ڈاکٹر فوزیہ چودھری
افغان صدر جناب حامد کرزئی بڑے دور کی کوڑی لائے ہیں۔ جناب صدر نے کیا
سنہری بات کی ہے کہ دل باغ باغ ہو گیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ افغانستان پاکستان
کا جڑواں بھائی ہے لیکن بھارت عظیم دوست ہے۔ انہوں نے یہ بات دلی میں بھارت
کے ساتھ سٹریٹیجک معاہدے کے بعد منعقد ہونے والی ایک تقریب سے خطاب کرتے
ہوئے کہی ۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے ساتھ سٹریٹیجک معاہدے کا پاکستان پر
کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ بھارت نے افغانستان کی تعمیر نو میں بہت اہم کردار
ادا کیا ہے اور نیٹو فورسز کی واپسی کے بعد بھی بھارت افغان سیکورٹی فورسز
کی تربیت میں اہم کردار ادا کرے گا۔ اس کے علاوہ ہائیڈرو کاربن اور معدنیات
کے لئے کان کنی کرے گا اور افغان طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے
بھارتی یونیورسٹیوں میں سکالرشپ دے گا۔
افغان بھارت سٹریٹیجک گٹھ جوڑ کوئی ایک دو دن میں نہیں ہو گیا بلکہ اس کے
پیچھے بھارت کی دس سالہ موقع پرستی اور موقع شناسی ہے ۔ بھارت کی بنیاءشاطر
حکومت نائن الیون کے بعد کی ساری صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے تھی۔ اسے
خطے میں اپنی اہمیت اجاگر کرنے اور پاکستان سے دشمنی کرنے کا ایک اچھا موقع
ہاتھ لگا اور بھارت نے کوئی موقع ضائع کئے بغیر اس صورت حال کا پورا پورا
فائدہ اٹھایا۔ پاکستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ افغانستان میں اپنے ڈیڑھ درجن
کے قریب قونصلیٹ قائم کردئے جو ”را“ کے تعاون سے پاکستان میں دہشت گردی کی
کارروائیوں میں ملوث ہیں۔سڑکیں وغیرہ تعمیر کرنے اور افغانستان میں جنگ کے
بعد تعمیر نو کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے اور افغانستان میں اپنی
موجودگی کا جواز پیدا کرنے کے لئے بھارت نے ہر حربہ آزمایا اور آخرکار وہ
امریکہ کی ایماءپر کرزئی حکومت کو ٹریک پر لانے میں کامیاب ہو ہی گئی۔
بھارت کی انہی کوششوں کے نتیجے میں سٹریٹیجک ڈائیلاگ ہو رہے ہیں۔
بھارت کے ساتھ افغانستان کے ان حالیہ سٹریٹیجک ڈائیلاگ اس وقت تک پاکستان
کے لئے قابل اعتراض نہیں ہیں جب تک ان کی حیثیت معاشی شئیرنگ تک ہے کیونکہ
اس سے پہلے امریکہ کی مرضی سے طے پانے والے پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے
پر بھی جس کا سراسر فائدہ بھارت کو تھا پاکستان نے ایک لفظ بھی اعتراض کا
نہیں نکالا۔ حالانکہ دیکھا جائے تو اس معاہدے کی رو سے بھارت کو اپنی
مصنوعات وسطی ایشیائی اور یورپی منڈیوں تک پہنچانے کے لئے پاکستان کی
راہداری مل گئی تھی اور بھارت کا معاشی طور پر اس میں فائدہ ہی فائدہ تھا۔
دیکھا جائے تو اپنے ازلی دشمن کو معاشی فائدہ پہنچانا بڑے حوصلے کاکام تھا
مگر پاکستان نے یہ حوصلہ دکھا یا اور بھارت نے اس سے معاشی فائدہ اٹھایا۔
وجہ یہ تھی کہ اس میں خطے کی معاشی ترقی مضمر تھی اور یہ معاہدہ خطے میں
امن وامان قائم کرنے میں ممد ومعاون تھا کیونکہ اس صورت میں بھارت کو
پاکستان کے ساتھ مخاصمت کی پالیسی ترک کرکے حالات کو معمول پر رکھنے کی
پالیسی اپنانا تھی صرف اسی صورت میں پاکستان اپنی راہداری بھارت کو تجارت
کی غرض سے استعمال کرنے کے لئے دے سکتا تھا۔ اس ایک معاہدے سے پاکستان کی
نیت کا اندازہ دنیا کو ہوجانا چاہئے تھا کہ وطن عزیز خطے میں امن کے قیام
کے لئے کس حد تک جا سکتا ہے۔
اس پس منظر کی روشنی میں اگر افغانستان کے ساتھ بھارت کے حالیہ معاہدوں کو
دیکھ کر پرکھا جائے تو پاکستان کو اس وقت تک ان معاہدوں پر کوئی اعتراض نہ
ہے جب تک کہ یہ معاشی شئیرنگ تک رہتے ہیں کیونکہ ایک پرامن اور ترقی پذیر
افغانستان دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان کے بھی بے حد حق میں ہے۔ لیکن
اگر یہ معاشی شئیرنگ فوجی اور عسکری شئیرنگ میں بدل جاتی ہے تو پھر اس
سلسلے میں پاکستان کے شدید تحفظات ہیں۔ کیونکہ بھارت پاکستان کا ایک ایسا
دشمن ہے جس پر کسی بھی وقت اور کسی بھی لمحے اعتبار نہیں کیا جا سکتا
کیونکہ بھارت پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع حاصل کرنے میں کبھی
بھی غلطی نہیں کرتا۔
بھارتی وزیرخارجہ ایس ایم کرشنا کے مطابق بھارت اور افغانستان کے درمیان طے
پائے جانے والے معاملات میں افغاستان میں قیام امن ، دہشت گردی کے خلاف جنگ
اور باہمی دوطرفہ امور کے علاوہ سیکورٹی معاہدہ بھی شامل ہے۔ افغانستان کی
سیکورٹی کے حوالے سے اگر بھارت افغان سیکورٹی فورسز کو مسلح کرنا اور تربیت
دینا شروع کر دے گا تو پاکستان کے لئے یہ تشویشناک بات ہے۔ کیونکہ کرزئی
حکومت افغانستان کی اکثریت پشتونوں کو (جو کہ افغانستان کی آبادی کا ساٹھ
فیصد سے زیادہ حصہ ہے) نظر انداز کر کے اقلیت شمالی اتحاد کو تربیت دے گی
اور اسلحہ سے لیس کرے گی۔ اس سے سراسر شمالی اتحاد والوں کو تو فائدہ ہو گا
اور اکثریت کھڈے لائن لگ جائے گی۔ اگر اس معاہدے پر عمل درآمد ہوتا ہے تو
شمالی اتحاد والوں کی استطاعت کار بڑھ جائے گی اور طاقت پکڑنے کی صورت میں
وہ کبھی بھی چین سے نہیں بیٹھیں گے نیتجتاً خطے میں بد امنی اور عدم
استحکام پیدا ہوگا ۔ خصوصاً ان حالات میں جب بھارت شمالی اتحاد والوں کی
پشت پناہی کر رہا ہوگا۔ لہٰذا پاکستان کی سالمیت اور بقاءشدید خطرے میں پڑ
جائے گی اور بھارت ہماری آزادی اور خودمختاری پر شب خون مارنے کا کوئی موقع
ہاتھ سے جانے نہیں دے گا۔
بھارت ان سٹریٹیجک ڈائیلاگ کی آڑ لے کر اپنی مسلح افواج افغانستان کی
سرزمینپر اتارے گااور افغان سیکورٹی فورسز کی تربیت کی بجائے پاکستان کی
مغربی سرحد پر خطرے کی طرھ منڈلائے گا اور ایک تیر سے دو شکار کرے گا۔
افغانستان میں بھارتی سیکورٹی فورسز کی موجودگی چین کے لئے تشویشناک ہوگی
کیونکہ بھارت اس طرح چین کی براہ راست نگرانی کر سکے گا اور امن کے خلاف
جارحیت کا ارتکاب کرنے میں اسے آسانی ہو گی۔ امریکہ اور بھارت پاکستان پر
دباؤ بڑھانے اور گھیرا تنگ کرنے کے لئے اس طرح کے اقدامات کر رہے ہیں تاکہ
پاکستان کی صلاحیتوں کو خطے میں امریکی مفادات کی خاطر استعمال کیا جا سکے۔
یہ ابھی صرف معاہدے ہوئے ہیں ان پر عمل درآمد ابھی شروع نہیں ہوا اور نہ ہی
بھارت کو وہ اثر و رسوخ ملا ہے جو ان معاہدوں پر عمل درآمد ہونے کے بعد ملے
گا مگر انہوں نے پاکستان کے خلاف کارروائیاں ابھی سے شروع کر دی ہیں ۔ تین
تین سو سے زائد بظاہر افغان طالبان پاکستان کی سرحد میں داخل ہو کر بارڈر
پر موجود پاکستانی سیکورٹی فورسز کی چوکیوں پر مسلح حملہ کرتی ہے اور کئی
بار ہمیں جانی اور مالی نقصان پہنچانے کا باعث بنتی ہے۔ لہٰذا افغانستان
میں بھارتی فوجوں کی موجودگی پاکستان کے لئے کبھی بھی خوش آئند نہیں ہو گی
۔اس سے پاکستان کے خلاف نہ صرف یہ کہ کارروائیاں بڑھیں گی بلکہ خطے میں عدم
استحکام بھی پیدا ہوگا۔
امریکہ کو یہ بات اچھی طرح باور ہے کہ اس خطے میں جاری امریکی مفادات کی یہ
جنگ پاکستان کی مدد کے بغیر جیتنا بے حد مشکل ہے۔گویا امریکہ اس جنگ میں
پاکستان کی سٹریٹیجک اہمیت سے بخوبی واقف ہے۔مگر امریکہ پاکستان کے مفادات
کو یکسر نظرنداز کر محض اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے ہمیں استعمال کرنا
چاہتا ہے۔اور پاکستان کے سرمو انکار کرنے سے سیخ پا ہو جاتا ہے۔اور پھر
پاکستان کو سبق سیکھانے اور ٹریک پر لانے کے لئے بھارت کو آگے لا کر اور
پاکستان کے مدمقابل کھڑا کر کے دباؤ بڑھانا چاہتا ہے ۔ افغانستان میں موجود
امریکی فوج کے سابق کمانڈر انچیف جنرل میک کرسٹل نے اپنی برطرفی کے وقت
اپنی حکومت کو افغان جنگ کے بارے میں جو ریکمنڈیشنز دی تھیں ان کے مطابق
بھارت کو افغانستان میں اپنے حصے سے زیادہ رول دینے سے خطے میں عدم استحکام
پیدا ہوگا ۔
یہ معاہدہ بھی دراصل امریکہ کی اس ناراضی کا ہی شاخسانہ ہے جو حقانی نیٹ
ورک کے خلاف پاکستان کے انکار سے پیدا ہوئی۔امریکہ دراصل اپنی رعونت میں حد
سے زیادہ بڑھ گیا ہے اور وہ کسی کو خاطر میں لانے کے لئے تیار نہیں
۔پاکستان کی تو چھوٹی سی نہ بھی امریکہ کے لئے ناقابل برداشت ہو جاتی ہے۔
امریکہ نے پاکستان کو اقوام عالم میں تنہا کرنے کے لئے اپنے تئیں کوئی کسر
اٹھا نہیں رکھی۔ مگر بھلا ہو ہمارے ہمسایہ ممالک چین اور ایران کا جنہوں نے
برملا اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان کا دشمن ہمارا دشمن ہے اور یہ کہ اگر
پاکستان کے خلاف کویہ بھی بیرونی جارحیت کا مرتکب ہوتا ہے تو وہ پاکستان کا
بھرپور ساتھ دینگے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ افغانستان بھی چونکہ ایک برادر
اسلامی ملک ہے اور وہ اپنے منہ سے برملا جڑواں بھائی کی اصطلاح بھی استعمال
کر رہے ہیں پاکستان کے تحفظ کی ضمانت دیتا مگر افسوس صد افسوس کہ اس نے
جرواں بھائی کے ازلی دشمن کے ساتھ نہ صرف دوستی اور محبت کی پینگیں بڑھانا
شروع کر دی ہیں بلکہ جڑواں بھائی کے خلاف اس ازلی دشمن کو جارحیت کے مرتکب
ہونے کا پورا پورا موقع بھی استعمال کر رہا ہے۔
آخر عالم اسلام کو عقل کب آئے گی اور وہ کب اپنے اجتماعی مفادات کی خاطر
اپنے انفرادی رویے تبدیل کریں گے۔اگر آپ کو خود اپنے مفادات کے تحفظ کی فکر
نہیں تو کسی کو کیا پری ہے کہ وہ آپ کے مفادات کے تحفظ کے لئے سرگرداں ہوں
۔ وقت بہت تیز رفتار ہے وہ اپنی ڈگر سے چلتا رہتا ہے کسی کا انتظار نہیں
کرتا ۔ وقت کا ساتھ صرف وہی قومیں اور افراد دے سکتے ہیں جو وقت کی نبض کو
پہچانتے ہوں ۔ امریکہ اور اس کے اتحادی صیہونی طاقتیں تو مسلمانوں کو شکست
دینے اور نیچا دکھانے کی اپنی سی کوششیں کریں گی۔ ہمیں خود وقت کی نبض
پہچاننا چاہئے ۔ افغانستان کو امریکہ کل بھی تنہا چھوڑ گیا تھا اور آئندہ
بھی اپنے منتخب اہداف کو حاصل کرنے کے بعد تنہا چھوڑ جائے گا پھر یہی
افغانستان ہو گا اور یہی پاکستان ہو گا وہی ہمسائیگی ہو گی وہی رشتے داریاں
ہو گی اور بھارت فصلی بٹیروں کی طرح امریکہ کے افغانستان سے نکلتے ہیں غائب
ہو جائے گا ۔ |