داستان کراچی کے سفر کی (وقار کا سفرنامہ۔ قسط پنجم)

یہ سفر ہم نے فیصل آباد سے کراچی تک موٹرسائیکل پر کیا۔ اس کی مختصر روداد ہے۔ امید ہے قارئین پسند کریں گے

ٹھٹھہ کی جامع مسجد

ستیانی شریف میں دوسری رات گزارنے کے بعد علی الصبح بعد نماز فجر ہم اپنی منزل کراچی کی جانب روانہ ہونے کیلئے تیار تھے۔ بلا شبہ ستیانی شریف میں اچھا وقت گزرا، یہ بھی زندگی کا عجیب طریقہ ہے کہ اگر آپ کسی سے یا کوئی آپ سے جدا ہو تو ہم وہیں رک جاتے ہیں دس سال، بیس سال بعد دوبارہ ملاقات ہو تو میرے جیسے بیس سال پہلے والے حالات کو تلاش کرتے ہیں حالانکہ اس کو گزرے بیس سال ہو چکے ہوتے ہیں ۔ خیر وقت کے ساتھ ساتھ نظام زندگی چلنا رہنا چاہیے علی الصبح ہی روانگی کیلئے آمادہ تھے اور اب یہ قافلہ دو موٹر سائیکلوں پر مشتمل تھا۔ دوسری 70 سی سی بائک تھی کمپنی کونسی تھی یہ نہیں معلوم، کیونکہ یہ کراچی کا اسٹائل ہے۔ خواتین برقعہ کے بغیر اور موٹر سائیکل مکمل حجاب میں۔ بقول بعض برقعے بم دھماکہ کرنے والے پہن کے آجاتے تھے اور موٹر سائیکل کور کے بغیر چوری والے لے جاتے۔ اچھا بھائی آپ کا کراچی آپ کی مرضی۔ ستیانی سے تقریباً سوا سات کے قریب روانہ ہوئے۔ پہلا سٹاپ سجاول تھا۔ یہاں بازاروں میں جماعت اہلسنت کے پرچم اور جھنڈیاں لگی دیکھیں تو عجیب سی خوشی محسوس ہوئی۔

ایک ہوٹل پر رکھے، ناشتہ کیا اور ٹھٹھہ کی جانب بڑھ گئے۔ صبح صبح سڑکوں پر اچھا خاصا پانی کا چھڑکاؤ کیا جا رہا تھا شاید کوئی سرکاری شخصیت آنے والی تھی پولیس والے بھی چاک و چوبند تھے۔ پہلی بریک ٹھٹھہ کی شاہ جہاں مسجد کے گیٹ پر لگی۔ قاری صاحب نے کہا کہ میں باہر موٹر سائیکلوں کے پاس رکتا ہوں آپ اندر سے دیکھ آئیں ۔ موٹر سائیکلوں کو گیٹ کی ایک طرف روکا۔ سامان مع قاری صاحب وہیں چھوڑے اور مسجد کی زیارت کو چل دیے۔ واقعی خوبصورت فن تعمیر کا شاہکار مسجد تھی (تفصیل مع تصاویر وقار کا سفرنامہ فیس بک پر ملاحظہ کی جاسکتی ہیں)۔ مرکزی دروازہ کے عین وسط میں ایک قبر تھی جس کی بدولت دروازہ مستقل بند رہتا ہے۔ کس کی قبر ہے ؟ نہیں معلوم کسی کو معلوم ہو تو کمنٹس میں بتا سکتا ہے۔ دوسرے دروازے بھی بند تھے اسی اثناء میں کچھ سرکاری اہلکار مسجد کو ملاحظہ کرنے کیلئے آ پہنچے تو ان کیلئے گیٹ کھلا اور ہم بھی مسجد کے اندر جا پہنچے۔ تاریخی ورثہ کو محفوظ کرنے کا جا ری تھا جو بہت اچھی بات ہے بس جن کی سرکاری طور پر ڈیوٹی لگے کوشش کریں کہ وہ میرٹ پر بندے رکھے جائیں سفارشی نہیں ورنہ وہ ہر آنے جانے والے بخشیش کی آس لگائے رہتے ہیں ۔

مسجد وزٹ کرکے باہر نکلے تو عجیب صورتحال تھی پارکنگ والا دو موٹر سائیکل کی پارکنگ فیس لینے آ پہنچا۔ بولا آپ پاس کھڑے تھے یا نہیں پارکنگ فیس آپ نے ہر صورت دینی ہے، سندھ حکومت کی اس پھرتی پر ہم بھی ورطہ حیرت میں تھے۔ یہ فرض شناس فرد اگر پہلے موجود ہوتا تو ہم تینوں ایک ساتھ ہی مسجد کا وزٹ کر لیتے۔ خیر صبح صبح کیا مغز ماری کرتے ابھی تو ناشتہ میں مغز پائے کی جگہ چنے پراٹھا کھاکر کر آئے تھے۔ اس لیے ان کو پارکنگ فیس ادا کی اور مکلی کی طرف بڑھ گئے۔

مکلی کو یونیسکو نے عالمی ورثہ کی لسٹ میں شامل کر لیا ہے ۔ شنید ہے کہ اس قبرستان میں بہت سارے بادشاہوں، راجوں، مہاراجوں کی قبریں ہیں۔ جن کے نام پر یہ قبرستان اور شہر کا نام ہے یعنی مائی مکلی ان کے بارے بھی بہت کچھ سننے کو ملتا ہے۔ قبریں اور مقبرے صدیوں کی داستانیں لیے موجود ہیں۔ بہترین کاشی کاری، عمدہ طرز تعمیر کے شاہکار جو اب شکست وریخت کا شکار ہو رہے۔ مکلی کا قبرستان بقول وکی پیڈیا کے 10 کلومیٹر پر محیط ہے اور یہاں پانچ لاکھ سے زائد مقبرے ہیں جو چار سو سالوں میں بنے۔ 1981 میں یونیسکو نے اس کو چودھویں صدی کے عالمی ورثہ کے طور پر منظور کیا۔ مغلوں کے دور میں شاہی قبرستان کا درجہ بھی دیا گیا۔ سما خاندان جس نے سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے کچھ علاقوں پر مشتمل حکومت قائم کی ان کا دارالحکومت ٹھٹہ رہا ہے۔ اس خاندان اور افغانی شہنشاہوں کے خاندانوں کے مقبرے بھی موجود ہیں۔ قاری صاحب گزشتہ حاضری میں کسی مقبرے پر جا پہنچے جہاں جنات رہائش پذیر تھے اس کی داستان انہی سے سنی جا سکتی ہے کہ انہوں نے 16 گلاس لسی کے کیوں پیے تھے ۔ 🤫۔ اس لیے ہم تو زیادہ کھوج میں نہیں گئے۔

بہت سارے مقبرے ایسے ٹوٹ پھوٹ کا شکار کہ جیسے رات کو یہاں بدروحوں کے نکلنے کا راستہ بنا ہو۔ کچھ جگہوں پر مرمت کا کام بھی ہو رہا ہے، اندر جانے کیلئے ٹکٹ بھی لینا پڑتا ہے، جو ہم نے پچاس روپے دیکر اجازت حاصل کر لی تھی۔ ہم اپنی بائیکوں پر ہی کچھ اندر تک گئے۔ وہاں حضرت عبداللہ صحابی کا مزار ہے جن کو جاگتے ہوئے نبی پاک کا دیدار ہوا تو صابی یا اصحابی مشہور ہوئے (واللہ اعلم) ان کی درگاہ پر حاضری دی، مجموعی طور پر سب مسلمانو کیلئے فاتحہ خوانی کی اور آگے اپنی منزل کراچی کی طرف روانہ ہو گئے۔

اس روٹ پر بہت سال پہلے بس پر سفر کیا تھا جب میں اور مقصود بھائی ڈھرکی سے سکھر، وہاں سے مشوری شریف اور موئن جودڑو اور پھر سکھر سے کراچی گئے تھے بزریعہ بس۔ آج اپنی سواری پر جا رہے تھے، ڈبل روڈ ہے بہترین بنا ہوا اس لیے سفر میں کوئی رکاوٹ نہ تھی۔ مکلی سے گجو پہنچے کوئی گجومتہ نہ سمجھ لے کیونکہ وہ لاہور میں ہے، یہاں سے سلطان آباد سے ہوتے ہوئے گھارو پہنچے۔ یہاں کیفے عمران کی تعریف سنی تھی سو وہاں پر سٹاپ کیا۔ واقعی سندھ دھرتی پر صاف ستھرے ہوٹلوں میں اس کا شمار ہونا بھی چاہیے مستعد اور صاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس عملہ ہمہ وقت خدمت گاہکاں میں مصروف نظر آیا۔ رش بھی کافی تھا، چائے نوش کی، ماحول کے مطابق چائے کا تھوڑا مہنگا ہونا تو بنتا ہے ۔

چائے کے بعد جانب کراچی روانہ ہو گئے۔ گھارو سے دھابیجی، بن قاسم ٹاؤن، قائد آباد، قاری صاحب کو لانڈھی ڈراپ کیا اور موبائل پر قاری ضیاء اللہ سیالوی صاحب کے دفتر کی لوکیشن ڈالی اور براق کو گوگل استاد کے بتائے طریق پر دوڑا دیا۔ شیخ فاروق صاحب نے مین روڈ تک رہنمائی کی وہاں سے ان کو الوداع کیا اور کچھ پکی اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں، گندی نالیوں کے اوور فلو، کچرا کنڈیوں کو عبور کرتے ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ چلتے جا پہنچا سیالوی ریئل اسٹیٹ کے دفتر میں۔ وہاں جاکر قاری صاحب کو معلوم ہوا کہ ناچیز فیصل آباد سے بزریعہ موٹر سائیکل کراچی آ پہنچا ہے تو حیرت اور ستائش کے ملے جلے انداز سے ہمیشہ کی طرح پرتپاک استقبال کیا، کھانا وغیرہ کھا کے کچھ دیر کو دراز ہو گیا کیونکہ میں کراچی پہنچ چکا تھا۔ الحمدللہ۔ تذکرہ پنجاب کی سردی کا چھڑا تو قاری صاحب کو بتایا کہ یہ جیکٹ نہ ہوتی تو سفر مشکل تھا جو کہ تین، چار سال قبل سلائی کروائی تھی شائد۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (جاری ہے)
 

محمد قاسم وقار سیالوی
About the Author: محمد قاسم وقار سیالوی Read More Articles by محمد قاسم وقار سیالوی: 38 Articles with 7700 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.