پھر قافلے چلے۔ سفرنامہ حج چوتھا حصہ

 یو م عرفہ
9 ذوالحج یوم عرفہ کے دن حاجی عرفات کے میدان میں وقوف کرتے ہیں جو حج کا رکن اعظم ہے! اس دن اﷲ اپنے مہمانوں کی لبیک پر ان سب کی بخشش فرما دیتا ہے جبھی تو شیطان اپنے سر پر خاک ملتا ہے !پو ری امت مسلمہ حاجیوں کی صداﺅں میں اپنی آواز ملا کر اس روحانیت کے سفر میں ان کے سا تھ ہوتی ہے! اور حاجی اس وقت کیا کررہے ہوتے ہیں ؟؟بسوں میں سوارعر فات کا رخ کر رہے ہوتے ہیں ، مگر کچھ (جن میں ہم بھی شامل تھے! ) سڑکوں پر گاڑی کے انتظار میں دوڑ رہے تھے اور اپنے اپنے ساتھیوں کی سستی پر ڈانٹ ڈپٹ کررہے تھے ۔جی ہاں ! خیمے سے باہر آنے میں دھکا پیل سے بچنے اور بس کے پیچھے بگٹٹ بھاگ کر چڑھنے پر ناکامی میں غصہ لازمی تھا !مگر مکتب 51کی بسیں تھیں کہاں؟؟وہ تو اس طرح ناپید تھیں جیسے کراچی میں ہنگاموں کے بعد پو لیس اور رینجرز!

اس بھاگ دوڑ میں 6 سے 9 بج چکے تھے۔ بھوک ،تھکن، خوف اور نہ جانے کیاکیا؟؟کچھ لوگ مطمئن تھے کہ بسیں دوسرا چکر کریں گی، مگر ہمارے سامنے کسی معلوماتی کتاب کا جملہ گھوم رہا تھا کہ دوسرے چکر والے عرفات پہنچ ہی نہیں سکتے بوجہ ٹریفک جام! لہذا ہم ایسا رسک لینے پر تیار نہ تھے۔فریش ہونے کے لیے اسٹاپ پر بنے خیموں کا رخ کیا تو اپنی بے سروسامانی کا احساس دوچند ہوگیا! وا ش رومز میں ہا تھ سکھانے تک کا انتظا م تھا! فائیواسٹارز سہولیات ! غالباً ترکی کا تھا! ہم ان میں مقیم افراد کی زیارت تو نہ کرسکے کہ خیمے خالی تھے ورنہ ضرور ان میں اور اپنے میں فرق دیکھتے! اپنے حکمرانوں کی شان میں قصیدہ پڑھا مگر یہ ہم ہی توہیں جو انکو تخت پر بٹھاتے ہیں !؟؟باہر آکر دوبارہ اسی مہم پر لگ گئے۔جی ہاں ! اب کھلے ٹرک پر سوار ہو کر جانے پرغور ہونے لگا تھا ہمیںا پنے کزن یاد آئے جو اسی طرح عرفات پہنچے تھے۔ ۰۰۱ ریال دے کر! کانوں میں بھابھی کا جملہ گونجا کہ اس دن تو دو دوسو ریال تک ما نگے جاتے ہیں !! ہم حیص بیص میں تھے اور پھر وہ ٹرک بھی بھر کر” گذر گئے“ ۔ بہت سے لوگ چھتوں میں سوار ہوکر جارہے تھے۔سناہے کہ اسی میدان میں حشر برپا ہوگا !! اسی کی ریہرسل لگ رہی تھی ۔ایک لڑکی آنکھوں میں آنسو پاﺅں میں پلاستر چڑھائے کھڑی تھی کہ شوہر بس میں چلا گیا اور وہ رہ گئی! (شاید بیوی کو چڑھاناچاہ رہا ہوگا کہ بس چل پڑی ہوگی)۔ہم تو ناحق اپنے گروپ کے چلے جانے پر دل گرفتہ تھے یہاں تو قیامت کی پریکٹس تھی!! نفسانفسی !!جبھی یہاں آنے والے ہر فرد کی بخشش لازمی ہے! یہ خیال ہمت کو بلند رکھتا ہے۔ کیا ہوا جو باقی افراد بچھڑ گئے ؟ ہم تین گھر والے ایک دوسرے کا ہا تھ پکڑے کھڑے تھے ۔اب ہم نے یہ طے کیا کہ کسی بھی مکتب کی بس میں چڑھ جائیں گے۔ اور پھر ہم مکتب 52 کی بس میں جگہ پانے میں کامیاب ہو ہی گئے ! اگرچہ منتظم سختی پر تلا ہوا تھا اورہمارے سا منے ہی کچھ لوگوں کو اتارا، جن میں ایک بزرگ خاتون بھی تھیں۔ ہم زبردستی چھپ چھپا کر بیٹھے تھے مگرپھر بھی اس نے پکڑلیا۔شا ید ہماری ڈھٹائی کے باعث اتارنہ سکا ! ہاں یہ ضرور کہا کہ آپ کے مکتب کا بندہ کہاں ہے اسے پکڑیں !! ہم اتنے بےوقوف تھو ڑی ہیں کہ اس کی تلاش لاحاصل میں اپنا وقوف خطرے میںڈالیں ؟ اﷲہی پکڑے گا !!

بس نے ہمیں جہاں اتارا ،وہاں سے پیدل چل کر اپنے گروپ کے خیمے تک پہنچے تو پونے بارہ ہوچکے تھے۔ہمارے سوا سب موجود تھے بلکہ بعض تو صبح سویرے ہی پہنچ گئے تھے اور چائے وغیرہ پی کر آرام کے بعد اب کھانے کے منتظر تھے ، تاکہ وقوف کرسکیں !! عرفات میں اپنے خیمے کو دیکھ کر ساری کلفت دور ہوگئی۔کھانا کھا کر نماز ظہر ادا کی اور پھر خیمے سے باہر آکر ریلنگ کے قریب کھڑے ہو کر خطبہ سننے لگے۔ ہم چونکہ بہت اونچائی پر تھے،لہذا صاف آواز آرہی تھی۔ مسجد نمرہ بہت دور مگر واضح نظر آرہی تھی جس کے اردگرد چاروں طرف، حد نگاہ گویا سفید چادر سی تنی ہوئی تھی! یہ اﷲکے مہمانوں کی پریڈ تھی جس کی سلامی وہ بڑے فخر سے لے رہا تھا اور فرشتے رشک سے ان بندوں کو دیکھ رہے تھے ! کھڑے کھڑے تھک گئے تو خیمے میں آکر بیٹھ کر دعا گو تھے! مانگنے والے اپنی دانست میں سب کچھ مانگ رہے تھے مگر پھر بھی وہ کاغذ کورا تھا جہا ں مطالبے لکھنے تھے کیونکہ اس کی وسعت جو انتہا کو پہنچی ہوئی تھی! گھر اورگھر والوں کی عافیت مانگتے تو ڈاکٹر عافیہ کی شکل سامنے آجاتی!

گھرکی برکت اور خوشحالی کی دعا خودبخود ملک اور قوم کے دائرے میں پھیل جاتی ! یہ تو لازم اور ملزوم ہیں ! ہم کتنے ہی باحیثیت کیوں نہ ہوں اگر قوم کا وقار نہ ہو توبے امان ہی ٹھہرتے ہیں! ڈرائیور سے لے کر شرطے آپ کے ساتھ جو سلوک روا رکھیں سہنا ہوگا !! قوم سے آگے دائرہ امت کا ہے!! اتنی بڑی تعداد اگر اﷲکے آگے ہا تھ پھیلائے ہوئے طلب کر رہی ہے تو کیوں نہیں عطا ہوتی امت کو سرخروئی؟ اس کا جواب بھی امام صاحب کے خطبے میں تھا! سود اﷲسے جنگ ہے! تو اس سے لڑائی کرکے خوشحالی سمیٹنے والے کو کہاں سے عزت نصیب ہوسکتی ہے؟؟ عربی گو سمجھ میں بہت نہیں آتی مگر مفہوم تو آہی جاتا ہے!!( عربی نہ جاننے کا دکھ یہاں ہر ہر مرحلے پر ہوا )

چھتری نکالی ، لگائی مگر استعمال کی اتنی نوبت ہی نہ آئی۔ موسم جو اتنا اچھا تھا ! ایک خوشگوار سا تاثر گویا کسی ہل اسٹیشن میں تفریح منا رہے ہو ں!! ایک لطیف سی رو نے سب کو گھیرا ہوا تھا! ایک احساس جو بھائی نے شئیر کیا کہ اتنے بڑے دربار میں کھڑے ہیں مگر طبیعت میں وہ کیفیت کیوں نہیں ؟ گھبراہٹ ! اپنے اعمال کی شرمندگیوغیرہ وغیرہ !! تو اس کا جواب یہ ہی سمجھ میں آیا کہ جب رحمتوں کی بارش ہو رہی ہو، اور کندھے پر پڑا گناہوں کا گٹھر نمک بن کر دھل رہا ہوتوطبیعت خودبخود لطیف ہوجاتی ہے ! بوجھ سے آزاد ! آ ج اتنے ہلکے ہوگئے ہو جتنے پیدائش کے دن تھے! یہ تھا اس کا اعلان ! مگر انسان کی بدقسمتی کہ اسی بوجھ کواٹھانے کو پھر تیار! نماز عصرادا کی اور اب غروب آفتاب کے بعد ہمیں اس منظر سے باہر نکلنا ہے ! نماز مغرب پڑھے بغیر کیونکہ رب کا یہ ہی حکم ہے!ہماری ساری عبادتیں ترے لیے ہیں ! تیرا حکم سرآنکھوں پر !جنت میں ہمیں یہ مقامات ضرور دکھایئے گا۔ نکلنے سے پہلے مچل کر دل نے دعا کی! شاید جنت بھی ایسی ہی ہوگی!!

اب ہم نے پھرتی کا مظاہرہ کیا اور سب سے آگے گیٹ سے با ہر آئے مگر بچھڑنا تو مقدر میں لکھا تھا ! چنانچہ ہم تینوں کے علاوہ دوسر ے لوگ اس گیٹ سے نکلے جہاں بسیںکھڑی تھیں۔ (ہم چونکہ بھٹکتے ہوئے آئے تھے لہٰذا لاعلم تھے افسوس کے سوا کیاہو سکتا تھا !)۔ صدیق بھائی اور والدہ بھی ہمارے ہمراہ تھیں کچھ دیر بس کے پیچھے بھاگنے کے بعد پیدل ہی چل کھڑے ہوئے۔کہاں ؟؟ جی ہاں ! اگلا پڑاﺅ مزدلفہ ہے! وہاں پھر حاضری لیں گے فرشتے!مگر نہیں !رب تو بہ نفس نفیس استقبال کرے گا ہمارا ! اس خیال نے رفتار تیز کردی تھی ہم سب کی!!

جاری ہے
Farhat Tahir
About the Author: Farhat Tahir Read More Articles by Farhat Tahir: 72 Articles with 74615 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.