ڈگری زدہ قوم اور ہنر مند قوم

خدارا پاکستانی قوم اور حکومت سیاست سے نکل کر بھی کچھ سوچے ہم اپنی نسلوں اور آنے والی نسلوں کو کس ظرف لیکر جارہے ہیں کیا ہم مستقبل میں ان ڈگری زدہ قوم سے دنیا کا مقابلہ کرسکتے ہیں زرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں ہم اس ڈگری زدہ قوم کو کیا فوڈ پانڈہ وغیرہ کے لیے ڈگری دلوارہے ہیں.

دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں یہ بی ای، بی کام ، ایم کام ، بی بی اے ، ایم بی اے، انجینئیرنگ کے سینکڑوں شعبہ جات میں بے تحاشہ ڈگریاں اور اس کے علاوہ چار چار سال تک کلاس رومز میں GP کے لئے خوار ہوتے لڑکے لڑکیاں کونسا تیر مار رہے ہیں؟ آپ یقین کریں ہم صرف دھرتی پر "ڈگری شدہ" انسانوں کے بوجھ میں اضافہ کر رہے ہیں۔ یہ تمام ڈگری شدہ نوجوان ملک کو ایک روپے تک کی پروڈکٹ دینے کے قابل نہیں ہیں۔ ان کی ساری تگ و دو اور ڈگری کا حاصل محض ایک معصوم سی نوکری ہے اور بس۔

ٹیوٹا ، ڈاہٹسو ، ڈاٹسن ، ہینو ، ہونڈا ، سوزوکی ، کاواساکی ، لیکسس ، مزدا ، مٹسوبشی ، نسان ، اسوزو اور یاماہا یہ تمام برانڈز جاپان کی ہیں جبکہ شیورلیٹ ، ہونڈائی اور ڈائیوو جنوبی کوریا بناتا ہے۔ اندازہ کریں اس کے بعد دنیا میں آٹو موبائلز رہ کیا جاتی ہیں؟ آئی ٹی اور الیکٹرونکس مارکیٹ کا حال یہ ہے کہ سونی سے لے کر کینن کیمرے تک سب کچھ جاپان کے پاس سے آتا ہے ۔

ایل جی اور سام سنگ جنوبی کوریا سپلائی کرتا ہے۔ 2014 میں سام سنگ کا ریوینیو 305 بلین ڈالرز تھا۔ "ایسر" لیپ ٹاپ تائیوان بنا کر بھیجتا ہے۔ جبکہ ویتنام جیسا ملک بھی "ویتنام ہیلی کاپٹرز کارپوریشن" کے نام سے اپنے ہیلی کاپٹرز اور جہاز بنا رہا ہے۔ محض ہوا ، دھوپ اور پانی رکھنے والا سنگاپور ساری دنیا کی آنکھوں کو خیرہ کر رہا ہے۔ اور کیلیفورنیا میں تعمیر ہونے والا اسپتال بھی چین سے اپنے آلات منگوا رہا ہے- خدا کو یاد کرنے کے لئے تسبیح اور جائے نماز تک ہم خدا کو نہ ماننے والوں سے خریدنے پر مجبور ہیں۔

دنیا کے تعلیمی نظاموں میں پہلے نمبر پر فن لینڈ، دوسرے نمبر پر جاپان اور تیسرے نمبر پر جنوبی کوریا ہے۔ انھوں نے اپنی نئی نسل کو "ڈگریوں" کے پیچھے بھگانے کے بجائے انھیں "ٹیکنیکل" کرنا شروع کر دیا ہے۔ آپ کو سب سے زیادہ ایلیمنٹری اسکولز ان ہی ممالک میں نظر آئیں گے۔

وہ اپنے بچوں کا وقت کلاس رومز میں بورڈز کے سامنے ضائع کرنے کے بجائے حقائق کی دنیا میں لے جاتے ہیں۔ ایک بہت بڑا ووکیشنل انسٹیٹیوٹ اس وقت سنگاپور میں ہے اور وہاں بچوں کا صرف بیس فیصد وقت کلاس میں گذرتا ہے باقی اسی فیصد وقت بچے اپنے اپنے شعبوں میں آٹو موبائلز اور آئی ٹی کی چیزوں سے کھیلتے گذارتے ہیں ۔

دوسری طرف آپ ہمارے تعلیمی نظام اور ہمارے بچوں کا حال ملاحظہ کریں۔ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں ۔۔۔

ہم اس قدر "وژنری" ہیں کہ ہم لیپ ٹاپ اسکیم پر ہر سال 200 ارب روپے خرچ کر رہے ہیں، لیکن لیپ ٹاپ کی انڈسٹری لگانے کو تیار نہیں ہیں۔ آپ ہمارے "وژنری پن" کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ پوری قوم سی پیک کے انتظار میں صرف اس لئے ہے کہ ہمیں چائنا سے گوادر تک جاتے 2000 کلو میٹر کے راستوں میں ڈھابے کے ہوٹل اور پنکچر کی دوکانیں کھولنے کو مل جائیں گی اور ہم ٹول ٹیکس لے لے کر بل گیٹس بن جائیں گے۔ اوپر سے لے کر نیچے تک کوئی بھی ٹیکنالوجی ٹرانسفر کروانے میں دلچسپی نہیں رکھتا ہے۔

آپ فلپائن کی مثال لے لیں ۔ فلپائن نے پورے ملک میں "ہوٹل مینجمنٹ اینڈ ہاسپٹلٹی" کے شعبے کو ترقی دی ہے۔ اپنے نوجوانوں کو ڈپلومہ کورسسز کروائے ہیں ۔ اور دنیا میں اس وقت سب سے زیادہ ڈیمانڈ فلپائن کے سیلز مینز / گرلز ، ویٹرز اور ویٹرسسز کی ہے ۔ حتٰی کے ہمارا دشمن بھارت تک ان تمام شعبوں میں بہت آگے جا چکا ہے۔ آئی ٹی انڈسٹری میں سب سے زیادہ نوجوان ساری دنیا میں بھارت سے جاتے ہیں۔ جبکہ آپ کو دنیا کے تقریباً ہر ملک میں بڑی تعداد میں بھارتی لڑکے لڑکیاں سیلز مینز ، گرلز ، ویٹرز اور ویٹریسسز نظر آتے ہیں۔ پروفیشنل ہونے کی وجہ سے ان کی تنخواہیں بھی پاکستانیوں کے مقابلے میں دس دس گنا زیادہ ہوتی ہیں ۔

ایک طرف احساس کفالت پروگرام سنٹر کے باہر لوگوں کی لائنیں اور لائنوں کے لئے لڑتے جھگڑتے نظر آئینگے اور دوسری طرف سٹیج پر سیاستدانوں اور ٹاک شوز پر ان کے ترجمانوں کو ایک دوسرے کو للکارتے اور ڈینگیں مارتے نظر آئیں گے ان کو دیکھ کر پاکستان اور پاکستانی نوجوانوں پر ترس آنے لگتا ہے۔ ہمارے سیاستدان و حُکمراں اپنے ووٹ کے لیے مُلک میں یہ ڈگری کی تباہی تو ایک طرف جو دوسری تباہی جو نظر آرہی ہے وہ انکم سپورٹ پروگرام، دستر خوان کے زریعے عوام میں اپنے ووٹ کے لیے جو ہمدردی تو حاصل کررہے ہیں مگر آنے والی نسلوں کو جاہلت کے ان گُھپ اندھیروں میں دھکیل رہے ہیں جہاں آنے والے وقتوں میں سوائے بربادی کے کچھ نہیں حاصل ہوپائیگا.

چینی کہاوت ہے کہ "اگر تم کسی کی مدد کرنا چاہتے ہو تو اس کو مچھلی دینے کے بجائے مچھلی پکڑنا سکھا دو"۔ چینیوں کو یہ بات سمجھ آ گئی۔ کاش ہمیں بھی آ جائے۔

حضرت علیؓ نے فرمایا تھا کہ "ہنر مند آدمی کبھی بھوکا نہیں رہتا۔"
خدارا ! ملک میں "ڈگری زدہ" لوگوں کی تعداد بڑھانے کے بجائے ہنر مند پیدا کیجیئے ۔ دنیا کے اتنے بڑے "ہیومن ریسورس" کی اس طرح بے قدری کا جو انجام ہونا تھا وہ ہمارے سامنے ہیں-
 

انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ: 401 Articles with 202596 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.