قصہ ہماری کیمپنگ کا قسط اول (وقار کا سفرنامہ)

زندگی میں کچھ پل اپنے لیے بھی نکالنے چاہیے۔

سانگلہ ہل میں ہونے والی کیمپنگ کی روداد

21 جنوری کی بات ہے جب موبائل پر زکاء اللہ قادری صاحب کا میسج موصول ہوا کہ سانگلہ ہل میں CRC کے زیر اہتمام کیمپنگ ہو رہی ہے اوپن دعوت ہے اور میں بھی آ رہا ہوں۔ یہ میسج کی قرعہ اندازی میں نام نکلنے جیسا تھا، زندگی میں یہ دوسرا موقع اور بائیکر لائف میں پہلا موقع تھا جب خود خیمہ زن ہونے کا موقع ملنے والا تھا۔ میرے پاس خیمہ موجود نہیں تو اس کی تلاش شروع کی، قیمتیں چھ ہزار سے چالیس ہزار تک ملیں، پھر آٹو اور مینول کی ٹرم بھی سننے کو ملی ماہرین کے تبصرے، تجزیے، خدشات بھی سنے، قصہ مختصر ادھار میں خیمہ مل گیا (غریب کی آمدنی سے بھی چھوٹا) سلیپنگ بیگ لاہور سے منگوا یا (نکما ترین مٹیریل نکلا پھر کبھی اس پر تبصرہ ہوگا) دونوں چیزوں کے آجانے سے جیسے ہم کے ٹو سر کرنے کے قابل ہوگئے تھے لیکن ابھی عشق کے امتحان اور بھی تھے۔

25 جنوری کو سیماب بھائی سے رابطہ ہوا جناب دن کے 12 بجے بالکل تیار شیار تھے اور میں جامعہ میں اپنے کام میں مصروف۔ میں نےکہا کہ ہم تین بجے نکلیں گے آپ تیار ہیں تو تشریف لے جائیں میں اور انصر بھائی بعد میں آجائیں گے اس کے ساتھ ہی کال کٹ گئی۔ حیرت اس وقت ہوئی جب اڑھائی بجے کال آئی سیماب صاحب کی، کتھے او جناب۔ ابھی نکلنا ہے۔ میں کینال روڈ پر منتظر ہوں جلدی پہنچو۔ شاباش۔ ہمارے خیال میں موصوف سانگلہ ہل سدھار گئے ہیں وہ فیصل آباد میں ہی ہیں ابھی تک۔ ہم تینوں 3 بجے کینال روڈ پر ملے، ہیلمٹ کی انٹرکام ڈیوائس آپس میں اٹیچ کی اور سفر شروع۔ آگے سیماب صاحب، ان کے پیچھے انصر اور آخر میں ہم اور عشق کا گھوڑا۔ انٹرکام کی بدولت سیماب سے گپ شپ سارا راستہ ہوتی رہی اور سفر کا پتا بھی نہیں چلا اور ہم جا پہنچے ہل پارک سانگلہ ہل۔ ابھی لاہور کی ٹیم نہیں پہنچی تھی۔ سوچا کچھ کھا پی کے تازہ دم ہو لیا جائے، چکن تکہ اور دال فرائی سے شکم سیری کی اور ابھی چائے پی رہے تھے کہ زکاء اللہ صاحب کی کال آگئی کہ ہم پہنچ گئے ہیں۔

پارک میں پہنچے تو تمام لوگ خیمہ زن ہونے کے درپے تھے، اس وقت تک پہنچنے والے لوگوں میں سے سب سے آخر میں ہم نے اپنا خیمہ نصب کرنا شروع کیا۔ سیماب صاحب تو فل ایکسپرٹ نکلے، چھوٹے سے بیگ میں اچھا بھلا جمبو سائز کا خیمہ سمیٹے تھے، جس میں دس بارہ لوگ بآسانی بیٹھ سکتے تھے، اور باہر برآمدہ میں تین موٹرسائیکل بھی کور کیے جا سکتے تھے، میں خوشگوار حیرت سے اس ٹینٹ کی فٹنگ دیکھتا اور حسب ضرورت مدد کرتا رہا۔ خیمہ فٹ ہوا تو یہ تمام گروپ والوں سے بڑا ٹینٹ تھا، اس کے بعد باری آئی میرے والے خیمہ کی تو یہ باقی خیموں کا بچہ نکلا۔ طے پایا کہ میرے خیمہ میں ہیلمٹ اور بیگ رکھیں گے، بڑے میں سب آرام سے محو استراحت ہوجائیں گے۔ خیمہ زن ہونے کے بعد کچھ افراد اپنی جان پہچان والوں سے گپ شپ کرتے نظر آئے، میں اور انصر پہلی بار شامل ہوئے تھے تو ابھی تک یکسر الگ تھلگ تھے، کہیں فوٹو شوٹ ہو رہا تھا تو کہیں گپ شپ، کہیں خیمہ کے اندر قہقہے گونج رہے تھے اور کچھ ٹارچ جلا کے انتظامات کا جائز لے رہے تھے، کچھ گیلی لکڑیوں کو جلانے کی تگ و دو میں تھے، انٹرنیشنل بائیکر کراس روٹ کلب کے چیئرمین اور Discover Pakistan کے پروگرام D Bikers کے ہوسٹ مکرم خان ترین صاحب بھی دور جھیل کنارے کھڑے تمام معاملات پر گہری نظر رکھے ہوئے تھے۔ یہیں شاہ کوٹ کے سلمان منیر، سکھیکی کے فیضان علی اور ان کے بھائی سے ملاقات کی جو یوٹیوبر ہیں اور ٹھیٹ پنجابی میں ویلاگنگ کرتے ہیں the villager کے نام سے۔ اور شیخوپورہ کے مجاہد بشیر صاحب Mujahid Bashir سے بھی ملاقات ہوئی۔ ہم گیارہ لوگ کوئی آٹھ بجے کے قریب رات کے کھانے کیلئے سانگلہ ہل مین بازار کی طرف چل دیے، شنواری ہوٹل پر رات کا کھانا کھایا۔ یہ کھانا سانگلہ ہل کے رہائشی اور سلمان منیر کے دوست عمر اینڈ علی برادران کی طرف سے تھا۔ رات ساڑھے دس بجے واپس پہنچے تو آگ کا آلاؤ پورے جوبن پر تھا اور بائیکرز ارد گرد گول حلقہ بنائے مکرم خان ترین صاحب کی گفتگو سننے میں مگن تھے ہم بھی چپکے سے آگ کے الاؤ کے قریب ہوگئے تاکہ سردی دور کی جا سکے اور سینئر بائیکرز کی گفتگو سے استفادہ کیا جا سکے۔

سرد موسم، تاروں بھرے آسمان کے نیچے، سانگلہ ہل کی پہاڑی کے دامن میں جھیل کنارے کیمپوں کے جھرمٹ میں آگ کا الاؤ پورے جوبن پر تھا اور اس کی تمازت سے لطف اندوز ہوتے بائیکرز ایک حلقہ کی صورت گردا گرد کھڑے تھے، مرکز نگاہ جناب نوجوان بزرگ بائیکر مکرم ترین صاحب تھے جن کی اچھوتا انداز گفتگو اور نہایت شستہ لہجہ سب کو محظوظ کر رہا تھا۔ ہر کسی کو سوالات پوچھنے کی اجازت تھی اور ترین صاحب بہترین انداز میں ہر سوال کا جواب دے رہے تھے۔ زیادہ تر سوال انٹرنیشنل ٹور سے متعلقہ تھے، موٹرسائیکل کتنے سی سی ہونی چاہیے، کارنے کیسے بنتا؟ فیس کتنی ہوتی؟ پاکستان سے مدینہ پاک سفر نور کیسا رہا؟ مشکلات کیا کیا آئیں؟ اگلا ٹور کونسا ہے؟ بارڈر کراسنگ میں کیا کیا ضروری ہوتا، کن چیزوں سے بچنا چاہیے؟ آپ اتنے بزرگ ہیں لیکن تھکتے نہیں؟ کیا آپ کو کمر میں درد نہیں ہوتا؟ ساڈیاں دے وکھیاں دکھن لگ پیندیاں۔ کوئی ورزش دسو کہ تھکاوٹ نہ ہووے، بیویوں سے اجازت لینے کا طریقہ بتا دیں۔ کیا آپ کی ہوم منسٹری کوئی احتجاج نہیں کرتی جتنے آپ ٹور کرتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)
 

محمد قاسم وقار سیالوی
About the Author: محمد قاسم وقار سیالوی Read More Articles by محمد قاسم وقار سیالوی: 46 Articles with 12450 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.