10 اکتوبر آدھی رات کو اچانک یہ
خبر چینلز کی سکرین پر نمودار ہوئی کہ پیپلز امن کمیٹی کو کالعدم قرار
دیدیا گیا ہے اور اس پر فی الفور پابندی لگا دی گئی ہے۔ رات کو خصوصی طور
پر وزارت داخلہ کے دفاتر کو کھلوا کر یہ انتہائی نیک اور ضروری کام کیا گیا۔
ذوالفقار مرزا جو کافی عرصہ سے بڑھکیں لگانے کا خوبصورت فریضہ سرانجام دے
رہے تھے، ابھی ان کے الفاظ فضاءمیں ہی زیر گردش تھے کہ ”پیپلز امن کمیٹی کو
فعال کیا جائے گا اور کوئی مائی کا لعل اس پر پابندی نہیں لگا سکتا“ کہ
سندھ حکومت کی ایڈوائس پر وفاقی حکومت نے ان پر پابندی کا اعلان کردیا۔
پیپلز امن کمیٹی کے تمام دفاتر پیپلز پارٹی کے لوگوں کے حوالے کردئے گئے
ہیں۔ حکومت کے مطابق چونکہ پیپلز امن کمیٹی والے کراچی کا امن و امان تباہ
کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اس لئے خدشہ تھا کہ وہ ذوالفقار مرزا کے کہنے پر
ایسا کرنے کی کوشش کریں گے۔ آج ذوالفقار مرزا کا سندھ اسمبلی سے استعفیٰ
بھی منظور کرلیا گیا اور کراچی سمیت سندھ کے بعض اہم شہروں میں ان کے خلاف
”مبینہ“ طور پر الطاف حسین اور اردو بولنے والوں کے خلاف نازیبا ریمارکس کے
رد عمل میں مظاہرے بھی کئے گئے جن میں ”مبینہ“ طور پر شائد اس سے بھی زیادہ
نازیبا کلمات استعمال کئے گئے۔ دوسری جانب لاڑکانہ میں ذوالفقار مرزا کے حق
میں ریلی نکالی گئی جس میں شامل اکثریت نوجوانوں پر مشتمل تھی۔ ذوالفقار
مرزا کے خلاف مظاہرین نے انتہائی شدید نعرے بازی کی، جگہ جگہ ان کے پتلے
جلائے گئے اور اشتعال انگیز تقاریر کی گئیں۔
ذوالفقار مرزا جو اتنا کچھ کرنے اور کہنے کے باوجود ابھی تک صدر زرداری کے
احسانات مانتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ اگلے الیکشن میں بلاول کو لیاری
سے لڑایا جائے گا، ان کو ایک بار پھر ”وقتی طور پر“ قربانی کا بکرا بنایا
جارہا ہے، یار لوگ اس بات پر یقین کرنے کو قطعی تیار و آمادہ نہیں کہ
ذوالفقار مرزا اتنی اونچی آواز میں صدر زرداری کی حکومت میں شامل اتحادی
جماعت یا اس کے قائد کے بارے میں بات کرسکتے ہیں یا کسی بھی قسم کے غلط یا
نازیبا ریمارکس دے سکتے ہیں، یقینا اس ساری صورتحال کے پیچھے کسی ”اور“ کا
ذہن رسا کام کررہا ہے۔ رحمان ملک کی وزارت داخلہ نے ایسا کام ”ڈال“ دیا ہے
جس کے پاکستان کی سیاست خصوصاً سندھ پر بہت گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ ابھی
تو یہ کام بظاہر ایم کیو ایم کو خوش کرنے کے لئے سرانجام دیا گیا ہے لیکن
مستقبل قریب یا بعید میں جب کبھی ایم کیو ایم کے گرد شکنجہ کسنے کا پروگرام
بنایا گیا تو کیا یہی چال اس پر نہیں چلی جاسکے گی؟ ذوالفقار مرزا کے
بیانات اور قرآن سر پر اٹھا کر پریس کانفرنس کے بعد بھی ایم کیو ایم کو
اصولاً واپس حکومت میں نہیں آنا چاہئے تھا لیکن اس کی بھی مجبوری ہے اور
حکومت کی بھی، اگر تمام حکومتوں کو یہ خوف دامن گیر رہتا ہے کہ ایم کیو ایم
کو حکومت میں شامل نہ کیا گیا تو کراچی کے حالات خراب ہونے کے خدشات موجودر
ہیں گے تو ایم کیو ایم پرایسی ہی پابندی کوئی زیادہ دور تو نہیں۔
پیپلز امن کمیٹی پر پابندی کے بعد سندھ میں ایک بار پھر واضح تقسیم نظر
آرہی ہے۔ شہری حلقوں میں، جہاں ایم کیو ایم سے بوجوہ وابستگی قدرے زیادہ ہے
وہاں ذوالفقار مرزا کے خلاف جبکہ لاڑکانہ میں ان کے حق میں مظاہرہ ہوا،
لاڑکانہ جوکہ پیپلز پارٹی کا گڑھ ہے، ذوالفقار مرزا سے حکومت کی لاتعلقی کے
باوجود صرف اسی شہر میں ان کے حق میں مظاہرہ کیا جانا بھی معنی خیز ہے جس
میں سمجھنے والوں کے لئے یقینا ایک پیغام ہے۔ کیا مستقبل میں ہم مزید
جماعتوں یا ان کی ذیلی تنظیموں پر پابندی لگتے دیکھیں گے؟ یہ وہ سوال ہے جو
آج بہت سے ذہنوں میں رہ رہ کر اٹھ رہا ہے۔ اگر ایسا ہی نقشہ ہوتا ہے تو پھر
کراچی میں امن و امان کی کیا صورتحال ہوگی؟یہ آگ جو سندھ میں جان بوجھ کر
لگائی جارہی ہے اس سے کس کس کے دامن میں شعلے بھڑکتے ہیں یہ تو آنیوالا وقت
ہی بتائے گا لیکن ایک بات جو اظہر من الشمس ہے وہ یہ ہے کہ وفاقی وزارت
داخلہ نے اس آگ کو بھڑکانے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے اور ذوالفقار
مرزا کے اس بیان میں کافی وزن محسوس ہورہا ہے کہ رحمان ملک سے زیادہ اس ملک
کو کسی اور سے خطرہ نہیں۔
”نیچاں دی اشنائی کولوں فیض کسے نئیں پایا
ککر تے انگور چڑھایا، ہر گچھا زخمایا“
سیالکوٹ کے قریب کے ایک گاﺅں کے پاس ایک وفاقی وزیر کی تصویر والے بڑے بڑے
بورڈ لگانے سے نہ تو کسی کی ”ذات“ بدلتی ہے نہ اس کے کرتوت اچھے ہوسکتے
ہیں، آرمی چیف اور چیف جسٹس کو اگر کبھی بڑے بڑے کاموں سے فرصت ملے تو اس
طرف بھی دیکھ لیں کہ اگر کراچی اور سندھ کو کوئی نقصان پہنچتا ہے تو
پاکستان کہاں کھڑا ہوگا، کیونکہ پاکستان ہے تو ”نوکریوں“ میں توسیع بھی ہے
اور بحالی بھی ورنہ (خاکم بدہن)کچھ بھی نہیں!
ایک تازہ ترین خبر کے مطابق رحمان ملک کو کراچی یونیورسٹی کی جانب سے
ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی جارہی ہے، یہ ایک اچانک فیصلہ ہے جس کی سنڈیکیٹ
سے منظوری بھی نہیں لی گئی۔ ”سادہ“ رحمان ملک ہی ”مان“ نہیں تھا، تو
”ڈاکٹر“ رحمان ملک کی تاب کون لاسکے گا؟ کیا حکومت میں ڈاکٹر فردوس عاشق
اعوان کم تھیں؟لیکن اسی خبر کا دوسرا حصہ اطمینان بخش ہے کہ اسی چکرمیں
محمد علی جناح یونیورسٹی کی جانب سے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی
اعزازی ڈگری کی بھی منظوری ہوگئی ہے حالانکہ ان کے لئے کئی ماہ پہلے گورنر
ہاﺅس کو خط بھیجا گیا تھا، اس کو کہتے ہیں کہ ہر برے کام میں سے کوئی نہ
کوئی اچھا پہلو بھی نکل آتا ہے۔ ویسے بھی اعزازی ڈگری دونوں شخصیات کا حق
بنتا تھا، ڈاکٹر قدیر صاحب کا اس لئے کہ انہوں نے پاکستان کو ایٹمی طاقت
بنایا اور اپنی طرف سے اس ملک کو ناقابل تسخیر بنا دیا، جبکہ ”ڈاکٹر“ رحمان
ملک کا اس لئے کہ موصوف نے ایٹمی قوت ہونے کے باوجود اس ملک میں امریکہ کی
جانب سے دہشت گردی کے فروغ میں اس کی بھرپور مدد کی۔ اللہ تعالیٰ کم از کم
ایک ”ڈاکٹر“ کی عمر دراز کرے اور اسے اپنے حفظ و امان میں رکھے دوسرے
”ڈاکٹر“ کے بارے میں ”سیانے“ بہت پہلے ہی کہہ چکے ہوئے ہیں
”ہائے اوبیڑھیے موتے، تو کِنّا ں کِنّا ں جوٹھاں نوں بھلی کھڑی ایں“ |