امیر جماعت اسلامی خیبر پختونخوا شمالی (ملاکنڈ ڈویژن)
اور سابق صوبائی وزیر عنایت اللہ خان نے پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کی جانب
سے ملاکنڈ ڈویژن کے ایک کروڑ کی آبادی کے ساتھ متعصبانہ رویہ کی مذمت کرتے
ہوئے 42 ارب روپے سے زائد کے جاری ترقیا تی منصوبے بند اور فنڈز روکنے کے
اقدام کو یہاں کے عوام کے حق پرڈاکہ قراردیا ہے۔ سوات پریس کلب میں نائب
امراء سید بختیار معانی (سابق ایم این اے) محمد امین (سابق ایم پی
اے)اورجنرل سیکرٹری محمد حلیم باچا ،جماعت اسلامی سوات کے امیر حمید الحق،
اختر علی خان جی، ڈاکٹر بشیر احمد اور دیگر رہنماوں کے ہمراہ پریس کانفرنس
کرتے ہوئے امیر صوبہ عنایت اللہ خان نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے اپنے
ہی سابق دور حکومت میں ملاکنڈ ڈویژن کے اضلاع سوات، بونیر، شانگلہ، دیر،
ملاکنڈ، چترال اور باجوڑ میں منظور شدہ مجموعی طور پر 42 ارب روپے سے زائد
کے ترقیاتی منصوبوں کو ختم کردیا ہے اور ان کے فنڈز کو منجمد کرکے یہاں کے
عوام کے مینڈیٹ کی توہین کی ہے جس کی ہم شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملاکنڈ ڈویژن کے عوام نے مسلسل تین بار پی ٹی آئی کو
مینڈیٹ دیا لیکن اسی پارٹی نے یہاں کے عوام کے ساتھ نا انصافی کی۔ یہاں تک
کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے پی ٹی آئی کے وزراءاور ممبران اسمبلی
کا کردار بھی اس حوالے سے انتہائی مایوس کن رہا ہے۔ عنایت اللہ خان نے کہا
کہ صوبے کی تاریخ میں پہلی بار کسی حکومت نے بلدیاتی نمائندوں پر لاٹھی
چارج کیا اور ان کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے اس امر پر افسوس کا
اظہار کیا کہ اسلام آباد میں خود دھرنے دینے والے بلدیاتی نمائندوں کو
جمہوری حق سے محروم کررہے ہیں۔ عنایت اللہ خان نے دو ٹوک اعلان کیا کہ اگر
حکومت نے ملاکنڈ ڈویژن میں پہلے سے منظور شدہ ترقیاتی منصوبوں کو فنڈ ریلیز
کرکے بحال نہ کیا تو جماعت اسلامی حکومت کے ان ظالمانہ اقدامات کے خلاف بھر
پور احتجاجی تحریک چلائے گی اور اس ضمن میں آل پارٹیز کا نفرنس اور دیگر
آپشن پر بھی غور کیا جاسکتا ہے۔ ملاکنڈ ڈویژن، جسے خیبر پختونخوا کا دل کہا
جاتا ہے، نہ صرف اپنے قدرتی حسن، تاریخی ورثے اور ثقافتی تنوع کے لئے مشہور
ہے بلکہ اس کی ایک اہمیت ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے بھی ہے۔ تاہم صوبے
میں پی ٹی آئی حکومت کے حالیہ سیاسی بیانات اور فیصلوں نے اس خطے کے عوام
کو ایک بار پھر اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے۔ جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے
امیر عنایت اللہ خان نے پریس کانفرنس کے دوران ان خدشات کو آواز دی، جس میں
انہوں نے حکومت کی جانب سے ترقیاتی فنڈز کی بندش اور منصوبوں کی معطلی کو
عوام کے حقوق پر حملہ قرار دیا۔
عنایت اللہ خان کے مطابق، خیبر پختونخوا کی سابق پی ٹی آئی حکومت اور اس
وقت کے وزیر اعلیٰ محمود خان نے ملاکنڈ ڈویژن کے مختلف اضلاع (سوات، شانگلہ،
دیر، بونیر، ملاکنڈ، چترال، اور باجوڑ) میں 42 ارب روپے سے زائد کے ترقیاتی
منصوبے منظور کرتے ہوئے ان کیلئے فنڈز بھی جاری کردئے تھے لیکن پی ٹی آئی
ہی کے موجودہ حکومت نے ان منصوبوں کو بند کرکے ان کےلئے جاری کردہ فنڈز روک
لئے ہیں ، یہ وہ منصوبے تھے جو علاقے کی تعمیر و ترقی کے لیے نہایت اہم تھے
اور عوام کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ضروری سمجھے جا رہے ہیں۔یہ
منصوبے نہ صرف بنیادی ڈھانچے کی ترقی، تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع
فراہم کرنے کے لیے تھے بلکہ یہ خطے کی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے ایک اہم
قدم تھے۔ تاہم، ان منصوبوں کی معطلی اور فنڈز کی بندش نے عوام کو بری طرح
مایوس کر دیا ہے۔عنایت اللہ خان نے پی ٹی آئی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے سخت
الفاظ میں کہا کہ ملاکنڈ ڈویژن کے عوام نے مسلسل تین انتخابات میں پی ٹی
آئی کو بھاری مینڈیٹ دیا، لیکن بدقسمتی سے اس بار کی پی ٹی آئی حکومت میں
عوامی توقعات پوری نہیں کی گئیں۔ انہوں نے مقامی پی ٹی آئی وزراء‘ اور
اراکین اسمبلی کے کردار کو بھی مایوس کن قرار دیا، جنہوں نے عوامی مسائل پر
خاموشی اختیار کئے رکھی ہے۔ یہاں تک کہ بلدیاتی نمائندوں کو ان کے جمہوری
حقوق سے بھی اپنے ہی حکومت میں محروم کیا گیا ہے، اور ان پر لاٹھی چارج کر
کے شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا یہ وہ عمل ہے جو کسی بھی جمہوری حکومت کے
لیے شرمناک قرار دیا جا سکتا ہے۔عنایت اللہ خان کے مطابق، ملاکنڈ ڈویژن کے
عوام کے ساتھ یہ رویہ متعصبانہ اور غیر منصفانہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ
ترقیاتی منصوبے بند کر کے عوام کے مینڈیٹ کی توہین کی گئی ہے، جو جمہوریت
کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔جماعت اسلامی کے رہنما نے دو ٹوک الفاظ میں
کہا کہ اگر حکومت نے ان منصوبوں کو بحال نہ کیا اور ان منصوبوں کیلئے فنڈز
ریلیز نہ کئے تو جماعت اسلامی اس کے خلاف بھرپور احتجاجی تحریک شروع کرے گی۔
انہوں نے آل پارٹیز کانفرنس بلانے اور دیگر سیاسی اقدامات کرنے کا بھی
عندیہ دیا تاکہ حکومت کو ان اقدامات پر مجبور کیا جا سکے۔ ملاکنڈ ڈویژن کے
عوام اس وقت بے یقینی کا شکار ہیں۔ وہ یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ آخر ان کے
ساتھ یہ ناانصافی کب تک جاری رہے گی؟ ترقیاتی منصوبے ان کے بہتر مستقبل کے
ضامن تھے جنہیں سیاسی چپقلش کی نذر کر دیا گیا ہے۔یہ صورتحال حکومت کے لئے
ایک بڑا چیلنج ہے۔ اگر حکومت عوامی مسائل کو نظرانداز کرتی رہی تو یہ سیاسی
طور پر نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ترقیاتی منصوبوں کی بحالی اور عوامی
اعتماد کی بحالی حکومت کے لئے نہایت ضروری ہے۔ملاکنڈ ڈویژن کے عوام، جنہوں
نے بار بار اپنے ووٹ کے ذریعے پی ٹی آئی پر اعتماد ظاہر کیا اب خود کو
دھوکہ خوردہ محسوس کر رہے ہیں۔ جماعت اسلامی کا احتجاج اور دیگر سیاسی
اقدامات حکومت کے لئے ایک اہم پیغام ہے کہ عوام کے حقوق کو مزید نظرانداز
نہیں کیا جا سکتا۔ ترقیاتی منصوبوں کی بحالی نہ صرف خطے کی ترقی کے لئے
ضروری ہے بلکہ یہ عوام کے اعتماد کو بحال کرنے کے لئے بھی لازمی ہے۔یہ وقت
ہے کہ حکومت اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرے اور عوامی مسائل کو ترجیحی
بنیادوں پر حل کرے، ورنہ سیاسی ماحول مزید کشیدہ ہو سکتا ہے۔ ملاکنڈ کے
عوام صرف وعدے نہیں بلکہ عملی اقدامات چاہتے ہیں، حکومت پر یہ بات بھی واضح
ہونی چاہئے کہ ملاکنڈ بشمول سوات کی عوام نے ہمیشہ تبدیلی کو ترجیح دی ہے
تین مرتبہ پی ٹی آئی کو ووٹ ان کی خوش قسمتی تھی جس میں سابق وزیر اعلیٰ
محمود خان کے اقدامات کو بھی عمل دخل حاصل تھا لیکن موجود حکومت نے اپنے ہی
سابق حکومت کے منصوبوں کو ترک کرکے اپنے لئے مشکلات پیدا کررہی ہے اور اگر
ترک شدہ منصوبوں کو فوری بحال کرکے ان کیلئے فنڈ ز کی فراہمی کو یقینی نہ
بنایا گیا تو آنے والے دور میں سیاسی عمل اور الیکشن کے دوران ان کیلئے اس
خطے کے لوگوں کا اعتماد حاصل کرنا مشکل ہوجائے گا۔
|