ڈمپر گردی۔۔۔حقیقت یا پروپیگنڈہ
(Saeed ullah Saeed, Karachi)
|
ڈمپر گردی
تحریر: سعیداللہ سعید
PMML یعنی پاکستان مرکزی مسلم لیگ کو قومی سیاست میں داخل ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا لیکن اپنے فلاحی منصوبوں اور حال ہی میں دریائے سندھ کے بندر بانٹ سمیت صوبہ سندھ میں جاری لا قانونیت کے خلاف حقوق سندھ مارچ کرنے کے بعد وہ تیزی سے عوامی توجہ حاصل کر رہی ہے۔
پارٹی کے گذشتہ کچھ عرصے سے جاری سر گرمیوں کو جب ہم دیکھتے ہیں تو وہ ایک طرف حالات کے جبر کے سامنے بے بس اور مایوس نوجوانوں کو مختلف منصوبوں کے ذریعے امید دلا کر نا صرف انہیں کار امد شہری بنا کر اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی کوشش کر رہی ہے بلکہ اس کام کے ذریعے وہ حکومت کا ہاتھ بھی بٹھا رہی ہے۔
PMML مختلف عوامی ایشیوز کے اوپر اپنا موقف مختلف شکلوں میں سامنے لاتی رہتی ہے۔
کراچی میں پے در پے ٹریفک حادثات بالخصوص ڈمپرز کی ٹکر سے بڑھتے ہوئے انسانی جانوں کی ضیاع پر پارٹی نے گذشتہ روز کراچی پریس کلب پر احتجاج ریکارڈ کرایا جسے ڈمپر مافیا کو لگام دو کا نام دیا گیا۔
یہ احتجاج اگرچہ وقت کی ضرورت ہے کہ انسانی جانوں کو یونہی بے لگام ڈمپرز کے سامنے ضائع ہونے کے لیے چھوڑا نہیں جا سکتا۔ میں مگر اس احتجاج میں نوٹ کیے گئے کچھ نکات پر بات کرنا چاہتا ہوں۔
*مرکزی مسلم لیگ نے اس احتجاج کے لیے جو نعرہ دیا وہ تھا۔۔۔وہ تھا ڈمپر مافیا کو لگام دو۔
مافیا کی اگر ہم مختصرا تعریف کریں تو وہ کچھ یوں بنتا ہے۔ وہ گروہ جو منظم طور پر کسی غیر قانونی و غیر اخلاقی کام میں ملوث ہو۔۔۔ اپنے غیر قانونی دھندے کو تحفظ اور عروج دینے کے لیے وہ قانون کو خاطر میں نا لاتا ہو بلکہ سسٹم میں موجود کالی بھیڑیوں کے ذریعے اسے خریدنے کی کوشش کر رہا ہو۔۔۔۔عام عوام کو خاطر میں نا لانا اور ان کو مالی و جانی نقصان پہنچانے پر فخر کرنا کسی بھی مافیا کے لیے قابل فخر ہوتا ہے۔
ڈمپر والے مافیا کے زمرے میں آتے ہیں یا نہیں میرے خیال میں اس پر ابھی مزید بحث ہونی چاہیے. کوئی اگر یہاں پر یہ پوائنٹ اٹھاتا ہے کہ کراچی کے زمین اور پہاڑیوں سے بعض دفعہ جو ریتی، بجری چوری چھپے نکالا جاتا ہے تو وہ انہی ڈمپروں کے ذریعے سپلائی ہوتی ہے تو پھر کیوں نا ان کو ڈمپر مافیا کہا جائے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اس مسئلے کے بھی مختلف پہلو ہیں۔ مثلا: ہمیں دیکھنا ہوگا کہ آیا ریتی بجری نکالنے کا کام وہ خود کر رہے ہیں یا وہ محض سپلائر یا بڑے سپلائرز کے ساتھ محض کام کرنے والے ہیں؟ اگر تو وہ اس کام میں خود ملوث ہیں تو پھر بے شک آپ انہیں مافیا کا نام دیجیے لیکن یہ نام دینے سے پہلے یہ بھی دیکھیے کہ اس کام میں سسٹم ان کا کس حد تک مدد گار ہے۔
دوسری بات یہ کہ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہر شہر کی ضروریات مختلف ہوتی ہیں مثلا: پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں بڑے بڑے تعمیراتی منصوبے ماحول کے لیے نقصان دہ تصور کیے جائیں گے لیکن کہیں پر اس کے برعکس یہ ترقی کے ضامن بن جاتے ہیں۔
کراچی چونکہ ایک صنعتی شہر ہے اس لیے یہاں پر تعمیراتی صنعت کا پھلنا پھولنا شہر کی ترقی کے لیے اہم تصور کیا جائے گا۔ ظاہر سی بات ہے کہ ان تعمیرات میں استعمال ہونے والی اشیاء میں ریتی بجری دو اہم اور لازم جز ہیں۔ اس کو آپ روک نہیں سکتے کیونکہ اس کو روکنے کا مطلب ہوگا شہر کی ترقی کو روکنا۔ ترقی کی دنیا میں چین ہمارے لیے مشعل راہ ہے اور بی بی سی کے ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں ریت کی کل طلب کا بیس فیصد حصہ چین کو جاتا ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
سوال یہاں پر یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک چلتے ہوئے کان سے ریتی بجری نکالنے پر اچانک کیوں ایک محدود مدت تک کے لیے پابندی لگائی جاتی ہے اور اس دوران وہاں پر ہر قسم کی ایکٹیویٹی غیر قانونی تصور کی جاتی ہے؟ جواب اگر ماحولیات کا تحفظ یقینی بنانا ہے تو کیا متعلقہ لوگ ماحولیات سے جڑے دیگر پہلوو کو درست کرچکے ہیں یا یہ بھی کہیں پیسہ بنانے کا نیا طریقہ تو نہیں۔
جہاں تک بات ہے ڈمپرز کی وجہ سے حادثات کا بڑھ جانا تو یہ ایک آفسوس ناک صورت حال ہے جو کہ فوری توجہ کا متقاضی ہے لیکن ان کے حادثات کے بعد پوری کمیونٹی کو نشانے پر لینا اور انہیں اسی تناظر میں مافیا کہنا میرے خیال میں مناسب نہیں اور اس کی چند وجوہات ہیں مثلا:
*جب کوئی ڈرائیور ڈمپر یا کسی بھی گاڑی کے مالک کے پاس نوکری کرنے کی غرض سے جاتا ہے تو نا صرف ان کا ڈرائیونگ لائسنس چیک کیا جاتا ہے بلکہ ان سے ٹرائی بھی لیا جاتا ہے۔ اگر کار آمد لائسنس کے ساتھ وہ ڈرائونگ ٹیسٹ پاس کر لیتا ہے تو ہی انہیں کام دیا جاتا ہے۔
کسی بھی گاڑی کا مالک کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ ڈرائیور ٹریفک رولز کو نظر انداز کرکے گاڑی سڑکوں پر بے مہار دوڑائے کیونکہ کسی بھی حادثے کی صورت میں ان کی گاڑی کا نظر آتش ہوجانا یقینی ہے۔۔۔بالفرض ان کی گاڑی کو کسی قسم کا نقصان پہنچائے بغیر تھانے منتقل کر بھی دیا جاتا ہے تو بھی لاکھوں کا ٹیکہ گاڑی کے مالک کو لگنا یقینی ہے۔ ایسے میں وہ کیوں چاہے گا کہ ان کا ڈرائیور ٹریفک وائلیشن کرکے ان کی روزی روٹی کو لات مارے۔ اسی وجہ سے میں سمجھتا ہوں کہ ڈمپر چلانے کے کاروبار سے وابستہ افراد کو مافیا یا دہشت گرد کہنا مناسب نہیں۔
اب آتے ہیں اس بات کی طرف کہ آخر اتنے بڑے پیمانے پر شہری بڑی گاڑیوں کا نشانہ بن کر زندگی سے ہاتھ دھو رہے ہیں؟
بنیادی طور پر اس کے کئی وجوہات ہیں مثلا:
*ٹریفک قوانین کا علم نا ہونا *وقت کی قلت یا جلد بازی *رشوت ستانی
پاکستان بھر لیکن کراچی میں بالخصوص ہم دیکھتے کہ بیشتر ڈرائیورز اور موٹر سائیکل سواروں کو ٹریفک قوانین کا علم نہیں ہوتا اور جن کو علم ہوتا بھی ہے۔۔۔دوسروں کی دیکھا دیکھی میں وہ بھی رولز کو فالوو کرنا لازمی نہیں سمجھتے۔ مثال کے طور پر شہر قائد میں بیشتر افراد کو یہ نہیں معلوم کہ سڑک پر مختلف لائنیں بنانے کا مقصد کیا ہے اور کس کو کب اور کونسا لائن استعمال کرنا چاہیے۔ موٹر سائیکل سواروں کی اکثریت سائڈ ویوو مرر کا استعمال نہیں کرتی، ہیلمٹ کو پہننا ضروری نہیں سمجھتے بیک لائٹ اکثریت کی خراب ہوتی اور لائن کی بار بار تبدیلی کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔۔۔لائن کی بار بار تبدیلی LTV اور Htv والے بھی دھڑلے سے کرتے ہیں۔
سب سے بڑا مسئلہ موٹر سائیکل سواروں اور کار سواروں کو یہ درپیش ہیں کہ وہ بلائنڈ اسپاٹ ایریا کا خیال نہیں رکھتے بلکہ بیشتر کو اس حوالے سے معلوم بھی نہیں کہ آخر یہ بلائنڈ اسپاٹ ہے کیا؟
جلد بازی: شہر قائد میں چونکہ زندگی کا دوڑ بہت تیز ہیں۔۔۔مصروفیات بے تحاشہ اور ملازمت کرنے کی جگہوں پر اوقات کار زیادہ ہیں۔۔۔اس لیے ہر بندے کی یہی خواہش و کوشش ہوتی ہے وہ جلد از جلد منزل مقصود پر پہنچ جائے۔۔۔جلد بازی میں بعض دفعہ کی جانے والی غلطیاں حادثات کا سبب بن جاتی ہیں۔
رشوت خوری: کراچی میں رشوت خوری کا بازار کس قدر گرم ہیں۔۔۔یہ اس شہر کا ہر بندہ جانتا ہے۔ بالخصوص گاڑی چلانے والے ڈرائیورز اور بائیک چلانے والے رائیڈرز کو یہ اطمینان ہوتا ہے کہ ٹریفک رولز کی خلاف ورزی کرتے وقت پکڑے جانے کی صورت میں معمولی عوض کے بدلے ان کی جاں خلاصی ہو سکتی ہے۔
بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات کا ایک ممکنہ وجہ بعض ڈرائیورز کی جانب سے منشیات کا استعمال اور اوقات کار کی زیادتی بھی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ان سب مسائل کا تدارک کس کی ذمہ داری ہے؟ تو اس بات کا جواب بھلا اس کے سواء اور کیا ہوسکتا ہے کہ یہ ذمہ داری ان محکموں کی ہے جو اسی بات کی بھاری تنخواہیں لے رہے ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو مرکزی مسلم لیگ کا سندھ حکومت کو اس صورتِ حال کا ذمہ دار قرار دینا تو بنتا ہے اور ان کی جانب سے حکومتی توجہ اس جانب مبذول کرانے کی کوشش قابل ستائش ہیں لیکن ڈمپرز کے کاروبار سے وابستہ افراد کو مافیا اور دہشت گرد قرار دینا درست نہیں۔ یہ اس لیے بھی کہ کراچی کا ایک مخصوص سیاسی پس منظر ہیں۔ لسانی جماعتوں کو اپنے مخصوص سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لیے بزور طاقت و قوت والے بیانات دینے کی ضرورت تو پیش آ سکتی ہے کہ انتشار ہی میں ان کی بقاء مضمر ہے لیکن ان جماعتوں کو محتاط رویہ اپنانا چاہیے جو اپنے فلاحی منصوبوں اور خدمت خلق کے حوالے سے جانی جاتی ہیں۔
تصاویر بشکریہ ٹائمز آف کراچی اور اے آر وائی نیوز۔ |