثابت کیا کہ آنے والے انتخابات میں نیا رجسٹر ہونے والا پونے چار کروڑ ووٹ نوجوان نسل پر مشتمل ہے اور یہ ووٹ 100فیصد تحریکِ انصاف کو ملے گا۔اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ ساڑھے تین کروڑ ووٹ بوگس ہونے کی وجہ سے کینسل کر دیئے گئے ہیں جبکہ پاکستان کا ٹوٹل رجسٹر ووٹر 8کروڑ ہے جس میں سے پول ہونے والے ووٹ کی تعداد4کروڑ سے کم ہے۔ اس تجزیے سے انہوں نے ثابت کیا کہ آنے والے الیکشن میں تحریک انصاف ایک سونامی بن کر تمام سیاسی قوتوں کواُڑا کر رکھ دے گی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سونا، چاندی، تانبا، تیل، گیس، کوئلہ اور قدرتی معدنیات جن کی مالیت کھربوں ڈالرز ہے موجود ہیں صرف بدعنوان حکمرانوں کی وجہ سے یہ چیزیں نکالی نہیں جارہیں۔اس میں بین الاقوامی ٹھگوں اور انٹرنیشنل لٹیروں کا بھی پورا پورا کردا رہے۔

قارئین! ڈاکٹر عبد القدیر خان اور عمران خان کے ان انٹرویوز کے دوران ہم نے ڈاکٹر شیریں مزاری، رﺅوف حسن، جنرل عاشور خان، پروفیسر ڈاکٹر جمال ظفر، سردار خالد ابراہیم، سردار عثمان عتیق، عبد الرشید ترابی، راجہ اعجاز دلاور، چوہدری پرویز اشرف ، راجہ مصدق اور دیگر لوگوں کو بھی انٹرویو میں شامل کیا اور یہ محسوس کیا کہ تمام لوگ عمران خان اور ڈاکٹر عبد القدیر خان کی دل سے قدر کرتے ہیں۔اگر قدر کا یہ اظہار آئندہ الیکشن میں ہو گیا تو آج ہماری پیش گوئی نوٹ کرلیں۔ آنے والی حکومت تحریکِ انصاف ، عمران خان، ڈاکٹر عبد القدیر خان اور ٹیکنو کریٹس کی ہوگی اور ایک نیا سویرا طلوع ہو گا بقول اقبال
کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ ، فضا دیکھ!
مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ!
اُس جلوہِ بے پردہ کو پردوں میں چھُپا دیکھ!
ایّامِ جدائی کے ستم دیکھ، جفا دیکھ!
بے تاب نہ ہو، معرکہ بےم و رجا دیکھ!
ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل یہ گھٹائیں
یہ گنبدِ افلاک ، یہ خاموش فضائیں
یہ کوہ، یہ صحرا، یہ سمندر ، یہ ہوائیں
تھیں پیشِ نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں
آئنہ ایّام میںآج اپنی ادا دیکھ!
سمجھے گا زمانہ تری آنکھوں کے اشارے!
دیکھےں گے تجھے دور سے گردوں کے ستارے
ناپید تیرے بخرِ تخیل کے کنارے
پہنچیں گے فلک تک تیری آہوں کے شرارے
تعمیرِ خودی کر، اثر آہِ رسا دیکھ!
خورشید جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں
آباد ہے اِک تازہ جہاں تیرے ہُنر میں
جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں
جنت تری پنہاں ہے ترے خونِ جگر میں
اے پیکرِ گل کوشش پیہم کی جزا دیکھ!

قارئین! آنے والا وقت انقلاب کی آواز بن کر آرہا ہے۔ آئیے اور اس انقلاب کا حصہ بن جائیے کیونکہ یہ ایمان کا تقاضابھی ہے اور وقت کی ضرورت بھی۔ اسی سے نئے سویرے طلوع ہوں گے اور پوری مسلم دنیا سمیت پورے عالم کی قیادت کرے گا ۔ یہ ایک دیوانے کی یاوہ گوئی نہیں ہے بلکہ ایک ولی اللہ کی پیش گوئی بھی ہے۔ جسکا ذکر مختلف کتابوں میں آچکا ہے۔

آخر میں حسبِ روایت لطیفہ پیشِ خدمت ہے۔
جج نے ملزم سے کہا! تمہیں پتہ ہے کہ تم نے کتنا بڑا جرم کیا ہے؟تم کوئلے بلیک کرتے ہو؟
ملزم نے معصومیت سے جواب دیا! ”عالی جاہ وہ تو پہلے ہی بلیک ہوتا ہے۔“

قارئین! ہر آنے والی حکومت پچھلی حکومت کے سیاہ کارنامے تو بتاتی ہے لیکن عوام کے نصیب میں جو سیاہیاں وہ خود گھول رہی ہوتی ہے وہ اُسے دکھائی نہیں دیتیں اور یہیں سے اُس حکومت کا زوال شروع ہو جاتا ہے۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 374135 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More