پنجابی کی ایک ضرب المثل ہے ۔ ” انہا ونڈے ریوڑیاں مُڑ
اپنیاں نوں“ ( اندھا بانٹے ریوڑیاں بار بار اپنوں ہی کو )۔
یوں تو یہ مثل اب ہر طرف عملی طور پہ نظر آتی ہے۔ مگر 16 دسمبر 2024ء پنجاب
اسمبلی میں پاس ہونے والے بل کے بعد یہ مثل زبانِ زدِ عام ہے۔
16 دسمبر 2024ء کو پنجاب اسمبلی کا 19واں اجلاس اسپیکر ملک محمد احمد خان
کی زیرِ صدارت منعقد کیا گیا۔ جس میں وزیرِ پارلیمانی امور مجتبیٰ شجاع
الرحمن نے اراکینِ اسمبلی کی تنخواہوں میں بے تحاشا اضافے کا بل پیش کیا۔
جسے پنجاب اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف ملک محمد خان بھچر کی جانب سے کئ
اعتراضات کے باوجود بھاری اکثریت سے منظور کر لیا گیا۔
اسپیکر ملک محمد احمد خان نے اس اضافے کو اپنا آئینی حق قرار دے کر بل کی
منظوری دے دی۔
اس بل مطابق رکن صوبائی اسمبلی (ایم۔پی۔اے) کی ماہانہ تنخواہ میں 426 فیصد
کا اضافہ کر کے 4 لاکھ روپے کر دیا گیا ہے۔ جو پہلے 76 ہزار روپے تھی۔
جبکہ ایک صوبائی وزیر کی تنخواہ میں 860 فیصد کا اضافہ کر دیا گیا۔ صوبائی
وزیر کی ماہانہ تنخواہ جو پہلے 1 لاکھ روپے تھی۔ اب 9 لاکھ 60 ہزار روپے ہو
گئی ہے۔ مشیران کی تنخواہ 1 لاکھ سے بڑھا کر 6 لاکھ 65 ہزار روپے کر دی گئی
ہے۔ اسپیکر اسمبلی کی ماہانہ تنخواہ 1 لاکھ 25 ہزار سے بڑھا کر 9 لاکھ 60
ہزار روپے کر دی گئی۔ ڈپٹی اسپیکر کی ماہانہ تنخواہ جو پہلے 1 لاکھ 20 ہزار
تھی۔ اب 7 لاکھ 75 ہزار روپے ہو گئی ہے۔
پنجاب اسمبلی کے اسپیکر ملک محمد احمد خان نے تنخواہوں میں اس اضافے کے بل
کو اپنا آئینی حق قرار دیا ہے۔ اسپیکر ملک کے مطابق یہ بل 1972ء کے
پارلیمانی ایکٹ کے مطابق ہے۔ مزید کہا کہ ’’یہ بل موجودہ قوانین کے مطابق
ہے۔ اور حکومت کا فیصلہ ایک مثبت اور مناسب قدم ہے۔‘‘ اسپیکر پنجاب اسمبلی
کا مزید کہنا ہے۔ کہ ’’بل کے مطابق 2019 میں ان کی تنخواہوں میں اضافہ کیا
گیا تھا۔ جو کہ بہت کم تھا۔ اس لیے ان کی ماہانہ تنخواہ میں اضافے کی بل کو
منظوری دی گئی ہے۔"
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے۔ کہ وہ کونسی وجہ ہے۔ جس کی وجہ سے ارکانِ قومی
اسمبلی کو جو کے اچھے بیک گراؤنڈ سے تعلق رکھنے کے ساتھ ساتھ کئی مراعات سے
بھی فیضیاب ہیں،۔ اپنی تنخواہوں میں اس ہُوشربا اضافے کی ضرورت محسوس
ہوئی۔؟؟؟ ظاہر ہے ۔ جواب آئے گا ۔"مہنگائی"
جی ہاں وہ افراطِ زر جس کے کم لیول پہ آنے کے حکومت کی جانب سے بظاہر دعوے
نظر آتے ہیں۔ جس افراطِ زر کا سامنا ایک دیہاڑی دار سے لے کر ایک گورنمنٹ
ملازم تک کو ہے۔ جن کی تنخواہوں و پنشنز میں سال بعد محض دس سے بیس فی صد
اضافہ کر کے حکومت خود کو سرخروہ تصور کرتی ہے۔ اگر ارکانِ اسمبلی کے لئیے
جنہیں پہلے لاکھوں کی تنخواہیں اور مراعات حاصل ہیں ۔ اس افراط ء زر میں
مشکلات کا سامنا ہے۔ تو ایک عام ملازم و دیہاڑی دار کا بھلا حال کیا ہو
گا۔!!
مانا کہ تنخواہوں میں اضافہ ارکانِ اسمبلی کا ” آئینی حق“ ہے۔ مگر کچھ
”آئینی فرائض“ بھی ہیں۔ لوگ اس مہنگائی اور غیر معاشی حالات کی وجہ سے خود
کشیاں کرنے پہ مجبور ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں بجائے بہتر پالیسیاں بنانے
کے سیوریج اور ماچس کی تیلی پہ بھی ٹیکس دینے والی عوام کے پیسوں اور ملکی
خزانے پہ غیر منطقی و غیر منصفانہ لوٹ مار کا بازار گرم کیا جا رہا ہے۔
ملک جب کہ قرضہ جات کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔ اور نوبت اب ایئر پورٹس،
ہائی ویز اور ملکی املاک کی پرائیویٹائزیشن اور گروی رکھنے تک کی آ گئی ہے۔
روز کوئی نہ کوئی ادارہ پرائیویٹ کیا جا رہا ہے۔ جس ملک میں اجرت کی سطح
38000 روپے بھی صرف کاغذی تحریر کی حد تک ہے۔ وگرنہ عملاً 38000 کی حد تک
بھی عموماً نہ تو کوئی جاتا ہے۔ اور نہ ہی اس 38000 کے احسان پر عملدرآمد
کا کوئی حکومتی عملی طریق ہے۔ وہاں ارکانِ اسمبلی کی تنخواہوں میں اس قدر
اضافہ حیران کن ہے۔ بلکہ "حلوائی کی دکان پر نانا جی کا فاتحہ" کے مصداق ہے
۔
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
|