مشرف کا دوبارہ سیاست میں آنے کا
فیصلہ اور پاکستان کی عزت مند اور غیرت مند قوم کا ردّ ِعمل
پاکستان میں ڈکٹیٹر شپ کے چوتھے ستون آمر نمبر 4پرویز مشرف کار زار سیاست
میں کودنے کے لیئے پر تول رہے ہیں۔وہ بضد ہیں کہ نئی جماعت میں شامل ہو کر
مخالفین کے سینے پر مونگ کی دال بھی مل لیں گے اور واپسی پر مقدمات کا
سامنا کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں ۔انہوں نے کچھ عرصہ پہلے لندن میں منعقد
ہونے والے ایک جلسہ میں نواز شریف پر رکیک حملے کئے۔مشر ف نے نواز شریف
صاحب کی خوب تضحیک کی کہ وہ فارغ البال اور نیم کریلا ہیں ۔مشرف نے نے زہنی
خلجان کا روز روشن ثبوت دیا۔آمر نمبر 4نے بازاری زبان استعمال کر کے
طوائفوں اور خواجہ سراؤں کا ریکارڈ توڑ دیا کیونکہ بازارِ حُسن میں بے وفا
عاشقوں کے متعلق بھی ایسے بودے و بیہودے الفاظوں کو زبان پر نہیں لایا
جاتا۔مشرف جب اپنے گماشتوں اور قصیدہ خانوں کو تمسخرز دہ لفاظی سے محفوظ کر
رہے تھے تو عین اسی وقت جلسہ گاہ کے باہر ان کی تصویروں پر جوتیاں برسائی
جا رہی تھیں ۔کاش کہ جوتیاں برسانے والوں میں میرا نام بھی شامل ہوتا۔حیف
ہے قائد اعظم کی وراثت والی مسلم لیگ کے دعویداروں یعنی کیولیگ کے رہبروں
پر کہ انہوں نے اقتدار کی ہوس میں آل پاکستان مسلم لیگ کابُت کھڑا کر
دیا۔پیر پگاڑہ اور چوہدری برادران نے مشرف کو اس بُت کا پنڈت نامزد کر کے
ثابت کر دیا کہ 21ویں صدی میں آمروں کو سیاسی ایندھن مہیّا کرنے والی نسل
وافر مقدار میں موجود ہے۔کچھ عرصہ پہلے میں ایک دوست کے پاس گیا اور اس کے
پاس بیٹھ کر ماسکو ٹائمز کا مطالعہ کیا اس میں شائع ہونے والے شہریت یافتہ
دانشور وولخونسکی کے مکالمے (پاکستان پر کون حکمرانی کرے گا)میں لکھا ہے کہ
سویلین حکومت نے امریکی مفادات کے لئے وہ کارکردگی اور پھرتی نہیں دکھائی
جس کی وائٹ ہاﺅس کو توقع تھی ۔یوں امریکہ اپنے آزمائے ہوئے وفادار نمک خوار
دوست مشرف کی خدمات سے دوبارہ استفادہ حاصل کرنے کا منصوبہ بنا چکا
ہے۔وولخونسکی کے تجزیئے کی رو سے امریکہ نے ایک طرف مشرف کو وطن بھجوانے کا
پلان بنایا تو دوسر ی طرف واشنگٹن کے اشارے پر مسلم لیگی آل پاکستان مسلم
لیگ یعنی کیو لیگ کی رتھ پر سوار ہو رہے ہیں ۔
اگر ماسکو ٹائمز کی رپورٹ کو درست مان لیا جائے تو پھر مشرف کی آمد تشویش
نا ک بھی ہو گی اور قابلِ مذمت بھی۔پاکستان کی تمام سیاسی ودینی جماعتوں
بالخصوص زرداری اور میاں نواز شریف کااولین اور دانشمندانہ عمل ہو گا کہ وہ
پاکستانیوں کو ڈالروں کے عوض CIAکے سپرد کرنے والے انسانی سمگلر مشرف کا
مکو ٹپھنے کے لئے مشترکہ لائحہ عمل تیار کریں ۔ایک جابر امریکی ایجنٹ
ڈکٹیٹر مشرف کے لیگی حواروں کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ مشرف کی قدم بوسی کر
کے جمہوریت وسیاست کے ساتھ بے وفائی کرنے کے مجرم بن چکے ہیں ۔جن کا انجام
مولانا جوہر کے اس جملے پر متنج ہو گا کہ عوام و جمہوریت کے ساتھ فریب و
فسوں کرنے والے سیاسی یتیم خزاں کے رسیدہ پتوں کی طرح وقت کے کوڑا دان میں
ہمیشہ کے لئے گل سڑ جاتے ہیں ۔مشرف سے پہلے ایوب خان اور ضیاءالحق نے بھی
اقتدار کی طوالت کے لیئے کنونشن لیگ اور مسلم لیگ کا سنگ بنیاد رکھا تھا ۔سابق
آرم چیف اسلم بیگ نے بھی عوامی قیادت کے نام پر اپنی سیاسی دوکان چمکانے کے
لیئے خوب داﺅ پیچ کھیلے۔لیکن نتیجہ نا مراد ہی رہا ۔بانی ڈکٹیٹرشپ نمبر
1تا4عالم بالا کے سفر پر مدت ہوئی روانہ ہو چکے مگر اسلم بیگ حیات اور
تندرست ہیں اسی لئے مشرف اسلم بیگ کے سیاسی عروج و زوال کاطائرانہ جائزہ
لیں تو وہ اپنے انجام کے متعلق کافی کچھ سیکھ سکتے ہیں ۔خاص طور پر ہزاہ ول
قوم میں ایک کہاوت مشہور ہے کے جب بدبختی اور نحوست آتی ہے تو انسان اس
گھیرے میں پابند سلاسل ہو جاتا ہے اور اسکی کشتی ڈوب جایا کرتی ہے۔مشرف کا
انجام بھی وہی ہو گا جو ان کے پیش رواں اور ہم منصب اسلم بیگ کے ساتھ ہوا ۔اسلم
بیگ کو اقتدار کے لالچ نے گھیر رکھا تھا ۔ضیاء الحق ہوائی حادثے میں چکنا
چور ہوا تو بیگ صاحب اقتدار پر قابض ہونے کا پلین مرتب کر چکے تھے۔مگر
اسحاق خان نے بیگ صاحب کی ساری خواہشات پر پانی پھیر دیا۔اسلم بیگ بے نظیر
بھٹو کی پہلی ٹرم کے دوران تین مرتبہ جمہویت کے دھڑن تختے کی سازشوں کے
تانے بانے بنتا رہا لیکن قسمت نے اس کی یاوری نہ کی ۔وہ اگست 1991میں
ریٹائر ہوئے اور 1993میں عوامی قیادت کے نام سے ایک پارٹی بنا لی۔اسلم بیگ
الطاف حسین کے لاڈلے نورتن تھے ۔الطاف حسین اور بیگ صاحب نظریاتی اور لسانی
نقطئہ نظرسے مشترکہ افکار کے رسیا ہیں ۔عوامی قیادت پارٹی اور متحد ہ کے
مابین سیاسی معاہدہ ہو ا کہ عوامی قیادت پارٹی الیکشن میں کم از کم بیس
﴾20﴿سیٹیں حاصل کرے اور پھر متحد ہ کی 12تا 15سیٹوں کے ساتھ مجموعی طور پر
40سیٹیں بیگ کی جیب میں ہوں تو وہ دوسری جماعتوں سے جوڑ توڑ کر کے حکومتی
عہدے حاصل کریں گے۔بیگ نے صدارت کے تخت پر آنکھیں جما رکھی تھیں۔الیکشن
کمپین کے لئے سابق آرمی چیف کے پاس 30سے زائد کا خزانہ تھا۔مہران بنک نے
15کروڑ کا چندہ عنایت کیا جبکہ بقایا رقم پاک فوج کے ریٹائر جرنیلوں اور
اور آفیسروں نے جمع کی ۔عوامی قیادت پارٹی نے اُمیدواروں کا اعلان کیا تو
یہ رقم انہیں دی گئی۔سیاست اور الیکشن مہم کا پیٹ کنویں سے گہرااور ہمالیہ
سے بلند ہوتا ہے جو منٹ میں اربوں کو ڈکار جاتا ہے۔یوں چند روز بعد یہ تیس
کروڑ روپے ہو ا ہو گئے ۔بیگ صاحب کے پیروں تلے اس وقت زمین سرک گئی جب
متحدہ نے الیکشن کے بائیکاٹ کا فیصلہ کر دیا۔وہ متحدہ کے قائد کی منتیں اور
ترلے کرتے رہے کہ وہ الیکشن کا بایئکاٹ نہ کریں مگر متحدہ نے ایک نہ سنی
اور الیکشن کا بایئکاٹ کیا ۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوامی قیادت پارٹی کا
کوئی ایک اُمیدوار بھی کامیاب نہ ہو سکا بلکہ بیگ کی ساری خواہشات کا ستیا
ناس ہو گیا۔ہوا یہ کہ وہ الیکشن کے جوئے میں تیس کروڑ ہار گیا۔مشرف خوش
فہمیوں کا شکار ہیں کہ مغربی ممالک ان کی سیاسی و سفارتی امداد جبکہ خلیجی
ریاستیں مشرف کے لئے تیل کی دولت لٹا دیں گی۔کہا جاتا ہے کہ شاید وہ کراچی
سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑیں گے اور متحد ہ کے رتھ پر سوار ہو کر جلوہ گر
ہوں گے۔مشرف کو زعم ہے کہ جونہی وہ کراچی یا لاہور میں لینڈ کریں گے تو
لاکھوں کا انبوہ مجنوں بن کر استقبال کے لئے موجود ہو گا لیکن میرے بزرگو
اور دوستوں! ان کا یہ پلان کاغذوں کی حد تک تو خوش کن ہو سکتا ہے لیکن یہ
طئے ہے کہ انکا وہی حشر و نشر نوشتہ دیوار ہے جو ماضی کے ڈکٹیٹر جرنیلوں
اور انکی کٹھ پتلی سیاسی جماعتوں اور عوامی قیادت پارٹی کا ہوا تھا۔مشرف
ڈیگال بننے کے خواب دیکھ رہا ہے مگر ڈیگال ایسا جرنیل صدیوں بعد کسی خوش
نصیب قوم کو میسر آتا ہے۔مشرف صاحب کی خدمت اقدس میں سار ی قوم درخواست
کرتی ہے کے ہمارا حافظہ اتنا کمزور نہیں کہ سب کچھ فراموش کر دیں گے اسی
لیئے قوم کے زخموں پر نمک پاشی کے لئے پاکستان آنے کی ہر گز ضرورت نہیں ۔ویسے
جس نے کارگل ایڈونچر شروع کیا اور پھر ہزاروں فوجیوں سے لاتعلقی کا اعلان
کر کے بھارتی افواج سے مروا دیا ہو جس نے 12اکتوبر 1999میں جمہوریت پر شب
خون مارا جس نے نائن الیون کے بعد ایک فون کال پر ملکی سالمیت خودداری اور
خود مختیاری کو بیچ ڈالا ہو۔جس نے اسلامی روایات کا جنازہ نکالا جو روشن
خیالی کے نام پر اسلامی ملک میں مغربی تہذیب مسلط کرنے کی کوشش کی ہو۔جو
صدر بش کے تلوے کاٹتا رہا ہو ۔جس نے یہود و ہنود کے ایجنٹ کی شکل میں پاک
فوج اور قبائلیوں کو ایک دوسرے کا لہو بہانے کا جرم کیا ہو جس نے اپنے ملک
کے شہری اور عافیہ صدیقی کو ڈالروں کے عوض فروخت کیا ہو۔جس کے دامن پر لال
مسجد کے سینکڑوں طالب علموں اور بچیوں کا خون ناحق صاف دکھائی دیتا ہوجسکے
سنہری دور میں متحرمہ بے نظیر بھٹو جیسی لازوال لیڈر کو مار دیا گیا ہوجسکی
ظلمت جبریت کے ردعمل میں خود کش بمباری کی ابتداءہوئی ہوجس نے ہزارو ں کو
اگ و خون میں نہلا دیا ۔جس نے ذاتی مفاد کی خاطر اکبر بگٹی کو مروا دیا ہو۔
ایسا ظالم ڈرپوک اور خونی انسان دوبارہ سیاست میں کوئی کردارادا کرنے کا حق
رکھتا ہے؟کیا سپریم کورٹ کے ججز کو سڑکوں پر گھسیٹنے نظر بند کرنے اور چیف
جسٹس ٓآف پاکستان چوہدری افتخارکو تین گھنٹے آرمی ہاﺅس میںیرغمال بنانے
والا دادا گیر قوم کیاکسی سیاسی جماعت کی قیادت کرنے کا اہل ہے؟؟؟؟
کیا ایسے جنگی مجرم کو لندن کی طرح جوتے مارے جائیں یا پیر پگاڑا کے لان
میں خوشبو بکھیرنے والے گلابوں کے ہار پہنائے جائیں یہ فیصلہ کرنا قوم کا
مقدص فرض ہے ۔بویلٹر نے کہا تھا نقلی پھول تو اچھے لگ سکتے ہیں مگر خوشبو
نہیں۔مشرف کی زندگی کے کچھ تاریک پہلوپر روشنی ڈالی ہے آگے فیصلہ قوم کو
خود کرنا ہے کیونکہ پاکستانی قوم عزت مند اور غیرت مند قوم ہے اور یہ قوم
پاکستان کی سلامتی کے لئے کسی ایسے شخص کا انتخاب نہیں کرے گی جو امریکہ کا
غلام اور پاکستان کا دشمن ہو بلکہ یہ عزت مند اور غیرت مند قوم صرف عزت مند
اور غیرت مند قوم لیڈر کا ہی انتخاب کرے گی جس کے دل میں پاکستان کا درد ہو
اور یہ میں ،آپ اور پوری قوم جانتی ہے کہ پاکستان کا درد کس کے دل میں ہے
یہ صرف عمران خان اور نواز شریف کے دل میں ہے ۔اس دعا کہ ساتھ اپنے کالم کا
اختتام کروں گا کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کو دِن دُگنی رات ترقی نصیب عطا
ءفرمائے اور پاکستانی قوم کو پاکستان کا درد درکھنے والے شخص کا انتخاب
کرنے کی توفیق عطاءفرمائے۔آمین |