پھر قافلے چلے۔۔سفر نامہ حج آٹھواں حصہ

 ۲۱ذو الحج
آج حج کا آخری دن ہے! اور کل کی طرح آج بھی زوال کے بعد تینوں شیطانوں کو کنکریاں مارنی ہیں مکمل آداب کے ساتھ! یہ نہیں کہ جیسے دل چاہے! کتناپیارا ہے ہمارا مذہب ! کبھی بھٹکنے کو نہیں چھوڑتا ! ہر وقت رہنمائی! صبح ہوچکی تھی ۔ چائے کی شدید طلب ہو رہی تھی مگر مل نہ پارہی تھی۔ کافی چلنے کے بعد ایک جگہ افریقی چائے اور کھجور تقسیم کر رہے تھے۔ لمبی لائن تھی مگر بڑے تحمل کا مظاہرہ ہو رہا تھا۔ پی کر رب کا شکر ادا کیا۔ اپنے ساتھیوں کو فون کیا تو معلوم ہوا کہ وہ اسی ٹنل میں آکر بیٹھے ہیں جہاں کل رکے تھے۔چمکدار سورج کو دیکھ کر یقین کرنا مشکل ہو رہا تھا کل یہاں کیا منظر تھا!ساری مخلوق اﷲکے حکم کی پابند ہے! منٰی جیسی وادی میں لینڈسلائیڈنگ کا بہت خطرہ ہوتا ہے مگر اﷲکا شکر سب محفوظ رہے! ٹنل میں ٹریفک کا بہت شور تھا کیوں کہ بہت سے لوگ صبح رمی کرکے وا پس ہورہے تھے۔کچھ دیر بعد ہم اپنے ساتھیوں سے مل گئے اور جمرات کی طرف چلے ۔

راستے میں کافی لوگ احرام پہنے نظر آ رہے تھے یعنی ابھی تک ان کی قربانی نہیں ہوسکی ہے جبکہ کافی لوگ فارغ ہوکر خیمے چھوڑ کر جاچکے ہیں ۔ کئی لوگ شرطوں سے راستہ پوچھتے ہوئے پائے گئے جو وہ بتانے سے قا صر نظر آرہے تھے زبان نہ سمجھنے کی وجہ سے! کچھ خیموں کو اندر سے دیکھا۔یہ کینیا کا تھا۔اتنا منظم اور صاف ستھرا! آسا ئشوں سے پُر! لانڈری تک کا انتظام! فرج بھرے ہوئے! کولڈڈرنک سے لے کر چائے کافی تک! ہمیں بھی کھلی آفر کی تو ہم نے جوس اور چپس لیے۔

ہمیں زوال کا انتظار تھا کہ رمی کریں ۔آہستہ آہستہ چلنا شروع ہوئے اور جہاں رکتے شرطے آگے بڑھنے کا کہتے۔قریب پہنچے تو آگے بڑھنا ناممکن تھا بوجہ رش ! ہم بھی ہجوم میں پھنسے ہوئے تھے۔زوال کے بعد جیسے ہی اذان بلند ہوئی سناٹا چھاگیا مگر ختم ہوتے ہی سیٹیاں اور تالیاں بجنا شروع ہوگئیں!یہ ہی تو کرتے تھے مشرکین مکہ! خوف کی ایک لہر ہمارے اندر دوڑگئی۔کیا ہمارے درمیان شیطان کے ایجنٹ موجود ہیں ؟ غور کیا تو یہ وہی جنون ہے جس کا سامنا ہم نے مزدلفہ میں کیا تھا۔ اب آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ اس مشتعل ہجوم کے ساتھ رمی کرنے پر ہمارا کیا حشر ہوا ہوگا ؟ اپنے آپ کو خود ملامت کیا مگر واپسی کا کوئی راستہ نہ تھا لہٰذا دھکے کھاتے رہے۔کسی کا چشمہ ٹوٹا تو کسی کی چپلیں توکسی کا بیگ ! شکر ہے جان تو بچی اور اعضاءبھی سلامت رہے۔ پچھلے دو دن کتنے پر سکون انداز میں رمی کی تھی مگر آج شیطان کا اصل روپ دیکھا ! کتناخوش تھا اپنے ہتھکنڈوں کی کامیابی پر!

باہر آکر شکرانہ ادا کیا حج کے مکمل ہونے پراور زندہ سلامت بچنے پر! ظاہر ہے سا تھیوں سے تو بچھڑ چکے تھے اب رہا ئش گاہ پر ہی ملیں گے۔ اﷲکرے سب خیریت سے ہوں ! دل سے دعا نکلی۔چلتے چلتے بہت دورآگئے تھے ۔ پیاس بہت شدید لگ رہی تھی۔ تین ریال کی چھوٹی سی بوتل مل رہی تھی۔ دو بو تلیںلیں اور حلق تر کیا۔آگے بڑھے تو بڑا سا ٹرک تھا جس سے یہ بو تلیں مفت تقسیم ہو رہی تھیں۔اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ وہ فرد وہاں سے لےکر بیچ رہاتھا ؟کیا موقع ڈھونڈا ہے کمائی کا؟ سستانے کو ایک جگہ بیٹھے ، گھر والوں سے فون پربات کی اور مبارک باد وصول کی ۔

چلتے چلتے ٹریفک تک آئے تو کوئی سواری نہ ملے!خیر ایک ٹیکسی والا ڈیڑھ سو ریال میں آنے پر راضی ہوگیا۔ کوئی چوائس نہ تھی لہذا بیٹھ گئے۔بیٹھتے ہی گویا موسم بدل گیا۔ چلچلاتی دھوپ بادلو ںمیں چھپ گئی۔ اور ایک دفعہ پھر طوفانی بارش شروع! یااﷲخیر! ٹیکسی کی حالت اور ٹیکسی ڈرائیور کے حلیے پر نظر پڑی تو سٹی گم ہوگئی۔ مسٹر بین کے اسٹائل کا بدو! عربی کے علاوہ دنیا کی ہر زبان سے نابلد! (ہماری ٹوٹی پھوٹی عربی فیل ہوچکی تھی)۔ گاڑی میںوائپر ندارد، بریک ناکارہ ! آگے چل کر معلوم ہوا کہ پٹرول بھی ختم ہورہا ہے۔وہ چلتی گاڑی سے ہاتھ باہر نکال کر شیشہ صاف کر رہا تھا اس عا لم میں ہم ہائی وے پر سفر کررہے تھے اوپر سے موسم کا رنگ ! اولے برسنا شروع ہوگئے جس کی وجہ سے فرنٹ شیشہ چٹخ گیا تھا۔ انگور کے برا بر اولوں سے ہم نے وضو کیا اور اپنی دا نست میں زندگی کی آخری نماز پڑھنے لگے۔ پا نی مسلسل اندر آرہا تھا جس کے روکنے کا اس کے پا س کوئی انتطام نہ تھا ہم نے ہی رومال اورٹشوز وغیرہ فرا ہم کیے جو پانی کے اس ریلے کے سا منے بے کار تھے چنانچہ چٹائی لگائی ۔بڑی مشکل سے ٹیکسی کو ایک جگہ رکوانے میں کامیاب ہوسکے! اس عالم میں بھی اس کی زبان قینچی کی طرح چل رہی تھی۔ مدعا اپنی کسمپرسی کا تھا! وہ تو صاف چھلک رہی تھی! نئی ٹیکسی اورموبائل خریدنے کا ارادہ تھا موصوف کا نیت صاف یہ تھی کہ ہم اس کے لیے فنڈ دیں ! اگر بچ گئے تو ضرور خریدلینا ہم نے دانت پیستے ہوئے سوچا۔ سنا تھا اور اتنے دن سے دیکھ رہے تھے کہ ٹریفک قوانین کی بہت پابندی ہوتی ہے تو یہ مسخرہ کیسے ایسی گا ڑی ہائی وے پر لانے میں کامیاب ہو گیا؟چالان کا خطرہ بھی موجود تھا ۔

اس وقت تو یہ لکھتے ہوئے ہمیں ہنسی آرہی ہے اور آ پ بھی یقیناً محظوظ ہورہے ہوں گے؟ مگر اس وقت جو ہمارا حال تھا کہ ہم شیطان سے تو بچ کر آگئے ہیں اس سڑک پر کہیں نہ ہلاک ہو جائیں! پچھلی قوموں کی موسم کے ہاتھوں ہلاکت کی آیات نظروں میں گھوم رہی تھیں ۔

اﷲ میاں سے رحم مانگتے رہے کہ ہمارا انجام بخیر ہو! جب بارش ذرا تھمی تو اس نے پھر اسٹارٹ کی۔! پہلے تو خیال آیا کہ نہ ہی چلے تو اچھا ہے مگر اس ویرانے میں ہم کہاں جاسکتے تھے؟ پٹرول کے لیے اسٹیشن ڈھونڈا تو عملے نے صاف انکار کردیا ۔ بجلی اتنی چمک رہی ہے! بینزین لفظ سے ہم سب کچھ سمجھ گئے۔ ہمیں ٹیکسی میں بیٹھے گھنٹہ سے اوپر ہوچکا تھا حتٰی کہ موسم نے دوبارہ رنگ بدل لیا تھا اور سورج پہاڑیوں سے مسکراتا ہوا جھانکنے لگا تھا!

خیر بالآخر اس نے ہمیں منزل تک پہنچاہی دیا۔ایسی اﷲ توکل والی شخصیت نے آج تو ہماری جان لینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی! اس کی دوسری خوبی یعنی خوش اخلاقی بھی ہمیں زہر لگ رہی تھی جب اس نے فاتحانہ انداز میں کچھ بولنا شروع کیا۔ ہم نے کچھ نہ سمجھناچاہا مگر بہرحال وہ دس ریال ٹپ لے کرہی گیا ۔ ہم نے صدقہ سمجھ کر دے دیا ورنہ دل تو چاہ رہا تھا ابھی پولیس کو فون کرکے اس کا چالان کروا دیں!

بلڈنگ میں داخل ہونے لگے تو دیکھا سامنے سے ہمارے گروپ کے وہ افراد بھیگتے ہوئے چلے آرہے ہیں جو عرفات میں بچھڑگئے تھے۔رات گئے تک تمام لوگ بخیریت پہنچ گئے تھے اور یقین کریں ایک دوسرے کو دیکھ کر اتنے خوش ہوئے کہ جیسے کراچی میں اچانک ہونے والے ہنگامے کے دن گھر والے سب کی واپسی پر سکھ کا سا نس لیتے ہیں ! چونکہ سب تھکے ہوئے تھے اور رات بھی زیادہ ہوگئی تھی لہٰذا مختصر روداد سن کر اور مبارک باد دے کر سوگئے ۔

حج کے بعد
چونکہ بعض افرد رات دیر سے پہنچے تھے لہٰذا گھر والوں سے دیر تک گفتگو کرتے رہے۔اور تا ثرات بتاتے رہے تھے۔ بڑے جذباتی مکالمے سننے کو ملے۔ حج کے بعد کے احساسات سنبھالے نہیں جارہے۔ اس روحانی تجربے کو سمجھانا اتناآ سان نہیں! خیالات مجتمع نہیں ہو پارہے!سنا تھا کہ حج کے بعد گھر اور گھر والے بری طرح یاد آتے ہیں ہم نے بھی اس کا مظاہرہ دیکھا ۔

اگلی صبح جمعہ تھا لہٰذا تما م افراد سوائے ان کے جو پاﺅں کے چھالوں یا پھر طبیعت کی خرابی کے باعث آرام کرنے پر مجبور تھے سب صبح ہی صبح حرم روانہ ہوگئے۔مکہ میں ہمارا چوتھا جمعہ ہے ما شاءاﷲ! یہاں ویسے بھی بہت اہتمام ہوتا ہے اس دن کے حوالے سے! آج تو گویا عید ہی ہے! سب خوش ہیں اور ایک دوسرے کو مبارکباد اور تحفے دے رہے ہیں۔ ہماری ساتھی کاموبائل بارش میں بھیگنے کی وجہ سے نا کارہ ہوگیا تھا اسے خشک کیا جارہا ہے تاکہ ان کے روابط بحال ہوسکیں۔

حرم ہنوز فل ہے اور سڑکیں انسانی سروں سے سجی ہیں! اب حج سے فراغت کے بعد لوگ بیت اﷲ کا طواف کر رہے ہیں یا پھر بازاروں کا ! حج کے دوران یا پھر اس کے بعد تجارت کا اذن ا لٰہی تو گویا شا پنگ کا کھلا اجازت نا مہ ہے ۔کچھ لوگ جدہ یا پھر اپنے رشتہ داروں کے گھر بھی ملا قات کو جارہے ہیں۔ الوداعی طواف اور عمرے میں بڑا رش ہے۔

جب سب مل کر بیٹھے تو اپنے اپنے تجربات ایک دوسرے سے شئیر کررہے ہیں۔ ہماری ایک ساتھی نے ہنستے ہوئے یاد دلایا کہ کس طرح سڑک کے کنارے مالٹے دانتوں سے چھیل چھیل کر کھائے جارہے تھے جیسے کراچی کی سڑکوں پر فقیرنیاں ! ” انتم الفقرائ‘ ‘ اﷲکا ارشاد یاد آیا تو اپنی حیثیت بھی ! بے ساختہ منہ سے نکلا ہاں ہم ہی تو اس کے محتاج ہیں وہ توغنی ہے ۔!

کسی نے توجہ دلائی کہ دوسری اقوام کتنی محبت اور خوب صورتی سے ایک دوسرے کو حج کی مبارکباد دے رہی تھیں اور ہم؟شرمندگی ہوئی اور شکوے شکایات چھو ڑ کر ایک دوسرے سے پہلے کی طرح شیروشکر ہوگئے۔ دعوتوں کا سلسلہ بھی پھر سے شروع ہوگیا ۔ دم شکر (قربانی) کا کچھ گوشت آیا تھا وہ پکوا کر لایا گیا پھر ہم سب نے مل کر کھایا ۔

اگلے دن سے پرانا شیڈول شروع ہوگیا۔چونکہ یہاں ہمارا آخری ہفتہ چل رہاہے لہٰذا اب ہم ہرچیز کو بہت قدر سے دیکھ رہے ہیں! ہم یہاں کی کیاکیا باتیں مس کریں گے؟؟ لسٹ بنانی شروع کی ، سب سے پہلے تویہاں لوڈ شیڈنگ نہیں! موبائل گلے میں ڈالے پھرتے ہیں ،چھننے کا کوئی خطرہ نہیں! میڈیا سے دور ہونے کی وجہ سے بے ہودہ اشتہارات اور بارود بھرے ٹاک شوز سے محفوظ! اور سب سے بڑھ کر اس مسئلے سے نجات کہ کیا پکایا جائے ؟ (بس ہوٹل کا مینو دیکھ کر آرڈر کرنا !حالانکہ کھانے کی شکل اور ذائقہ دیکھ کر گھر کا کھانا یاد آتا ہے) کون سا آئٹم شارٹ چل رہاہے ؟ کس چیزکی قیمت بڑھی؟ وغیرہ وغیرہ ۔یہ تو ضمنی باتیں ہیں ورنہ یہاں جو ہے وہ تو سب کچھ اس قابل ہے کہ اسے نوک زباں اور قلم پر رکھاجائے۔ جلوہ جاناں بیان کرنے سے دل کب بھرتا ہے؟ یہاں کی روشنیاں کیا ہم کہیں اور پاسکتے ہیں ؟؟

حج کے تجربے کو ایک دوسرے سے شئیر کرنا ایک روحانی سرشاری عطا کردیتا ہے۔گناہوں سے پاک ہونے کا احساس! کیا واقعی ہمارے بائیں ہا تھ کے فرشتے کو نیا نکور رجسٹر دے دیا گیا ہے پرانا ریکارڈ ضائع کرکے! اس فرشتے نے توکچھ آرام کا منصوبہ بنایا ہوگا یا شاید اونگھنے کا مگر؟؟؟ ہماری گفتگو اور رویہ، لہجہ اور زبان اور کچھ نہیں تو دل میں آنے والے دوسروں کے بارے میں خیالات اس کو چوکنا رکھتے ہیں! اور وہ شش وپنج میں ہے کہ اس کو نوٹ کرے یا نہ کرے؟ ایک طرف ہمارا ہائی پروفائل منصب ! اﷲکے دربار سے واپسی اور دوسری طرف اعمال و افعال؟خیر یہ کشمکش تو ہمیں بھی الرٹ رکھتی ہے ! حاجی ! حاجی کی پکار کا ہم نوٹس نہیں لیتے مگر پتہ چلا کہ ہمیں ہی مخاطب کیاجارہا ہے؟؟اس رتبے اور اعزاز کی حفاظت آسان نہیں! سفید اجلے دامن پر تو ذرا سا داغ بھی نمایاں رہتا ہے! اﷲکرے کہ ہم اپنے حج کی حفاظت کرنے میں کامیاب ہوسکیں آمین۔ ہمارے لیے حج سب سے بڑی عبادت ہے، جس میں جان ،مال اور وقت کی قربانی دے کر سمجھتے ہیں کہ اﷲ بس ہم سے راضی ہی راضی! سوچنے کی بات ہے کہ مشرکین مکہ تو دن رات طواف اور عمرے کرتے تھے سب کچھ ان کے لیے کھیل تھا مگر پھر بھی وہ اﷲکو راضی نہ کرسکے تھے! کیوں ؟ یقیناً عقیدے اور عمل کی درستگی اسکی اہم شرط ہے ! اﷲ ہم سب کو ایمان کی حالت میں رکھے۔

حج کی روداد مکمل ہونے کے بعد اس مضمون کا اختتام ہوجانا چاہئے اور قارئین نے بھی سکون کا سانس لیا ہوگا مگر ابھی ہمارا سفر مدینہ باقی ہے اس کے علا وہ مکہ میں بھی ایک ہفتہ کا قیام اور ہے لہٰذا آپ کومزید ہمارے ساتھ رہنا ہوگا!

جاری ہے
Farhat Tahir
About the Author: Farhat Tahir Read More Articles by Farhat Tahir: 72 Articles with 74509 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.