امریکہ کی بدبختی کا بڑا ثبوت
اور کیا ہوسکتا ہے کہ ایک طرف وائٹ ہاوس کے ریٹائرڈ ہوجانے والے ڈریکولائی
ڈان بش اور موجودہ صدر باراک اوبامہ کے جنگی جنون نے امریکہ کو 10 سالوں
بعد معاشی سونامی کی بھپری ہوئی لہروں کے رحم و کرم پر ان پہنچایا تو دوسری
طرف کابل میں امریکی اتحادی ناٹو شکست کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ اوبامہ
ایڈمنسٹریشن کی جھلاہٹ افسردگی مایوسی اور نراسیت کا یہ عالم ہے کہ امریکی
ترجمان وزرا اور سراغ رساں ایجنسیوں کے فرزانے توروزانہ من انم کہ من دانم
کی تصویر بنے ایک ہی موضوع پر متضاد بیانات جھاڑتے رہتے ہیں۔ اوبامہ سے
لیکر cia کے سربراہ تک فارن منسٹر ہیلری کلنٹن سے لیکر پینٹاگون تک کے
فوجیوں اور جرنیلوں کے ازہان و قلوب پر حقانی نیٹ ورک کی دہشت چھائی ہوئی
ہے۔ امریکی وزیرخارجہ ہیلری نے فرنچ نیوز ایجنسی کو بتایا کہ امریکہ قیام
امن کے لئے حقانی نیٹ ورک سمیت تمام عسکری تنظیموں سے بات چیت کرنے کے لئے
تیار ہے مگر شدت پسندوں کے خلاف معرکہ آرائی جاری رہے گی۔ امریکہ حقانی
گروپ کے جانثاروں کی ہلاکتوں یا انکی گرفتاری کے لئے بیقرار و بے چین ہے۔
ہیلری کلنٹن کے فرسودہ بیانات سے یہ سچائی تو اموختہ ہوتی ہے کہ امریکہ
افغانستان اور پاکستان دونوں کے متعلق الجھن کا شکار ہے جو امریکہ کی ناکام
پالیسیوں کی ائینہ دارہے۔ ہیلری ایک طرف حقانی گروپ سے مذاکرات کا اعلان
کرتی ہیں دوسری طرف اگلے سانس میں حقانی گروہ کے وجود کے خاتمے کا گیت
سنانے لگتی ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ امریکہ کی حقانی نیٹ ورک کے متعلق کیا
پالیسی ہے۔ وائٹ ہاؤس حقانی لشکر سے ڈائیلاگ کرنا چاہتا ہے یا انہیں بارود
کے ڈھیر میں دفن کرنے کا خواہاں ہے؟ امریکہ نے اگر طاقت کے بل پر حقانی
ملیشیا کو ختم کرنے کی حماقت کی تو پھر خطے میں پائیدار امن کا خواب کبھی
شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ امریکہ نے حقانیوں کے ساتھ وہی رویہ اپنانے کی
ٹھان رکھی ہے جو پچھلے 10سالوں سے پاکستان کے ساتھ روا رکھا گیا یعنی
امریکی احکامات کو بلاچوں چراں اور من و عن تسلیم کیا جائے۔ امریکی حکام نے
پاکستان کے ساتھ دوہرا اور منافقانہ طرز عمل اپنا رکھا ہے۔ایک طرف کہا جاتا
ہے کہ پاکستان کے بغیر کوئی گزارہ نہیں مگر دوسری جانب پاکستان کو تنقید
الزامات اور تکرار کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پاکستان پر بلاجواز پابندیاں
عائد کی جاتی ہیں بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو نظر انداز کیا جاتا ہے
جسکا واضح ثبوت لیون پینٹا نے واشنگٹن میں ہونے والے سیمینار میں دیا کہ
اسلام آباد اچھا اتحادی ہے فاٹا میں القاعدہ کو راندہ درگاہ بنانے کے لئے
پاکستان نے امریکہ کا بھرپورساتھ دیا جو اب بھی جاری ہے مگر حقانی نیٹ ورک
کے اسلام آباد میں isi کے ساتھ روابط موجود ہیں جنکی وجہ سے پاک امریکہ
تعلقات میں اختلافات کا یوٹرن آیا۔اب یہاں چند چھبتے سوالات پیدا ہوتے ہیں
کہ جب پاکستان کی خدمات کا اعتراف کیا جارہا ہے تو تب پاکستان پر ناروا
پابندیوں کا کیا جواز ہے؟ امریکی ڈو مور کا مطالبہ کیوں کرتے ہیں اور
پاکستان کو ملنے والی امداد کو کیوں معطل کیا گیا؟ ڈرون حملوں کا قہر
برسانے کا کیا جواز ہے؟ ۔امریکی ان سوالات کا جواب دینے سے قاصر ہیں اور نہ
ہی انہیں ایسی فضول دانش سے غرض ہے۔ اسی تناظر میں لیون پینٹا نے کہا کہ
شمالی وزیرستان میں ڈرون حملوں کا سلسلہ جاری رہے گا وزیردفاع نے جس روز یہ
بیان دیا اسکے اگلے دن شمالی وزیرستان میں ڈرون حملوں کی بھرمار ہوئی اور
ایسی یلغار جاری و ساری ہے۔امریکہ نے پاکستان کی سرحدی خلاف ورزی کو معمول
بنارکھا ہے۔پڑوسی ملک نے سرحدی حدود کی خلاف ورزی دوسرے انداز میں
کی۔بھارتی پاکستان کے داخلی معاملات پر غیر ضروری اظہار کررہے ہیں۔بھارتی
منتری من موہن نے مسلح افواج کی پانچویں کانفرنس سے خطاب میں پاکستان کے
ایٹمی ہتھیاروں کی سیکیورٹی پر خدشات ظاہر کئے کہ ہماری پڑوس پر نظر ہے۔من
موہن نے کہا کہ اگر بھارت کی اقتصادی ترقی سے پڑوسیوں کو ٹھوس فائدہ نہ
پہنچے تو پھر ملک میں اقتصادی اور سماجی تبدیلی کا کام مشکل ترین ہوگا اور
اگر ایسی دراندازیاں اور مداخلتیں جاری رہیں تو پھر معاملات کو درست نہج پر
لانا مشکل ہوگا۔ ہیلری نے کہا امریکہ پاکستان کو مشکل حالات میں نہیں چھوڑ
سکتا اسلام آباد کو چاہیے کہ وہ افغان معاملات کی الجھن کی سلجھن کے لئے
کابل کی مدد کرے۔امریکہ دھونس و دھاندلی سے پاکستان کو کوئی کام کروانے پر
مجبور نہیں کرسکتا۔اگر کابل میں بھارت کی مداخلت ختم ہوجائے تو پھر قیام
امن کی راہ ہموار ہوسکتی ہے تاہم یہ ضروری ہے کہ امریکہ احکامات مسلط کرنے
کی بجائے زمینی حقائق کا ادراک کرے اگر امریکہ نے ہوش سے کام نہ لیا تو اسے
خود عبرت ناک انجام سے دوچار ہونا پڑے گا۔امریکہ دوغلی پالیسیوں کو چھوڑ دے
ورنہ عالمی امن کی ضمانت نہیں دی جاسکتی اگر وائٹ ہاؤس چاہتا ہو کہ امریکہ
میٹھا میٹھا اور ہپ ہپ کرتا جائے اور پاکستان کو تباہی و بربادی کے گھڑوں
میں درگور کردیا جائے کسی صورت میں قابل قبول نہیں۔امریکہ کو چاہیے کہ وہ
دنیا بھر اور مسلم ملکوں میں عسکری کاروائیوں پر پابندی عائد کرکے واپس پلٹ
جائے ورنہ کابل کی شکست اور امریکہ کا معاشی سونامی سوویت یونین سے روس تک
رونما ہونے والی تبدیلی اور سپرپاور کی شیرازہ بندی کی تاریخ امریکہ میں
دہرائی جاسکتی ہے۔ |