قصہ ہماری پہلی کیمپنگ کا ۔۔۔۔ دوسری قسط (وقار کا سفرنامہ)

زندگی میں کچھ پل اپنے لیے بھی نکالنے چاہیے، سیکھنے کیلئے، جینے کیلئے، زندگی کا لطف اٹھانے کے لیے

سانگلہ ہل کیمپنگ کے دوران کیمپ فائر کے موقع پر تعارفی نشست

القصہ مختصر بات سے بات نکلتی رہی، سوالوں سے سوال جنم لیتے رہے، اسی دوران ایک صاحب ابلے انڈے لیکر آ پہنچے، سب کو ایک ایک انڈہ کھانے کیلئے پیش کیا گیا۔ ساتھ ہی چائے کا ایک ایک کپ۔ ایک اور صاحب مٹھائی کی ٹوکری لے آئے خوش گپیوں میں ان چیزوں نے کیمپنگ کا لطف دوبالا بلکہ سہ بالا کر دیا۔ (میں بھی مونگ پھلی لیکر گیا تھا لیکن باتیں اتنی مفید، عمدہ اور فرحت بخش تھیں کہ یاد ہی نہیں رہا ورنہ کچھ مہمان نوازی کی سعادت مل جاتی)

چائے کے کپ ، پتیلی، چائے کا سامان ہمراہ تھا لیکن پکانے کا موقع نہیں ملا۔ کیونکہ رات دس بجے پہلے شروع ہونے والی گپ شپ اور تعارفی نشست رات تین بجے کے آس پاس اختتام پذیر ہوئی جب مکرم ترین صاحب نے کہا کہ ساتھیو کچھ دیر آرام کرنا چاہیے تا کہ صبح تازہ دم اٹھیں۔ یوں مجلس برخاست ہوئی تب تک آگ نے بھی بھڑکنا بند کر دیا تھا اور کوئلے سلگ رہے تھے۔

کیمپ میں پہنچا تو وہ افراد سے نک و نک تھا۔ کچھ سو چکے تھے کچھ سونے کی تیاری میں تھے۔ مزید دو افراد بآسانی فٹ آ سکتے تھے لیکن میں نے سوچا کہ اپنے کیمپ کا تجربہ کرنا چاہیے ۔ اپنا سلیپنگ بیگ اٹھایا اور ننھے منھے سے کیمپ کا رخ کیا جو اب تک سٹور روم کا منظر پیش کر رہا تھا۔ کیمپ کے اوپر وینٹی لیشن کیلئے جالی لگی ہوتی اس کے اوپر ایک چھوٹا سا کور دیا جاتا ہے تاکہ اوس اندر نہ پہنچے، وہ کور اتارا تھا تو واپس لگانا یاد نہیں رہا۔ جب بستر لیکر خیمہ میں پہنچا، بیگ، ہیلمٹ سجے کھبے کرکے لیٹنے کی جگہ بنائی تو تراہ نکل گیا کیونکہ خیمہ باہر سے مکمل گیلا تھا اوس کی وجہ سے اور ٹاپ کھلا ہونے کی بدولت اندر سے بھی مکمل فریزر بن چکا تھا۔ میرے پاس نیچے بچھانے کیلئے میٹ بھی نہیں تھا۔ مرتا کیا نہ کرتا اسی ٹھنڈ ماحول میں اپنا سلیپنگ بیگ جو آج ہی لاہور سے آن لائن خریداری کے بعد پہنچا تھا اور میرا سلیپنگ بیگ میں سونے کا تجربہ بھی پہلا تھا اس کو کھولا، زپ کھولی اور گھس گیا سفری بستر میں۔

ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں کے مصداق کشمکش شروع ہوئی، پہلا مسئلہ یہ کہ اس کی زپ بہت ہلکی قسم کی تھی یا شاید ہوتی ہی ایسے ہے اوپر تک بند کی جیسے ہی ہلکی سی کروٹ لی بیگ کی زپ کھلتی چلی گئی۔ اور ایک یخ بستہ ہوا کے جھونکے نے دس پتا دیا۔ زپ واپس بند کی کچھ دیر سیدھا لیٹا رہا پھر کروٹ بدلنا چاہی تو زپ پھر سے کھل گئی جیسے اس کو زیادہ گرمی لگ رہی تھی۔ اگر غلطی سے ہاتھ خیمہ کو لگتا تو وہ سارا اوس کی بدولت بھیگا ہوا تھا۔ اندر گنجائش اتنی تھی کہ بندہ صرف بیٹھ سکتا وہ بھی ذرا جھک کے ورنہ سر اوپر چھت کو لگتا۔

ہنڑ آیا مزہ کیمپنگ کا؟ اندر سے آواز آئی، میں نے بھی جھنجلاہٹ میں جل بھن کے جواب دیا آہو بہت زیادہ۔۔۔۔۔ 🤣۔ ہنڑ فیر نام لویں گا کیمپنگ دا؟ ہاں جی بالکل؟ ہم کہاں ہار ماننے والے تھے، اگر مشکلات اور حالات سے گھبرا گئے تو پھر کاہی کی کیمپنگ اور سیر و سیاحت؟ نہیں معلوم کس وقت آنکھ لگ گئی۔ بمشکل ڈیڑھ گھنٹہ آنکھ لگی ہوگی کہ اچانک گھبراہٹ کی بدولت آنکھ کھل گئی۔ کروٹ بدلی تو چرررر کی آواز سے سلیپنگ بیگ کے اندرونی کپڑے کی سلائی ادھڑ گئی اور اگلی سانس میں کچھ روئی بھی منہ میں آ پہنچی۔ آخ تیرے کی۔۔۔۔۔۔۔۔ سیدھا ہوا تو بیگ کی زپ شوں کرکے کھل گئی۔ گھبراہٹ تھی کہ بڑھ رہی تھی، کیمپ کی نمی اندر تک موجود تھی لیکن سانس لینے میں دشواری محسوس ہوئی۔ فٹافٹ کیمپ کے دروازہ کی زپ کھولی، جرابیں پہلے سے پہنی ہوئی تھیں تو بوٹ پہنے، زپ واپس بند کی اور پانی کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ اسی اثناء میں پارک کے گیٹ پر واقع مسجد کے لاؤڈ اسپیکر پر موذن نے فجر کی آذان پڑھنا شروع کی۔ دیکھا تو انصر بھائی بھی واش روم سے باہر نکل رہے تھے، قریب ہی واقع نلکے تک پہنچا۔ پانی پیا تو اوسان بحال ہوئے۔ اللہ توبہ کی واپس خیمہ میں آگیا۔

بستر صاحب تو اب اندر سے کھل چکے تھے، پولیسٹر بھی ریجکشن والے کپٹروں سے بنا تھا یا شاید پرانت زمانے میں غالیچہ والی روئی ہوتی تھی کوئی اس ٹائپ کی سیاہ اور بھورے رنگ کی روئی ٹائپ تھی کوئی چیز۔ کچھ دیر دم سادھے لیٹا رہا، ادھر سورج آہستہ آہستہ نکلنے کو بے قرار تھا تو کیا سونا انصر صاحب کی آواز آئی چلیں ہائیلنگ کو؟ جواب دیا چلو۔ تو ہم دونوں وہاں سے پہاڑ کی سمت چل دیے، پختہ سیڑھیاں بنی ہیں ٹاپ تک جانے کیلئے تو بس چلتے گئے، سانس پھول رہی تھی کچھ سستایا پھر چڑھائی شروع۔ دو تیک ریسٹ مارنے کے بعد اوپر جا پہنچے۔ ابھرتے سورج کا منظر دلنشیں تھا، ٹھنڈی ہوا طبیعت کو فریش کر گئی۔

واپس آئے تو کافی سارے خیمے سمیٹے جا چکے تھے، ایک دیگچے میں گنے کے رس سے بنی کھیر اور دوسرے میں تازہ دہی موجود تھا۔ ایک پلیٹ میں دونوں چیزیں ڈال کر چمچ کے ہمراہ سب کو کھانے کیلئے دی جا رہی تھی۔ پریشان نہ ہوں مسافروں کی ڈشیں ایسی ہی ہوتی ہیں لیکن حقیقت بات ہے کہ سواد آگیا بادشاہو۔ دوسری طرف کڑاہی چولہے پر چڑھائی جا چکی تھی اور تازہ پوڑیاں بنانے کا عمل شروع کر دیا گیا، فرشی دستر خوان بچھا جو خیموں کے میٹ بچھا کر بنایا گیا تھا، بس پھر ناشتہ کیلئے ایک ہی صف میں بیٹھ گئے محمود و ایاز۔۔۔۔۔۔۔ حلوہ، پوڑی، چنے اور اچار۔ ہم ٹھہرے خشک روٹی کھانے والے لیکن پھر بھی دو تین پوڑیوں پر ہاتھ صاف کر ہی دیے، بعد از ناشتہ سب لوگوں نے ایک دوسرے کو الوداع کہا۔ ترین صاحب کا گروپ قریب ہی پہلوانوں کے اکھاڑہ کے دورہ کیلئے روانہ ہوگیا، ہم اپنے خیمے کھولنے میں مصروف ہوگئے، کیونکہ میدان میں صرف ہمارے ہی دو خیمے پیچھے موجود تھے۔ (جاری ہے)
 

محمد قاسم وقار سیالوی
About the Author: محمد قاسم وقار سیالوی Read More Articles by محمد قاسم وقار سیالوی: 50 Articles with 12730 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.