پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ
قیادت نے ق لیگ سے وابستہ سیاسی رہنماﺅں اور کارکنوں کی مسلم لیگ ن میں
شمولیت کا گرین سگنل دیدیا ہے۔ ن لیگ نے چودھری برادران کے سوا پرویز مشرف
کا ساتھ دینے والے مسلم لیگ ق کے تمام رہنماﺅں کو معاف کرنے کا ”اصولی
فیصلہ“ کرلیا ہے تاہم ان کی نواز لیگ میں واپسی کیس ٹو کیس جائزے کے بعد ہی
ممکن ہوسکے گی۔ جبکہ چودھری برادران کے حوالے سے طے کیا گیا ہے کہ اگر وہ
ڈکٹیٹر کا ساتھ دینے پر شرمندگی کے اظہار کے لیے رائے ونڈ آئیں تو ان کی
پارٹی میں شمولیت پر غور ہوسکتا ہے۔ اس سلسلے میں قائد لیگ کے متعدد ارکان
اسمبلی نواز لیگ میں شمولیت کے حوالے سے پارٹی قیادت کے ساتھ مسلسل رابطوں
میں ہیں تاہم 18 ویں ترمیم کے سبب وہ فی الحال ن لیگ کو باقاعدہ جوائن کرنے
کی پوزیشن میں نہیں ہیں،کیونکہ مذکورہ ترمیم کے تحت ”ق“ لیگ کے ٹکٹ پر
منتخب ہونے والے ان ارکان کو دوسری پارٹی میں شامل ہونے کے لیے اپنی اسمبلی
رکنیت سے استعفاءدینا پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ”ق“ لیگ کے متذکرہ ارکان آیندہ
عام انتخابات اور موجودہ اسمبلی کی مدت کی تکمیل یا خاتمے کا انتظار کررہے
ہیں۔
اُدھر عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کی جانب سے ن لیگ کو دوبارہ جوائن
کرنے کی اطلاعات بھی گردش کررہی ہیں۔ اس حوالے سے جب ایک صحافی نے ان سے
سوال کیا تو شیخ صاحب نے ”سیاست میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔“ کہہ کر یہ سگنل
دیدیا ہے کہ ان کی اپنی سابقہ پارٹی میں دوبارہ واپسی ناممکنات میں سے
نہیں۔ مسلم لیگ ن اور ”ق“ لیگ کے ہم خیال گروپ کے رابطے جاری ہیں جن میں
سلیم سیف اللہ، ہمایوں اختر، خورشید قصوری اور ایس ایم ظفر بنیادی کردار
ادا کررہے ہیں۔ الیکشن قریب آنے کی خبروں کے ساتھ ہی سیاسی جماعتوں کی
سیاسی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ جبکہ خود نواز لیگ کی جانب
سے بھی ”ق“ لیگ کے کئی رہنماﺅں سے رابطے کی کوشش کی گئی ہے جس کے بعد یہ
توقع کی جارہی ہے کہ آیندہ عام انتخابات تک مسلم لیگ ق کا حجم مزید سکڑ
جائے گا۔
پاکستان کی انتخابی سیاست عمومی طور پر حلقوں کی سیاست کے گرد ہی گھومتی
نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میاں نواز شریف کی سیاسی حکمت عملی یہ ہے کہ
انتخابی حلقے رکھنے والے مضبوط امیدوار دوبارہ ”ن“ لیگ جوائن کرلیں تاکہ
تحریک انصاف اور ”ق“ لیگ کے خطرے سے جان چھوٹ جائے اور وہ کھل کر
پیپلزپارٹی کا مقابلہ کرسکیں۔ آیندہ عام انتخابات میں اب ویسے بھی 18 ماہ
ہی رہ گئے ہیں یوں کہا جاسکتا ہے کہ تمام سیاسی پارٹیوں نے ابھی سے میدان
میں اترنے کی تیاریاں شروع کرلی ہیں۔ اب تک نواز شریف ”ق“ لیگی ارکان کو
واپس لینے سے انکار کرتے رہے کہ یہ لوگ 12 اکتوبر 1999ءکوان کی منتخب حکومت
کا تختہ الٹنے کے بعد فوجی آمر کے ساتھ مل گئے جسے لیگی قیادت بدترین بے
وفائی اور غداری سے تعبیر کرتی رہی۔ نواز لیگ نے سیاسی تنہائی ختم کرنے کے
لیے پارٹی کے منحرف ارکان کے لیے اپنے دروازے کھول دیے ہیں۔ اس حوالے سے
سینیٹر طارق عظیم کی بھی نواز شریف سے ملاقات ہوئی ہے جس میں انہوں نے میاں
صاحب کو اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا۔ اس بارے میں مسلم لیگ ن کے سیکرٹری
اطلاعات مشاہد اللہ خان کا کہنا ہے کہ ”ق“لیگ کے رہنماﺅں کو پارٹی میں قبول
کرنا کوئی نئی خبر نہیں، کیونکہ کافی عرصہ قبل لندن میں منعقدہ سینٹرل
ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں یہ اصولی فیصلہ کرلیا گیا تھا کہ ”ق“ لیگ کے جو
لوگ چودھری برادران کی طرح پارٹی کو نقصان پہنچانے کے عمل میں براہ راست
شریک نہیں ہیں، انہیں معافی دے کر قبول کیا جاسکتا ہے اور اب تک ”ق“ لیگ کے
متعدد رہنما پارٹی میں شامل ہوچکے ہیں۔
طاقت ور ضامنوں کے کرائے گئے معاہدے کے مطابق کہا جاتا ہے کہ آیندہ میاں
نواز شریف کی پارٹی مسلم لیگ ن ہی برسراقتدار آئے گی اور ہمارے سیاست دان
حکومت کے بغیر رہ بھی نہیں سکتے، اسی لیے یہ لوگ اب اقتدار کے حصول او
ربندر بانٹ کے لیے پھر آپس میں مل رہے ہیں۔ نواز شریف کے اس فیصلے سے حکومت
براہ راست متاثر ہوگی،کیونکہ ق لیگ بہر حال حکومت کا حصہ ہے۔ اس کے ارکان
منحرف ہوں گے تو پی پی ڈسٹرب ہوگی۔ اگرچہ اس حوالے سے ن لیگ میں اختلافات
سامنے آئے ہیں، چودھری نثار، حنیف عباسی، شکیل اعوان اور کچھ دیگر ن لیگی
رہنما ”ق“ لیگ کے کارکنوں کو واپس قبول کرنے کے حق میں نہیں لیکن فی الوقت
کوئی بھی اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ پارٹی چھوڑ کر چلاجائے۔ ایسی صورت حال
بھی نہیں جس سے ن لیگ کو نقصان ہو یاوہ متاثر ہوجائے۔
دوسری جانب ”ق“ لیگ کے صدر چودھری شجاعت حسین نے لوٹا کریسی کا نیا ”بازار
مصر“ کھولنے کے نواز لیگ کے اقدام کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ جمہوریت کے
نام نہاد دعویدار ایک بار پھر اپنے حقیقی روپ میں سامنے آگئے ہیں۔ میاں
نواز شریف کی طرف سے مسلم لیگ ق کے ارکان کے لیے معافی کے مبینہ اعلان پر
تبصرہ کرتے ہوئے چودھری شجاعت حسین نے کہا کہ مسلم لیگی ارکان کوئی جنگی
قیدی نہیں جن کے لیے معافی کااعلان کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ درحقیقت یہ
سب کچھ میاں نواز شریف کے تکبر کا اظہار ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس نے پارٹی
تبدیل کرنی ہے وہ استعفاءدے کر شوق سے جہاں جانا چاہے چلا جائے۔ ادھر ق لیگ
کے رہنما چودھری پرویز الٰہی نے بھی ن لیگ کو سینیٹ انتخابات تک انتظار
کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے نواز شریف کے معافی کے اعلان پر برہمی کا اظہار
کیا ہے۔ چودھری پرویز الہٰی کا کہنا تھا کہ ن لیگ کے لوگ مسخرے پن اور غیر
سنجیدگی میں وقت ضائع کررہے ہیں۔
میاں نواز شریف نے ق لیگی رہنماﺅں اور کارکنوں کو پارٹی میں دوبارہ قبول
کرنے کا اعلان کرکے چودھری برادران کی سیاست کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی
ہے۔ اب نظریہ آرہا ہے کہ ساتھیوں کے ساتھ چھوڑنے کے بعد چودھری برادران
سیاسی تنہائی کا شکار ہوجائیں گے۔ ہوسکتا ہے مستقبل قریب میں چودھری
برادران بھی ن لیگ میں دوبارہ شمولیت کے لیے رائے ونڈ کا طواف کرتے نظر
آئیں کیونکہ پاکستان کی سیاست میں کچھ بھی ہونا ناممکن نہیں۔
نواز لیگ نے پی پی کو ٹف ٹائم دینے کے لیے یہ سارا گیم پلان بنایا ہے تاکہ
پیپلزپارٹی کا کھل کر مقابلہ کیا جاسکے۔ یہی وجہ ہے اب ن لیگ کھل کر حکومت
کے خلاف میدان عمل میں اتر آئی ہے۔ دوسری جانب صدر آصف علی زرداری کی کوشش
یہ ہے کہ سینیٹ کے انتخابات تک ”ق لیگ“ اور ایم کیو ایم کا ساتھ نہ چھوٹے
تاکہ اتحادیوں کے سہارے ایوان بالا میں اکثریت حاصل کرسکیں۔ ویسے صدر آصف
علی زرداری نے گزشتہ ساڑھے تین برسوں میں اپنی بہترین سیاسی حکمت عملی کے
ذریعے مخالفین کی ہر چال ان پر لوٹادی ہے۔ یہ پی پی کے شریک چیئرمین کی
سیاسی بصیرت کا ثبوت ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پیپلزپارٹی نواز زلیگ کی اس
سیاسی حکمت عملی کا مقابلہ کیسے کرتی ہے اور اس میدان میں کون سی جماعت
بازی جیتے گی ۔ |