داستان کراچی کے سفر کی (وقار کا سفر نامہ۔قسط چہارم)

یہ سفر ہم نے فیصل آباد سے کراچی تک موٹرسائیکل پر طے کیا۔ اس کی روداد ہے۔ امید ہے قارئین پسند فرمائیں گے ۔

مرکزی جامع مسجد ستیانی شریف میں نماز جمعہ کے بعد کی تصویر

جمعۃ المبارک 9 دسمبر 2022ء کی نورانی ساعتیں شروع ہو گئی تھیں میر پور بٹھورو کی محفل کے اختتام تک دسمبر کی تاریخ بھی 8 سے 9 ہو چکی تھی۔ کھانے سے فراغت پر سائیں بابا نے فرمایا کہ خلیفہ صاحب اور آپ دونوں ہمارے ساتھ چلو۔ ہم نے عرض کی کہ ہم لوگ بائیک پر آئے ہیں اور یہاں کار کی لفٹ لیکر پہنچے ہیں تو فرمانے لگے کہ میری گاڑی میں آجاؤ ۔ ہم دونوں بھی سائیں کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئے۔ سفر شروع ہوا۔ غلام مصطفیٰ بھائی گاڑی چلا رہے تھے سائیں بابا ساتھ فرنٹ سیٹ پر۔ ان کے بالکل پیچھے قاری عبدالجبار صاحب اور ان کے ہمراہ ناچیز۔ حال احوال پوچھا، دوستوں کے حال چال پوچھے، سید جلال الدین رومی شاہ جی کا اسپیشل پوچھا۔ چھوٹی چھوٹی سڑکوں پر گھوم گھما کر ایک کچی دیواروں والی حویلی میں جا پہنچے۔ یہاں 30,40 افراد جمع تھے، بالکل دیہاتی ماحول، شاید دور اندھیرے میں باپردہ خواتین بھی موجود تھیں۔ زمین پر چادیں اور جائے نماز بچھا کر بیٹھنے کی جگہ بنائی تھی۔ سائیں بابا تشریف فرما ہوئے اپنے ساتھ قاری عبدالجبار صاحب کو بٹھایا، دوسری طرف گیلانی سادات سے ایک سیدہ زادہ کو بٹھایا، بیٹھتے ہی دوبارہ دسترخوان سجنا شروع ہو گیا۔ ختم شریف پڑھا گیا، محفل ذکر ہوئی ۔سائیں نے بالکل محسوس نہیں کروایا کہ ہم کھانا کھا آئے ہیں یہ مت لگاؤ بلکہ اولیاء اللہ کی روش اپناتے ہوئے دوسروں کا خیال رکھتے دسترخوان لگنے دیا۔ حسب ضرورت تھوڑا تھوڑا کھاتے رہے تاکہ باقی لوگ پیٹ بھر کر کھا لیں۔ کھانے کے بعد کچھ لوگ سلسلہ قادریہ میں داخل ہونے کیلئے بیعت ہوئے۔ سندھ میں بارہا آنا ہوا لیکن مجھے پہلی بار سندھ کی ثقافتی اجرک بطور تحفہ ملی۔ مرد حضرات کو باہر بھیج کر خواتین کو دعا کیلئے بلا یا گیا اور چند ہی لمحوں میں سائیں بابا باہر تشریف لائے ، خلیفہ سلیمان صاحب کو کسی سید صاحب کے وصال کا فرمایا اور حکم دیا کہ صبح 10 بجے جنازہ ہے آپ میری نمائندگی کریں اور فیصل آباد کے مہمانوں کو بھی ہمراہ لے جائیں ۔ ہمیں فرمایا کہ ان کے ساتھ جائیں اور آرام کریں صبح ملاقات ہوگی۔

واپس پہنچے، بستر بالکل تیار تھے، آرام کی غرض سے لیٹ گئے۔ فجر کے بعد پھر تھوڑا لیٹے 8 بجے تیار ہوئے، خلیفہ سلیمان صاحب ، ڈرائیور ، مفتی عبد السلام صاحب ، قاری عبدالجبار صاحب اور راقم الحروف، یہ جگہ بدین سے آگے نوکوٹ والی سائڈ تھی نام نہیں پوچھ سکا ان سید صاحب کا۔ بہت بڑا جنازہ تھا بڑی حویلی میں بہت ساری کاریں اور بڑے بڑے پروٹوکول والے افراد شریک تھے شاید کوئی سیاسی اثر ورسوخ رکھنے والی شخصیت تھے۔ موسم گرم تھا بلکہ دھوپ میں کھڑا ہونا بھی مشکل تھا۔ جنازہ کے بعد بدین واپس پہنچے اور گولاڑچی ایک گھر میں ناشتہ تھا۔ ناشتہ تازہ بنایا جا رہا تھا سادہ سا کمرہ تھا جس میں ہم لوگ بیٹھے دوران گفتگو معلوم ہوا کہ یہ پورا خاندان سائیں کے ہاتھ پر مسلمان ہوا ہے، اب ان کی خواہش ہے کہ میزبانی کی سعادت ان کو بخشی جائے۔ سرکار بغداد کی غلامی میں بہت خوش تھے، خوبصورت مہمان نوازی کی، سائیں کا بھی کیا خوب انداز ہے مسلمان کرتے ہیں پھر تنہا نہیں چھوڑتے صرف گھر میں آباد ہی نہیں کرتے بلکہ ان کاخرچہ بھی اٹھاتے ہیں۔

جمعہ کا وقت ہو رہا تھا ہم جلدی روانہ ہوئے اور ستیانی شریف پہنچے، غسل جمعہ کیا تو مسجد میں مفتی عبدالسلام صاحب نے خطاب شروع کر دیا۔ ہم بھی جا پہنچے اور پہلی صف بیٹھے۔ مفتی صاحب نے کمال سرپرائز دیا اور اپنا خطاب مختصر کرکے ناچیز کو خطاب کی دعوت دے دی۔ قریب 35 منٹ گفتگو کا موقع ملا جو کسی سعادت سے کم نہ تھا اولیاء اللہ کی بارگاہ میں طلب لیکر جائیں۔۔۔۔کے عنوان پر گفتگو کی۔ دوران خطاب سائیں بابا بھی تشریف لے آئے۔نماز جمعہ پڑھی، جماعت کروانے کے بعد سائیں بابا نے بہت غمگین انداز میں اعلان کیا کہ ابھی جمعہ سے قبل ان کے چچا جان کا وصال ہو گیا ہے جو جمعہ کی تیاری کر چکے تھے اچانک ہارٹ اٹیک آنے سے وصال فرما گئے ہیں ۔ دو نعت خوان برادران بھی آئے تھے۔ اچھے ملنسار تھے نام بھول گیا ہوں۔ کیو ٹی وی پر بھی سنا ہے ان کو مل کر پڑھتے ہیں۔ جمعہ کے بعد انہوں نے کچھ کلام سنائے اچھی آواز اور بڑا پرسکون انداز تھا۔ جمعہ کے بعد کھانا کھایا، بہت لوگ نماز جنازہ میں شرکت کیلئے پہنچ رہے تھے۔

کراچی سے قاری صاحب کے دوست شیخ فاروق صاحب بھی بائیک پر نماز جمعہ پڑھنے پہنچے تھے، سوشل میڈیا پر ایکٹو ہوتے ہیں۔ محبت اہلبیت کی بدولت اہل تشیع کی مجالس بھی اٹینڈ کرتے تھے۔ جمعہ ستیانی پڑھا، گفتگو ہو تی رہی، جہاندیدہ آدمی ہیں بہت گہرے سوال کرتے رہے جو جو بن پایا جواب دیتا رہا، قاری صاحب سے پہلے کی گفت وشنید تھی ان کی ۔ رات کی نشست میں سائیں بابا سے حلقہ ارادت محمودیہ قادریہ میں داخل بھی ہوگئے(الحمدللہ) سائیں بابا کے چچا جان کی نماز جنازہ رات 10 بجے کا اعلان ہوا۔ قبر کی تیاری شروع ہو گئی تھی، مسجد میں محفل پاک مسلسل جاری رہی، مختلف درود شریف، ذکر اذکار پڑھے جاتے رہے تاکہ جو لوگ آ رہے وہ ذکر کی محفل میں بیٹھیں بلا وجہ ادھر ادھر گھوم کے وقت ضائع نہ کریں۔ یوں سمجھیں کہ نماز جمعہ سے رات 10 بجے تک بلکہ تدفین کے اختتام تک مسلسل محفل جاری رہی۔

تلاوت قرآن پاک ، ذکر اذکار، محفل درود شریف، نعت خوانی سب کچھ ہوتا رہا۔ کبھی کبھی سائیں بابا بھی تشریف لے گئے تو بڑے صاحبزادہ صاحب سائیں عطاء اللہ نے محفل جما دی. ستیانی شریف میں ماحول ایسا سوگوار تھا کہ کوئی بھی اضافی ایکٹیویٹی نہ کر سکا۔ ادارہ وزٹ کرنا تھا مگر اس طرف قبر کی تیاری جاری تھی اس لیے مہمان خانہ میں یا مسجد میں وقت گزارا، فوٹو وغیرہ بھی نہیں بنا سکا۔ نماز جنازہ میں بہت بڑی تعداد لوگ شریک تھے، دن کو گرمی تھی رات کو ہوا میں کافی خنکی آ گئی۔ نماز جنازہ کے بعد کھانا لگا دیا۔ دور دور سے مہمان آئے تھے، سائیں بابا جس کمرے میں تشریف فرما تھے وہاں بہت سارے لوگ اور بھی موجود تھے، کھانا کھا رہے تھے، ان میں سے این ایچ اے والے ارباب صاحب سے شناسائی تھی یا مفتی صاحب سے باقی سب افراد تقریباً نئے چہرے تھے۔ گھوٹکی کے معروف آستانہ بھرچونڈی شریف کے سجادہ نشین کے (شاید) بھائی اور ایک بزرگ سید اقبال شاہ راشدی صاحب تشریف لائے ۔ اسی دوران سائیں بابا نے سب کو بتایا کہ یہ دو فقیر (درویش) فیصل آباد سے موٹر سائیکل پر آئے ہیں۔ پھر ہم سے پوچھا کیا شیڈول ہے۔ ہم نے عرض کی کراچی جانا ہے، فرمایا اپنا براق ادھر چھوڑو اور بس پر چلے جاؤ واپسی پر اس کو لے لینا۔ میری موٹرسائیکل کو اڈن کھٹولا جو خضر بھائی نے نام دیا اس کے بعد سائیں بابا نے براق کا خطاب دے دیا۔ کیونکہ ہم گنہگاروں کو اولیاء اللہ کی بارگاہ میں معراج کروا رہا تھا براق کے ہی فیض کا پرتو لگتا ہے۔ ( جاری ہے)
 

محمد قاسم وقار سیالوی
About the Author: محمد قاسم وقار سیالوی Read More Articles by محمد قاسم وقار سیالوی: 52 Articles with 14666 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.