مزدلفہ کو روانگی
اب ہم پانچ افراد کا قافلہ جن میں تین خواتین، ایک وہیل چئیر اور بیگوں
سامان تھا جانب مزدلفہ پیدل روانہ ہوا، مگر نہیں! صرف ہم تھو ڑی تھے، ایک
لشکر تھا اﷲکے مہمانوں کا جو عجلت کے ساتھ عرفات چھوڑ رہا تھا۔پیدل ہی
نکلنے کا فیصلہ بہتر تھا کیونکہ بسیں تو ساکت اور جامد کھڑی تھیں مگر پیدل
چلنا بھی مشکل ہو رہا تھا ۔ وجہ؟رش!! ایک انبوہ کے اٹھ کر جانے کے بعد جو
مناظر ہوتے ہیں یہاں بھی موجود تھے اور ہماری رفتار کو منجمد کر رہے تھے۔
کیچڑ،پانی،بچے ہوئے کھانے کا ڈھیر، شاپرز، ریپرز، خالی بوتلیں، کپ،چمچے،
پلیٹیں ......حتٰی کہ کپڑے، جوتے تک! بوجھ اٹھا کر چلنے میں بہت دشواری تھی
!دراصل منٰی میں بیگ نہ چھوڑنے کی وجہ سے ہم اتنے بوجھل تھے۔ ان تمام لوگوں
کے مشورے یاد آرہے تھے جنہو ں نے سامان ہلکا رکھنے کو کہا تھا! ہم نے اسی
وقت ارادہ کیا کہ ہم تو اگلوں کو کچھ بھی نہ لے جانے کا مشورہ دیں گے ان کی
بہتری کے لیے !
کچھ دور چلے تو اپنے مکتب کی بس ملی مگر خراب تھی اور ٹھیک ہونے کا کوئی
امکان نظر نہ آرہا تھا۔ مزید آگے بڑھے تو بھری ہوئی بس نظر آئی جس کا
ڈرائیور چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا تھا ، لہٰذا اس میں سے لوگ اتر رہے تھے۔ہم
نے عین الیقین کے اطمینان کے سا تھ پیدل چلنے والے راستے کا انتخاب کیا اور
عرفات کی حدود سے باہر آکر جانب مزدلفہ ہوگئے۔ بورڈ پر لکھا تھا ’’مزدلفہ
۱۰ کلو میٹر‘‘! اس مو قع پر اپنے گروپ ممبر سے فون پررابطہ کیا تو انہوں نے
اطلاع دی کہ ہم مزدلفہ پہنچنے ہی والے ہیں! ہم ہکّا بکّا رہ گئے کیونکہ
ساری بسیں تو سامنے ہیں ؟ شاید کوئی بس کسی فرشتے کے ہاتھ لگی ہو کہ ان کو
اڑا کر پہنچا دے ! ہمیں ان کی خوش قسمتی پر رشک آیا ( یہ تو بعد میں پتہ
چلا کہ وہ اس فون کے چار پانچ گھنٹے بعد ہی پہنچے تھے)شکر ہے پہنچ گئے ورنہ
ساری رات سفر کرکے بھی نہ پہنچنے والوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہوتی ہے!
پا پیادہ سفر کا فیصلہ ہی مناسب تھا ۔ یہ ایک حسین منظر تھا جب لاکھوں
افراد تلبیہ پڑھتے ہوئے رواں دواں تھے۔ دنیا کی کوئی بھی میرا تھن اس کا
مقابلہ نہیں کرسکتی! اس وقت ہم حج کی اصل روح سے سرشار تھے۔
ہر ایک یا دو کلومیٹر کے بعد چٹائی بچھاکر تھوڑا آرام کرتے پھر فریش ہو کر
دوبارہ سفر شرو ع کر دیتے۔ نو بجے کے قریب جب مز دلفہ محض ۱.۱ کلو میٹر رہ
گیا تھا تو لوگوں کا ایک ریلا سا آیا جو ہمیں واپس جا نے کو کہہ رہا تھا ۔
مگر کیوں ؟ ہمیں تو اندر پہنچنا ہے!!ایک کشمکش تھی جس کے نتیجے میں صدیق
بھائی اور ان کی والدہ اور وہیل چئیر پر رکھا سامان ہم سے جدا ہوگئے۔ ہم
تینوں دھکم دھکی کا شکار ہوکر مزدلفہ کی حدود میں داخل ہوگئے۔جب آگے ایک
انچ سرکنے کی جگہ نہ ملی تو وہیں بیٹھ گئے۔ یہ ایک ابھری ہوئی سطح تھی!تھکن
نیند بن کر آنکھوں میں اتر رہی تھی مگر ؟؟ بھابھی پھر یاد آئیں،’’
............کیا خیال ہے ؟ آرام کرنے اور سونے کا موقع ہوگا؟ ارے بیٹھنے کی
جگہ مل جائے تو غنیمت سمجھنا!....... ‘‘کس قدر درست بات تھی کہ چٹائی
بچھانا تو کجا نکالنے تک کی گنجائش نہ تھی۔ بس کسی نہ کسی طر ح ٹک گئے۔ایک
ایک کرکے عملاً اشاروں میں ہی مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا کیں کہ رب
کائنات کا یہ ہی حکم ہے !
کیا حسین رات تھی ! آسمان پر دسویں تاریخ کا چاند بادلوں سے اٹھکیلیاں کر
رہا تھا ۔ہم ذرا ابھری ہوئی زمین پر تھے اورہمارے بالکل سا منے پہاڑوں کے
درمیان ریلوے اسٹیشن تھا جہاں سے مسلسل ٹرین کی آ مدورفت جاری تھی ۔پہاڑوں
پر لیٹے بیٹھے احرام میں ملبوس لو گ! لگ رہا تھا کہ ہر طرف سفید کھمبیاں
اگی ہوئی ہیں! اس تشبیہ پر معذرت، مگر ہمارے پاس الفاط نہیں ہیں کہ اس دلکش
رات کی منظرکشی کرسکیں! یہ رات تو ہرسال سجتی ہے زمین کے اس ٹکڑے پر! جس کی
خوبصورتی پر شاید ستارے بھی رشک کرتے ہیں ، لہذا چاند بھی چند کلومیٹر کے
رقبے میں لوگوں کو کنکریوں کی جگہ بچھا دیکھ کر زمین کی اس عزت افزائی پر
شرما گیا اور مسکراتا ہوا پہاڑوں کی دوسر ی طرف اوجھل ہوگیا-
پرکیف رات بھیگ چلی تھی اور آنکھیں نیند سے بوجھل تھیں۔ وہ جو سولی پر بھی
آجاتی ہے مگر یہاں تو پہلو بدلنا بھی ناممکن تھا۔ رات کے دو بج رہے تھے ۔ہم
نے چاہا کہ کسی طرح سولیں کہ سنت رسول ہے! اس کے لیے ضروری تھا کہ اپنے
ساتھیوں کو ہلا یا جائے مگر اس سے پہلے ہی ایک زبردست ریلا آیا کہ سونے وا
لے خودبخود ہڑبڑا کر اٹھ کھڑے ہوئے اگر نہ ہوتے تو یقیناً کچلے جاتے! شکر
ادا کیا کہ ہم جاگ رہے تھے ورنہ بھگدڑ میں مرنے والوں میں شامل ہوتے
۔بھاگنے اور بھگانے والے ہجوم میں کسی خاص قوم اور نسل کی تفریق نہ تھی۔ ہر
زبان اور حلیے کے لوگ بگٹٹ دوڑ رہے تھے!اچانک اتنے برانگیختہ ہونے کی وجہ؟
شیطان کو مارنے کا جنون ! مگر وہ تو طلوع آفتاب کے بعد کرنا ہے! ہم نے
آہستہ بھاگنے والے کچھ لوگوں کے سا منے سوال رکھا تو وہ جواب دینے سے قا صر
تھے۔ بس اپنے قائد کی تقلید! چہرے پر خوف کہ کہیں قافلے سے نہ بچھڑ جائیں!
معلو م یہ ہوا کہ مزدلفہ کے آخری کنارے پر جا کر بیٹھیں گے تاکہ صبح سویرے
کنکریاں مار سکیں ! کیا شاندار حکمت عملی ہے! اس چکر میں کوئی اپنی جان سے
جاتا ہے تو جائے ! کوئی اپنا عضو کھوتا ہے توکیا ہوا ؟ یہ ایجنڈا توشیطانی
سا لگ رہا ہے! اپنے ساتھیوں کو متوجہ کیا! ہم نے تو ابھی تک کنکریاں بھی
جمع نہیں کی ہیں ؟ اب لو گ اٹھ کر کھڑے ہوئے تو معلوم ہوا کہ یہ تو پکی سی
جگہ ہے ۔ یہاں تو نہیں مل سکے گی ۔ ذرا تشویش ہونے لگی تھی۔ خیر پانی کی
بوتل سے وضو کیا اور نماز فجر پڑھی ۔اس کے بعد وقوف کرنا ہے مگر اس طرح کہ
اپنے آپ کو بچانا ہے کیو نکہ دوڑنے کی ہلچل ہنوزجاری تھی! یہ وقوف یعنی
دعا، درود اور تلبیہیہ حج کے واجبات میں سے ہے اور جسے صبح صادق کے بعد
کرنا ہے! اس کام سے فارغ ہوئے تو کنکریوں کی تلاش میں ارد گرد نگاہ کی۔ہمار
ے بالکل قریب در بھنگہ (انڈیا ) کی ایک فیملی تھی جس میں ایک بارہ سالہ
پراعتماد سا بچہ بھی تھا۔اور کیوں نہ ہوتا ماشاء اﷲ پورا کنبہ موجود ہے!اور
نہایت اطمینان کے ساتھ صبح کے معمولات میں مشغول ! اب ذرا جگہ بنی تو ہم نے
اپنے سامان میں سے کھجوریں وغیرہ لوگوں میں تقسیم کردیں تاکہ بوجھ ہلکا ہو!
اور الحمدﷲ ہمیں کنکریوں سے بھری تھیلی بھی مل گئی۔ شا ید وقوف میں کی گئی
دعا کا فوری اثر ہوکیونکہ یہ قبولیت کا خاص وقت ہے!!
اب اجالا پھیل رہا تھا کیونکہ سورج طلوع ہوچکا تھا ،حاجیوں کے لیے انتہائی
مصروف شیڈول لیکر!جی ہاں ! ایک لمبی فہرست ہے آج کے کاموں کی ! آسانی کی
دعا تو ورد زبان بن ہی گئی ہے!ہمارا تو سانس لینا بھی رب کا محتاج ہے کجا
یہ طویل مشقت بھرا سفر ! وہ ہی کروائے گا سب ! سب سے پہلے تو مزدلفہ کی
حدود پر بچھڑنے والے گروپ سے را بطہ کرنا ہے کیونکہ ان کی وہیل چئیر کے
ہنڈل پر ہمارا بیگ لٹکا تھا۔ فکر سامان کی نہیں ہے بلکہ افسوس یہ ہے کہ ان
کو ڈھونڈنا پڑ رہا ہے۔چنانچہ رابط شروع کیا اور کئی فون کرنے کے بعد ہم
بالآخر ایک دوسرے کو پانے میں کامیاب ہو ہی گئے۔ خیال آیا کہ بقیہ لوگ بھی
اسی چند کلومیٹر میں موجود ہیں مگر ذرا جو ہماری خیر خبر لی ہو !(شیطان کو
کنکریاں مارنے جارہے ہیں تو وہ تو ضرور ایسی بدگمانیوں کے ذریعے ہماری راہ
کھوٹی کرنے کی کوشش کرے گا اور ایسا عملاً ہوا !) |