پھر قافلے چلے۔۔ سفرنامہ حج ساتواں حصہ

 ۱۱ ذو الحج
ہم منٰی کی حدود میں داخل ہوئے تو فجر قریب تھی۔ سڑک کے کنارے جگہ بنا کر دوگانہ ادا کیا۔ حدنظر تک سڑک کے دونوں طرف لوگ استراحت فرما رہے تھے۔ مسجد خیف سے اذان گونجی تو اﷲکے مہمان اس کی بزرگی بیان کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور فجر پڑھی۔ اس دوران یاد آیا کہ کنکریوں کی تھیلی تو حرم میں جدا ہونے والے افراد کے پاس رہ گئی ہے! اپنے آپ پر سخت غصہ آیا ۔ جی ہاں ! آج یہ ہی کام تو کرنا ہے ۔ صرف کنکریاں مارنی ہیں تینوں شیطانوں کو ! اب ان لوگوں کو کیسے ڈھونڈا جائے؟ کنکریاں بھی نہیں دوبارہ لے سکتے؟

اور آج تو چاہیئں بھی زیادہ! انہی فکروں میں غلطاں وپیچاں چلے جارہے تھے کہ اچانک وہ سب فٹ پاتھ پربیٹھے نظر آگئے۔یا اﷲ! تیرا شکر ہے! ہم بھی وہیں بیٹھ گئے۔سورج نیا دن لے کر طلوع ہوچکا تھا۔

کنکریاں مل گئیں تو دوسرے مسائل سامنے آکھڑے ہوئے۔ دن کیسے گزرے گا ؟ رات کہاں رہیں گے؟گلے میں پڑاخوبصورت کارڈ جس میں منٰی کا پتہ لکھا تھا ہمارا منہ چڑا رہا تھا۔ اگر وہ قابل رہائش ہوتا تو ہم یوں دربدر ہوتے؟؟خیر فی الحال تو خوب میزبانی ہورہی تھی ! کوئی ناشتہ تو کوئی پھل اور تو اور مطالعہ کے لیے کتابوںUPDATE کے بنڈل! ہم سب اطمینان سے سڑک پر وقت گزار رہے تھے۔ کچھ لوگ نیند پوری کر رہے تھے! مگرکچھ دیر بعد یہاں رکنا محال تھا کیونکہ سورج بلند ہو کر ہمیں جھلسا رہا تھااورتپش کے سا تھ ساتھ پولیس کی بڑی بڑی گاڑیاں بھی ہمیں بلکہ سب لوگوں کو وہاں سے اٹھا رہی تھیں۔ ہم میں سے ایک صاحب اپنی بیگم کی خرابی صحت کے باعث ان کی طرف سے رمی کرکے ( بمطابق فتوٰی سعودی حکومت) واپس مکہ چلے گئے۔اب ہم سات افراد منا سب رہائش کی تلاش میں چل کھڑے ہوئے۔جاکہاں سکتے تھے؟ بس وہیں پیچھے شیڈ میں جاکر چٹائی بچھا کر لیٹ بیٹھ گئے۔ اردگرد بہت سے پاکستانی، بنگلہ دیشی، اور انڈین تھے۔ مگر یہاں بھی چین کہاں ! بار بار شرطے آکر اٹھا رہے تھے۔ پہلے پہل یہ خیال تھاUPDATE2 کہ یہ ان لوگوں کو بیدخل کریں گے جو عین وقت پر حج کو آئے ہیں،ہماری تو رجسٹریشن ہے(جس کاثبو ت گلے میںپہنا لاکٹ ہے )! مگر یہ خام خیال تھا ! کیونکہ وہ یکساں طور پر سب کو ہنکا رہے تھے ! سوتے کو جھنجھوڑ کر اور نماز پڑھنے والے کی جاءنمازگھسیٹ کر! ذلت ہماری آنکھوں سے آنسوبن کربہہ رہی تھی! دربدری کے اس دن نے ہمیں ان افراد کے مقا بل لاکھڑا کیا جو کراچی کی سڑکوں پر پولیس ایکشن پر ادھر سے ادھر ہوتے ہیں !

سنا تھا کہ اس دن کو کچھ لوگ لایعنی باتوں میں ضائع کرتے ہیں لہذا حفظ ماتقدم کے طور پر ہم کچھ تذکیر کا پروگرام بناکر آئے تھے مگر ان حالات میں کچھ ممکن ہی نہ تھا ۔(خیال آیا کہ ہم پوری زندگی اسی طرح سہولتوں کی عدم دستیابی کی شکایت اور ذکر میں گزار دیتے ہیں۔ کام نہ کرنے کا جواز ڈھونڈ ہی لیتے ہیں!)

کراچی سے بہن نے فون کیا توہم نے اس سے اپنے لیے دعا کی درخوا ست کی۔ وہ ہکّا بکّا رہ گئی!! اس نے توہمیں دعاﺅں کی یاد دہانی کے لیے فون کیا تھا ؟خیر اس کو اطمینان دلایا ( ہمیں لگا کہ موبائل فون کی وجہ سے پریشانی کا دائرہ بڑھ گیا ہے ورنہ حاجیوں کے اھل خا نہ ان کو اﷲحا فظ کہہ کر واپسی کی راہ دیکھتے تھے اب پل پل کی خبر نے مشکلات میں اضافہ کردیا ہے !)
کانوں میں لوگوں کے جملے پڑ رہے تھے کہ
سعودی شہزادے نے چیف جسٹس کو خط لکھا ہے! (پوری دنیا میں مذاق بن کر رہ گئے ہیں! )
حکومت متاثرہ مکتبوں کو ڈھائی سوریال فی فرد دے گی! ( اس کے بجا ئے ہم سے لے لیتی مگر انتظام تو باعزت ہوتا !)
حاجیوں کو ایجی ٹیشن نہیں کرنا چاہیے تھا حالت احرام میں !(چاہے حج کے ارکان ہی ادا نہ کرسکیں ) وغیرہ وغیرہ

جب یہاں حالات بہت پریشان کن ہوگئے تو ہم یہاں سے روانہ ہوئے جمرات کی طرف! آج کا اپنا ٹارگٹ جو پورا کرناہے ! پیدل چلنا شروع کیا تو چاروں طرف سے طریق حاجی! طریق حاجی ! (راستہ حاجی! راستہ حاجی) کی صدا کانوں میں پڑتی رہی! یوں ہی گاڑیاں دوڑا رہے ہیں، یہ نہیں کہ حاجیوں کو لفٹ دے دیں! پاﺅں میں پڑے چھالے تکلیف دے رہے تھے! کسی کو کراچی کے رکشے یاد آئے اور کسی نے نئی سواری چن جی کا ذکر چھیڑ دیا ۔ دل چاہا کہ ان سعودی شہزادوں شہزادیوں کو کوئی یہ جاکر سمجھا سکے کہ حاجیوں کو صرف کھانے پینے کی حاجت نہیں ہوتی ،کچھ اور بھی ضروریات ہوتی ہیں۔ ان کے لیے سواری کا انتظام کرنا بھی ان کی خدمت ہے! مگر ہماری ان تک رسائی کہاں ؟ ہم تو بس ان کے محلات ہی دیکھتے رہے!

نماز عصر مسجد خیف میں اداکرنے کے بعد تینوں شیطانوںکی رمی کی ۔ کل کی بہ نسبت آج ہم پرجوش تھے،دن بھر ورغلاتا جو رہا ہے ہمیں اپنی حالت پر ! اب کیا بتا ئیں ؟ لوگ کھانے پینے کی چیزیں ہمیں دے رہے تھے تو ہم ان کی مہمان نوازی سمجھ رہے تھے ۔مگر جب یہ ہوا کہ لوگ ہمیں خیرات کے قا بل سمجھنے لگے(جی ہاں! ہمارے ایک دو ساتھیوں کو ریال دینے لگے) تو ہم چونکے! اپنے حلیے پر نظر کی تو دل بھر آیا ! کیا ہم فقیرہیں؟؟جواب میں اﷲکا لہجہ بدلا ہوا سنائی دیا تمہاری حیثیت اور کیا ہے ؟تمہارا کیا خیال ہے کہ گھروں میں جوکما کر لایا جاتا ہے، جو خریدا یا بنایا یا اگایا جاتا ہے وہ تمہارے زور بازو کا نتیجہ ہے ؟ سب میرا ہی دیا ہوا ہے! (سورہ الواقعہ کا دوسرا رکوع نظروں میں گھوم رہا تھا ) میں رازق !تم مرزوق! یاد رکھو اپنی حیثیت!!! ! اس گُھرکی نے ہمارا دماغ درست کردیا اور ہم نے سوچ لیا کہ اگر ہمیں خیرات دی گئی تو ہم رد نہ کریں گے مگر افسوس !اس کے بعد یہ کرم فرمائی نہ ہوئی!!

رمی کرکے باہر نکلے تو مغرب کا وقت قریب تھا۔وضو کرکے باہر ہی جماعت میں شریک ہوگئے۔ اس کے بعد کچھ کھانے کی تلاش میں نکلے تو بے حد رش تھا ۔ صرف چائے پی اور آگے کا پروگرام کچھ سوچ ہی رہے تھے کہ اچانک طوفانی بارش شروع ہوگئی ۔پیش گوئی تو تھی مگر پناہ کی تلاش میں ادھر ادھر دوڑے ۔ پولیس اسٹیشن کے آگے شیڈ میں کھڑے ہوئے توہٹنے کا اشارہ ہونے لگا ۔گرج چمک اور طوفانی ہوائیں سخت خوفزدہ کر رہی تھیں اور اس پر منٰی اسپتال قریب ہونے کے باعث ایمبولنس کا شور ! کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ روز قیامت کا منظر کیا ہوگا ؟ہم سب اﷲ سے مدد مانگتے ہوئے کنگ خالد ٹنل میں گھس گئے۔

یہاں بارش سے تو محفوظ ہوگئے مگرٹریفک کا شور ، صور اسرافیل محسوس ہو رہا تھا اوپر سے سول ڈیفنس والوں کے خوفزدہ کرنے والے پیغامات ! اس عالم میں نیند کا زور ایسا کہ کھڑے کھڑے سوجائیں ! شاید یہ غنودگی رحمت الٰہی کا نزول ہے!کچھ دیر بعد ہم ایمرجنسی ایگزٹ میں چلے گئے ۔حالانکہ ہمیں اندازہ تھا کہ یہ بے انتہا خطرناک ہے مگر کوئی چوائس نہ تھی۔چٹائی بچھاکر ہم چاروں خواتین نے نماز عشاءادا کی اور وہیں لیٹ گئے۔ شاید سو ہی جاتے مگر ہمارے گروپ لیڈر نے اس فتوے کی رو شنی میں کہ اگر جان یا مال کا خطرہ ہو تو منٰی سے باہر بھی جاسکتے ہیںوا پس مکہ جا نے کا فیصلہ کرلیا۔ چنانچہ جب ایک گاڑی کا انتظام ہوگیا تو ہم ٹنل سے باہر آئے۔

بہت خوشگوار موسم ہو رہا تھا مگرآسمان ابھی اور بہنے کو تلا ہوا تھا۔باہر چونکہ سگنل آنے لگے تھے لہذا بارش کی خبر کے ساتھ ہی لوگوں کے تشویش بھرے فون آنا شروع ہوگئے۔ میڈیا نے زندگی کو اتنامصروف کردیا ہے کہ سفر میں بھی ذکر سے محروم رہتے ہےں اس سیل فون کی وجہ سے۔

ٹنل سے نکل کر خاصہ پیدل چلے تو ایک گاڑی تیار تھی۔ ہم سب اس میں بیٹھ گئے۔ ڈرائیور کو ہماری منزل کا علم بھی نہیں تھا مگر پوچھ پوچھ کر اس نے ہمیں بالآخر ہماری بلڈنگ تک پہنچایا اور پچھلے تمام ڈرائیورز کے برعکس ایک کوڑی وصول نہ کی یہ کہہ کر کہ آپ کی خدمت کا اجر اﷲ دے گا! آپ نے دیکھا قارئین! کوئی ایک فرد پوری قوم کا کفارہ ادا کردیتا ہے!

رات بہت زیادہ تھی لہذا ہم سب سوگئے۔یاد نہیں کہ کچھ کھایا تھا یا نہیں! تھوڑی دیر بعد آنکھ کھلی تو خیال آیا کہ ہمیں تو منٰی میں ہونا چاہیئے۔بارش بھی رک چکی تھی چنانچہ ہم نے واپس جانے کا فیصلہ کیا ۔ہم تینوں ہوٹل سے نکلے تورات کے تین بج رہے تھے۔ہماری بلڈنگ کے دو اور افراد بھی ہمارے ہمراہ تھے ۔ٹیکسی کے ذریعے منٰی پہنچے۔ کل کی طرح بہت دور اتارا۔ چنانچہ پیدل روانہ ہوئے۔ مسجد خیف میں نماز فجر ادا کی۔ یہ مسجد ستر انبیاءکا مدفن ہے ۔الحمدﷲ ! ہمیں یہاں کئی نمازیں پڑھنے کا موقع ملا۔

جاری ہے
Farhat Tahir
About the Author: Farhat Tahir Read More Articles by Farhat Tahir: 72 Articles with 74517 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.