1600ءمیں انگریز تاجر کی حیثیت
سے ہندوستان آئے۔ تجارتی کوٹھیاں قائم کیں۔ اس وقت مغل سلطنت کے منصفانہ
نظام حکومت سے ملک کی فضا خوش گوار تھی، رعایا خوش حال تھی، مدارس و دانش
گاہوں میں علم و فن کے جام لٹائے جا رہے تھے، خانقاہیں آباد تھیں، دل کی
دنیا شاد تھی، انصاف ودیانت کا بول بالا تھا۔ جس سے ملک میں بسنے والے
دوسرے مذاہب کے لوگ بھی امن و شانتی کی فضا میں سُکھ و چَین کی زندگی بسر
کر رہے تھے۔ ہندوستان کا یہ پر امن ماحول اور خوش حالی انگریز جیسی فتنہ
پرور قوم سے دیکھی نہ گئی اور اس نے سازشوں کے جال بننے شروع کیے۔ اس نے
مغل سلطنت کو کم زور کیا۔ غدار تیار کیے۔ مسلمانوں میں فرقہ بندیاں کیں۔
انگریز کی یہ چالیں ایک طرف ملک کے لیے خطرناک تھیں اور دوسری طرف مسلمانوں
کی مذہبی شناخت کو بھی خطرہ تھا۔ حالات کی ستم ظریفی کہ انگریز کو ایسے
افراد مل گئے جن کی مدد سے اس نے ملک کو پے در پے نقصانات سے دوچار کیا اور
کم زور کر کے رکھ دیا۔ مغل سلطنت روز بروز زوال پذیر ہوتی گئی۔ علامہ فضل
حق خیرآبادی (وصال در انڈمان20اگست1861ئ) نے ایسے ناگفتہ بہ حالات میں جرات
سے کام لیا۔ ان کی مسلّم شخصیت اور اثر و رسوخ نے پہلے ہی دلوں میں جگہ بنا
لی تھی۔ حالات کے تئیں ایک فتویٰ جہاد مرتب کیا اور علمائے دہلی کی تصدیقات
کے ساتھ دہلی کی جامع مسجد میں وہ فتویٰ جاری کیا۔ جس کے نتیجے میں ایک
انقلاب برپا ہوا۔ انگریز کے خلاف جذبہ حریت بیدار ہوا۔ ذہن و فکر کو راہ
ملی کہ انگریز ملک کے ہی نہیں ایمان و عقیدے کے بھی دشمن ہیں، ان کی یہی
چال رہی کہ مسلمانوں کو اس قابل نہ رکھا جائے کہ وہ دوبارہ حکومت حاصل کر
سکیں، اسی لیے ان کا خاص نشانہ مسلمان اور عام نشانہ ہندوستانی رہے۔ علامہ
خیرآبادی کے فتویٰ اور تحریک کے نتیجے میں صرف دہلی میں90000سپاہ جمع ہو
گئی۔ اور انگریز کے خلاف جذبہ حریت بیدار ہوا۔
2011ءمیں علامہ فضل حق خیرآبادی کے وصال کو 150سال پورے ہوئے۔ اس مناسبت سے
آپ کی یاد میں ڈیڑھ سو سالہ یادگاری تقاریب کا انعقاد و اہتمام قومی و دینی
تقاضا ہے۔ اس سے جہاں ہندوستانی مسلمانوں کی نسل نو کو اپنی زریں تاریخ سے
آگہی و واقفیت حاصل ہو گی وہیں اسلام کی ایک نابغہ روزگار شخصیت کا تعارف
بھی ابھر کرسامنے آئے گا۔ زندہ قومیں اپنے تاریخی ورثے کی حفاظت کرتی ہیں،
ہم ایک زندہ قوم کی حیثیت سے اپنی روشن و تابندہ تاریخ رکھتے ہیں، ماضی کی
شان دار قربانیاں رکھتے ہیں اور وطن عزیز کے لیے مر مٹنے کی جو روایت قوم
مسلم نے قائم کی ہے اس کی نمایاں مثال ہیں علامہ فضل حق خیرآبادی۔ ہمیں
چاہیے کہ اپنے قائد و رہنما علامہ فضل حق خیرآبادی کی دینی و علمی، سیاسی و
اعتقادی خدمات پر مختلف انداز میں کام انجام دے کر اپنے قابل فخر ورثے کا
تحفظ کریں۔ |