مدیجی میں رات بہت پرسکوں گزری۔ شاید تھکاوٹ کی وجہ تھی
کہ نیند اچھی آئی۔ الحمدللہ نماز فجر پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ 7:30 بجے
ہمارے میزبان علی اکبر صاحب ناشتہ لیکر تشریف لائے۔ مکھن,اور چاول کے آٹے
کا مکسچر ٹائپ کوئی شے تھی جس میں شہد ملا ہوا تھا ساتھ چاول کی گرما گرم
روٹی، انڈہ املیٹ بھی تھا لیکن میرے جیسے ثقافت اور مقامی طرز خوراک کو
پسند کرنے والا اسی میں مگن تھا ۔ ناشتے کے بعد اجازت لی ، ہیلمٹ کے شیشے
صاف کیے کیونکہ رات حملہ کرنے والے مچھروں کی لاشیں ابھی تک اوپر موجود
تھیں، بیگ کو بیک اسٹینڈ پر باندھا اور سفر پر روانہ ہو گئے۔ جیسے جیسے
لاڑکانہ کی طرف بڑھ رہے تھے دونوں اطراف سیلاب کی تباہ کاریوں کے نشانات
تھے۔ اللہ اکبر جیسے دونوں اطراف سمندر ہی تھا۔ دور دور تک پانی ہی پانی۔
گڑھی خدا بخش سے گزرے دور دائیں جانب بھٹو خاندان کی قبروں پر بنا سفید
ٹائلوں سے مزین مقبرہ نظر آ رہا تھا، لاڑکانہ شہر کے بیچوں بیچ گزرتے آگے
بڑھتے جا رہے تھے، اندرون لاڑکانہ کا حال بھی بس۔۔۔۔۔جئے بھٹو۔۔۔۔۔ (باقی
آپ سمجھ گئے ہونگے)۔البتہ سیمنٹ کے بنے بڑے بڑے بورڈز پر شہید بی بی رانی
اور ان کے شوہر اور بیٹے کے فوٹوز دیکھنے کو ملتے رہے۔
لاڑکانہ سے نصیر آباد، مہیڑ، گوٹھ کولاچی، خیر پور ناتھن شاہ، گوٹھ پکا چنا
سے ہوتے ہوئے اپنی اس دن کی پہلی منزل درگاہ قلندر سہون شریف پہنچے راستے
میں مہیڑ اور پھر دادو میں مختصر قیام کرتے ہوئے۔ درگاہ شریف کی طرف گئے تو
ہوٹل والوں کے نمائندوں نے گھیرنا شروع کیا ، کمرہ کمرہ کی آوازیں چاروں
طرف سے خیر ہم نے کونسا کمرہ لینا تھا ہم تو راہی مسافر حاضری دینے پہنچے
تھے اور پھر اگلی منزل کی طرف روانہ ہو جانا تھا۔ پارکنگ میں بائیک کھڑی کی۔
بیگز اور جیکٹس وہیں اوپر رکھیں۔ 50 روپے موٹر سائیکل کی پارکنگ فیس ادا کی
اور پچاس روپے سامان پر حفاظتی نظر رکھنے کے لیے ادا کیے ۔بہت سالوں کے بعد
بارگاہ حضرت شہباز قلندر سید عثمان علی مروندی رحمۃ اللہ علیہ حاضری کی
سعادت پا رہا تھا۔ آخری بار شاید 2008 میں حاضری ہوئی تھی۔ وضو ہم سہون سے
پہلے والے سٹاپ پر تقریباً 8 کلومیٹر پہلے سیلاب کے بعد دوبارہ مرمت ہونے
والے پیٹرول پمپ پر کر کے آئے تھے اس لیے یہاں وقت بچانا ہی مناسب سمجھا۔
سیدھا روضہ شریف کے اندر جا پہنچے۔ روضہ شریف کے اندر بہت بڑا حال جو اپنے
اندر ایک ہجوم کو سموئے تھا جیسے دل دریا سمندروں ڈونگے۔۔۔۔ درمیان میں
قلندر شہنشاہ اپنے پورے جوبن پر خیرات تقسیم فرما رہے تھے، آگے بڑھے اور بے
ساختہ مجاوروں کا حصار عبور کرتے مزار شریف پر سلامی کیلئے جا پہنچے۔ سلام
کرکے پیچھے پلٹا تو ایک ڈیوٹی آفیسر (مجاور) نے گلے میں چادر ڈال دی، قلندر
پاک کی عطا سمجھ کر چادر چومی اور اندر بنی مسجد کی طرف بڑھنا ہی چاہا تو
پیچھے سے آواز آئی چادر لی ہے تو ہدیہ تو دیتے جاؤ۔ میں نے عرض کی کہ سائیں
آپ نے خود سے عطا کی ہے تو بولا پھر ہماری چادر واپس کرو۔ بخوشی کندھے سے
اتار کر واپس کر دی کیوں کہ وہ مجاوروں کی تھی قلندر پاک کی نہیں ۔
روضہ کے اندر بنی مسجد میں نماز ظہر ادا کی، تلاوت قرآن پاک کی، ختم شریف
پیش کیا، دوستوں کا سلام اور دردمندانہ گزارشات اللہ کے دوست کے حضور پیش
کیں، دل چاہتا تھا کہ کچھ دیر خاموشی سے آنکھیں بند کرکے اپنے ہی من میں
غوطہ زن ہوا جائے لیکن ایک خاتون کی بہت زیادہ بلند آواز میں آہ و فغاں نے
پورے ماحول کے شور کو اپنی گرفت میں لیا ہوا تھا۔ مسجد سے نیچے اتر کر
قدموں کی طرف آ بیٹھے، خاتون کی آواز کچھ دیر کو بند ہوئی اور دوبارہ پھر
شروع۔ عجب دنیا ہے ان اللہ والوں کی کہیں ایسا سکوت کہ سوئی بھی گرے تو
آواز آئے اور کہیں ایسا قلندرانہ ماحول کہ آپس میں بات کرنے کیلئے بھی خاص
تردد کرنا پڑے۔ اللہ کے حضور دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے، یہ کہتے ہوئے درگاہ
شریف سے باہر نکل آئے۔۔۔۔۔۔ تیرا سہون رہوے آباد سخی شہباز قلندر۔۔۔۔۔۔۔
دربار شریف سے باہری گیٹ تک ان گنت قسم کے افراد سے واستہ پڑا کچھ قلندر کے
نام پر مانگ رہے تو کچھ لنگر تقسیم کرنے کا اشتیاق دلا رہے، کسی کی خواہش
کہ گلے میں پھولوں کا ہار ڈال کے چندہ وصول کرے تو کہیں بچوں کی فوج ظفر
موج چاروں اطراف سے گھیر لیتی۔ بغداد شریف حضرت امام غزالی کے روضہ کی
حاضری یاد آگئی وہاں بھی یہی سلسلہ ملا ایک کو کچھ دیا نہیں باقی سب کے سب
چھینا جھپٹی شروع کوئی بیگ کھینچتا کوئی ٹوپی اتارتا اور چادر کھینچ لیتا
بہت مشکل سے قریبی دکانداروں نے ہماری جان چھڑوائی۔ بس احتیاط کو ہی مناسب
سمجھا کہ قلندر شہنشاہ ہی اپنے فقیروں کو نوازیں اور ہمیں بھی غلاموں کی
خیرات عطا فرمائیں۔ عجب کشمکش تھی سب سے ایک ہی بات کی کہ ہم یہاں خود لینے
آئے ہیں۔ سدا بادشاہی رب کی،۔اختیار اس کے دوستوں کا۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اللہ والے
اک جہان آباد کیے ہوئے ہیں یقیناً ہماری حاضری بھی قبول فرمائی اور آنے کا
اذن عطا فرمایا سخیوں سے اس کے سوا اور کیا توقع کی جا سکتی ہے۔
سہون شریف سے روانہ ہوئے تو منہ حیدر آباد کی طرف تھا۔ راستہ میں آمری کے
مقام پر پیٹرول پمپ سے موٹر سائیکل کی ٹینکی فل کروائی یہ فیصل آباد ،
بہاولپور، پنوں عاقل کے بعد چوتھا مقام تھا۔ ہم نے ابھی تک ریزرو نہیں لگنے
دیا تھا۔ تقریباً 9 سے 10 لیٹر ڈلوا رہے تھے۔ پیٹرول کی گیج سوئی نے کافی
کام آسان کیا ہوا تھا۔
یہیں آمری کے مقام سپر مدینہ ریسٹورنٹ اور باربی کیو پر بریک لگائی۔ کھانا
آرڈر کیا۔ گوشت کو من نہیں تھا دال آرڈر کی، چائے پی بل 1150 بن گیا۔ مطلب
مہنگائی صرف پنجاب میں ہی نہیں اندرون سندھ میں بھی پائی جاتی ہے۔ ہوٹل
مجموعی طور پر خلاف توقع بہت صاف ستھرا اور عملے کو مستعد پایا۔ کھانا بھی
تقریباً ٹھیک تھا۔ کھانے بعد جو سونف اور منٹ ٹافیاں دیں وہ کمال تھیں۔
سفر شروع ہوا اب انڈس ہائی وے ایک بار پھر سیلاب کی بدولت شکست و ریخت کا
شکار ملا، مرمت کا کام بھی جاری تھا۔ سن سندھ، کنہوٹی، علی آباد، سے ہوتے
ہوئے جامشورو پہنچے۔ وہاں سے کوٹری، یہاں سڑک کے گول چکر اور پل نے ہم کو
بھی گھما دیا۔ ایک بار پھر گوگل استاد کی مدد لی ، موبائل کو اسٹینڈ پر فٹ
کیا اور گھوم گھما کے سیدھے راستے پر جا پہنچے۔ مغرب کوٹری میں ہو گئی ہم
نے اپنا سفر جاری رکھا۔ کوٹری سے بھولاری، جھرک سے آغاخان پل کراس کر کے
کپور موڑ کی طرف بڑھ گئے۔ رات ہو رہی تھی سندھ کے اندرون ہمارا سفر جاری
تھا۔ بسا اوقات کوئی اکا دکا گاڑی مل جاتی کیونکہ یہ لنک روڈ تھا۔ وہاں سے
بلڑی شاہ کریم ، یہاں پولیس والوں نے ناکہ لگا رکھا تھا، ہم کو بھی
روکا۔بیبے بچوں کی طرح ہم بھی رک گئے، ہیلمٹ،دستانے اتارے تو سلام دعا
ہوئی، کہاں سے آ رہے او؟ فیصل آباد سے۔۔۔۔۔۔۔۔ہائیں۔۔۔۔۔جی جی ۔۔۔۔۔ اس پر
آ رہے او؟ جی اسی پر آ رہے۔ کاغذات ہیں بالکل ہیں ۔ دکھاؤ۔ یہ لیں ۔ نام
بتاؤ کس کے نام پر ہے۔۔۔ جی میرے نام پر۔ کہاں جا رہے او۔؟ سائیں بابا کے
پاس ستیانی شریف۔۔۔۔ انٹرویو اختتام کو پہنچا۔ بائک کا رجسٹریشن کارڈ واپس
مل گیا۔ ایک پولیس والے صاحب گویا ہوئے۔۔۔۔۔ پنجاب جا کر بتا دینا سندھ
پولیس نے کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ ( لو بھائی پولیس والے سب کو بتا دیا اپ
کا پیغام۔ شایڈ کبھی آپ تک یہ بات پہنچے تو خوش ہو جائیے گا کہ امانت دار
بندے ملے تھے سردیوں کی رات 9 بجے ناکے پر).
یہاں سے گلو خلاصی کراکے ایک ہوٹل پر رکے، چائے پی، وہاں سے میر پور بٹھورو
اور ستیانی شریف جا پہنچے، یوں ہم نے مدیجی سے ستیانی شریف تقریبآ 480
کلومیٹر سفر طے کر لیا تھا۔ستیانی شریف کا نقشہ ہی بدلا ہوا تھا ماشاءاللہ
۔ جب میں آخری بار آیا تو تب یہاں یہ سب نہیں تھا۔ ماشاء اللہ بہت تبدیلی آ
چکی تھی، معلوم ہوا کہ سائیں بابا کا جلسہ ہے میر پور بٹھورو کی جامع مسجد
میں تو فٹا فٹ سامان کمرے میں رکھا، نہائے، کپڑے تبدیل کیے، کھانا لگ چکا
تھا خلیفہ محمد سلیمان صاحب کے ہمراہ کھانا کھایا انہی کی کار میں میر پور
بٹھورو پہنچے۔ سائیں کا بیان جاری تھا۔ سندھی زبان میں تھا لیکن پورے مجمع
پر ایک کیف طاری تھا۔سلام اور دعا کے بعد کھانے کے مقام پر سائیں بابا سے
ملاقات ہوئی، کمال شفقت فرماتے ہوئے ہم کو اپنے ساتھ دستر خوان پر بٹھا لیا
جو ان کیلئے بیڈ پر ہی لگا دیا گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔( جاری ہے)
|