صہیونیوں اور دشمنان اسلام و
پاکستان کی خونی دولت کی فراوانی سے قائم و دائم مغربی زرائع ابلاغ پاکستان
اور اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے فرضی جعلی اور جھوٹی رپورٹیں شائع کر نے
میں ید طولی رکھتا ہے۔ کابل میں برطانوی اور امریکی افواج کی وہ درگت بن
رہی ہے جسکا انجام نوشتہ دیوار شکست کی صورت میں منکشف ہوچکا ہے۔ مغربی
میڈیا کی شرانگیز فتنہ پروری اور پاکستان پر غیر سروپا و بے محابا الزامات
کی بوچھاڑ کا بڑا مقصد جہاں عالم اسلام کے خلاف نفرت اور حقارت کو
بڑھاوادینا ہے تو وہاں شدت پسند امریکی اور اسرائیلی تھنک ٹینکز امت مسلمہ
کو ایٹمی طاقت سے محروم کرنے کی خواہشات کے پجاری بنے ہوئے ہیں۔ برطانوی
اخبار گارڈین نے رپورٹ شائع کی ہے کہ پاک افغان سرحد کے آر پار خطرات ہی
خطرات ہیں ایک طرف کوئی شخص آزادی سے نقل و حرکت نہیں کرسکتا جبکہ دوسری
جانب ایک ایسی گھمبیر فضا چھا چکی ہے کہ وہ معاشی میدان میں آگے جانے کی
بجائے اسکی ترقی کا عمل جمود کا شکار بن چکا ہے۔ افغانستان میں ہونے والی
خون ریزی اور قتل و غارت نے اس بدنصیب ملک کو جہنم میں تبدیل کردیا۔اخبار
کے مطابق بش کی حماقت کا اصل نشانہ پاکستان بنا۔ اگر پاکستان بش کے جال میں
نہ پھنستا تو پاکستان بھارت اور چائنا کے ساتھ اکنامکس فورم میں شامل ہو
چکا ہوتا ۔قبائلی علاقہ سرحد کی دونوں اطراف میں پھیلا ہوا ہے۔ ہر ڈرون
استبدادیت پاکستانیوں کے دلوں میں امریکی نفرت کے ناسور کو مذید گہرا کرتا
ہے۔ امریکہ اب پاکستان کو اپنا دشمن سمجھتا ہے اور امریکی قوم کی اکثریت
رائے زنی کرتی ہے کہ پاکستان کو سزا ملنی چاہیے۔گارڈین کی رپورٹ سچ اور
فریب کا ملغوبہ ہے۔رپورٹ کے کئی نقاط حقائق پر مبنی ہیں اور کچھ کا دور دور
تک پاکستان سے کوئی ناطہ نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کو بش کی شروع کردہ
امریکن نواز پالیسیوں سے ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے۔مشرف نے بلا سوچے سمجھے
امریکی ڈکٹیشن پر عمل کیا کیونکہ امریکہ نے ایک امر کو طویل عرصے تک
حکمرانی کرنے کی لالچ دی۔مشرف تمام فیصلے خود کرتے تھے۔مشرف بار بار کہہ
چکے ہیں کہ اس نے پارلیمنٹ سیاسی قیادت سے مشاورت کی تھی مگر واقفان حال
کچھ اور بیان کرتے ہیں کہ مشرف دور ون مین شو تھا اور وہ ریاست کا بے تاج
بادشاہ تھا۔ گارڈین کی رپورٹ کی روشنی میں اگر مشرف کے فیصلے کا دوراندیشی
سے تجزیہ کیا جائے تو سچ سامنے آتا ہے کہ مشرف کا ون مین فیصلہ پاکستان کو
لے بیٹھا۔مشرف کی بجائے اگر ریاستی حکومت کی طنابیں کسی سیاسی یا جمہوری
سرکار کے پاس ہوتیں تو وہ مشرف کی طرح اندھا دھند فیصلے کرکے ملک و قوم کو
امریکی غلامی اور دہشت گردی و خود کش حملوں کے آدم خور جبڑوں کے سپرد نہ
کرتی۔مشرف قوم کو الو بناتے رہے کہ امریکن نوازی کے عوض ملک میں معاشی
استحکام آئیگا۔ وقت نے ثابت کردیا ہے کہ مشرف کے تمام دلائل باطل تھے۔یہ
بھی حقیقت ہے کہ اگر مشرف بش کی آمرانہ پالیسیوں کے سازشی جال میں نہ
پھنستے تو یہاں نہ تو روزانہ دہشت گردی کے بازار سجتے اور نہ ہی خود کش
بمباری ہزاروں معصوم افراد کو آگ و خون کا ڈھیر نہ بناتی۔یہ حقیقت روز روشن
کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ اگر مشرف وائٹ ہاؤس سے دور رہتے تو پاکستان مستحکم
معیشت کی راہ پر گامزن ہوتا روزگار کے مواقع پیدا ہوتے اور پاکستان عالمی
مالیاتی فورمز کا حصہ ہوتا۔مشرفی آمریت اور امریکی پالیسیوں کی گونگی بہری
تقلید نے ہر شعبہ زندگی میں گھٹا ٹوپ اندھیرے بھر دئیے۔ اخبار لکھتا ہے کہ
ڈیورنڈ لائن کے آر پار رہنے والے قبائلی ہم نوالہ اور ہم پیالہ ہیں انکی
رشتہ داریاں ہیں وہ آزادانہ اور بلاخوف و خطر سرحد کے آر پار جاتے رہتے
ہیں۔یہ سرحد طویل ترین اور دشوار گزار ہے۔ قبائلیوں کو آج تک آر پار جانے
سے نہیں روکا جاسکا یہ قبائلی کٹ تو سکتے ہیں مگر اپنی آزادی پر قدغن قبول
نہیں کرسکتے۔ جدید ترین سائنسی آلات کے باوجود ناٹو قبائلیوں کی آمد و رفت
کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی۔ دراصل امریکہ نے نو دو گیارہ کے بعد
افغانستان پر ایسی جنگ مسلط کی جسکے بارے میں اسکی تیاری نہ تھی۔ امریکہ
کابل میں اٹھائی جانیوالی ہزیمت کا ملبہ پاکستان کے سر تھوپنا چاہتا ہے۔
پاکستان کو انتہائی احتیاط اور تدبر کی ضرورت ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمیں
لینے کے دینے پڑ جائیں۔ پاکستان کے خلاف مغربی میڈیا کی بے لگام پراپگینڈہ
مہم کے پس چلمن حاسدین کی وہ ریشہ دوانیاں برسرپیکار ہیں جنکی رو سے ایک
طرف پاکستان کو اتنا کمزور بنادیا جائے کہ وہ امریکہ کی طفیلی ریاست کا
کردار ادا کرتا رہے تو دوسری جانب انکل سام اور اسرائیل کو پاکستان کی
جوہری قوت ایک آنکھ نہیں بھاتی وہ ہمارے جوہری اثاثوں کو پل بھر میں تباہ
کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ میںپچھلے دنوں ہمارے ایٹمی سائنسدانوں
اور جرنیلوں کو بدنام کرنے کی مہم زور شور سے چلائی گئی۔ اخباری داستان میں
1998 کے ایک خط کی نقل شامل ہے دعوی کیا جاتا ہے کہ یہ خط شمالی کوریا نے
ڈاکٹر کیو خان کو لکھا گیا۔ یہ خط ایٹمی ڈیل کے لئے شمالی کورین کی حکمران
جماعت کے سیکریٹری جان اپیوہویہو نے لکھا۔اسی داستان کے ایک صفحے پر ایٹمی
راز کی منتقلی اور سودے کی رقم کا زکر شائع کیا گیا ہے جس میں درج ہے کہ
پاکستانی جرنیلوں نے شمالی کوریا سے ایٹمی ڈیل کے35 لاکھ ڈالر وصول
کئے۔امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان میں حالات کو بگاڑ دیا جائے اور پھر دنیا
کی آنکھوں میں دھول جھونک کر پوری دنیا کو ڈرایا جائے کہ پاکستانی ہتھیار
غیر محفوظ اور روئے ارض کے لئے خطرناک ہیں تاکہ انہیں مشترکہ کنٹرول میں دے
دیا جائے۔ امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن کئی بار اعتراف کرچکی ہیں کہ
امریکہ نے منصوبہ تشکیل دے رکھا ہے۔ اگر ہمیں خدشہ ہوا کہ دہشت گرد
پاکستانی وار ہیڈز پر ہاتھ صاف کرسکتے ہیں تو فوری کاروائی ہوگی مگر ایک
پریشان کن بات یہ بھی ہے کہ امریکی منصوبے کے بعد پاکستان کے چند ایٹمی
ہتھیار تباہی سے بچ گئے تو پاکستان کو اپنے دشمنوں کے خلاف استعمال کرنے کا
پورا حق حاصل ہوگا۔ امریکہ میں ایک نئے پلان پر کام ہورہا ہے کہ جرنیلوں کو
ایٹمی تجارت کا ملزم نامزد کرکے unoپاکستان کو ڈی نیوکلیر سٹیٹ کا درجہ
دلایا جائے اور uno ڈمی قراداد کی رو سے ایٹمی کارخانوں کو امریکی کنٹرول
میں دیا جاوے۔امریکی جریدے وال سٹریٹ جنرل میں ناٹو سے سیکریٹری جنرل کا
بیان شائع ہوا تھا کہ پاکستان کی جوہری لیبارٹریوں کی حفاظت کرنا ہمارا فرض
ہے۔پاکستان میں سینٹری فیوجز اور افزودہ یورینیم استعمال کیا جاتا ہے جبکہ
شمالی کوریا پلوٹینیم پر انحصار کرتا ہے۔یوں شمالی کوریا کو ایٹمی مواد اور
راز فروخت کرنے کے امریکی الزامات درست نہیں۔ڈاکٹر خان کا موقف ہے کہ یہ خط
13سال پرانا ہے اور وہ اسے کوئی اہمیت نہیں دینا چاہتے۔ ڈاکٹر خان کا کہنا
ہے کہ خط کی اشاعت پاک فوج کو دباؤ میں لانے کا ایک حربہ ہے۔جوہری ہتھیاروں
کی حفاظت کے لئے پاکستان نے ناقابل تسخیر کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم قائم
کیا۔پاکستانی مخالفت میں مغربی زرائع ابلاغ کی میڈیا وار دشمنان پاکستان کی
نئی چالیں ہیں۔حکومت کوچاہیے کہ وہ شمالی کوریا سے سرکاری سطح پر خط
تردیدحاصل کیا جائے تاکہ یہو و ہنود کے امریکی عزائم چکنا چور ہوجائیں اور
مشترکہ کنٹرول والہ نظریہ کبھی عملی شکل کا روپ نہ دھار سکے۔دنیا کو یاد
رکھنا چاہیے کہ پاکستانی ایٹمی پراجیکٹ اتنا ارزاں و سستا نہیں کہ اسے 35
لاکھ میں فروخت کردیا جائے۔ |