تقریبا تین ہفتے قبل، مجھے یہ معلوم ہوا کہ عالم اسلام کی عبقری شخصیت،
صاحب فضل وکمال عالم دین، علوم عقلیہ ونقلیہ کے جامع، اسلامی معاشیات کے
ماہر، سیکڑوں کتابوں کے مصنف، حدیث کے شارح اور قرآن کریم کے مترجم و مفسر
شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب –حفظہ اللہ– زامبیا، افریقہ تشریف
لا رہے ہیں۔ لوساکا شہر میں قائم دینی درسگاہ: "الجامعۃ الاسلامیۃ" کے ذمہ
داران نے مفتی صاحب کو اس سفر کے لیے دعوت دی تھی اور جامعہ کو مفتی صاحب
کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔ مفتی صاحب کے اس سفر کا سب سے اہم پروگرام،
جامعہ کے شعبہ عالمیت سے فراغت حاصل کرنے والے طلبہ کو صحیح البخاری کی
آخری حدیث کا درس دینا تھا۔
ہماری خواہش تھی کہ ہم عالم اسلام کے اس عظیم اسکالر کا دیدار، ان سے
ملاقات، سلام و مصافحہ اور ان کے وعظ ونصیحت سے بالمشافہ استفادہ کریں۔ اس
حوالے سے حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب قاسمی شولاپوری (مقیم حال: مون ریز
ٹرسٹ اسکول، مپلنگو، زامبیا) کی الجامعۃ الاسلامیۃ، لوساکا کے نائب مدیر
حضرت مولانا ادریس گنگات صاحب –حفظہ اللہ – سے گفتگو ہوئی۔ ان حضرات کی
گفتگو کے بعد، مولانا شولاپوری نے یہ طے کیا کہ ہم سب اس پروگرام میں شرکت
کےلیے لوساکا چلیں؛ تاکہ مفتی صاحب کے پند ونصائح سے مستفید ہوسکیں۔ انھوں
نے مفتی محمد نعمان صاحب، مفتی محمد آصف صاحب اعظمی اور اس راقم الحروف کو
کہا کہ ہم سب سفر کی تیاری شروع کریں۔ ہم سب نے سفر کی تیاری کی۔ پھر چار
افراد پر مشتمل یہ قافلہ تیس جنوری 2025 کو صبح سویرے "مون ریز ٹرسٹ اسکول،
مپلنگو" سے لوساکا کے لیے کار سے روانہ ہوا۔ ہمارے اسکول کے چیرمین: حضرت
شیخ شاہد متالا صاحب بھی اپنے اہل و عیال اور صاحبزادے: مفتی ابرار احمد
متالا کے ساتھ حضرت شیخ الاسلام کے پروگرام میں شرکت کے لیے لوساکا کا سفر
کیا۔ ہمارا ارادہ تھا کہ ہم رات میں کسی شہر میں ٹھہریں اور اگلے دن، یعنی
31/ جنوری کو لوساکا پہنچیں۔ جب ہم راستے پر تھے؛ تو ہمارے رفیق سفر مفتی
محمد آصف صاحب قاسمی نے مولانا ذکی الرحمان صاحب قاسمی کو اپنے سفر کی
اطلاع دی۔ انھوں نے ہمیں دعوت دی کہ رات میں ہم قیام و طعام ان کی رہائش
گاہ پر کریں۔ مولانا ذکی الرحمن صاحب "آئی کے چیریٹیبل ٹرسٹ" میں خدمت
انجام دیتے ہیں۔ یہ ادارہ لوساکا شہر کے بالکل قریب ہے۔ پھر ہم سے نے ارادہ
کیا کہ ہم سب مولانا ذکی الرحمان صاحب کے یہاں رات میں قیام کریں گے۔ ہم
رات کے تقریبا گیارہ بجے مولانا ذکی صاحب کے قیام گاہ پر پہنچے۔ انھوں نے
ہمارا پرتپاک استقبال کیا۔ انھوں ہمیں فورا کھانا پیش کیا۔ ہم سے نے کھانا
کھایا اور پھر عشاء کی نماز سے فارغ ہوکر سوگئے۔ فجر کی نماز کے تھوڑی دیر
بعد، مولانا ذکی الرحمن صاحب کی رہائش گاہ پر ہی ہم سب نے ناشتہ کیا۔ جزاہ
اللہ احسن الجزاء!
حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب نے یہ طے کیا کہ جانے سے قبل ہم اس ادارے کی
ایک وزٹ کرلیں؛ تاکہ ہم یہاں چلنے والی سرگرمیوں سے واقف ہوسکیں۔ ہمارے
اسکول کے ایک ٹرسٹی جناب یعقوب احمد جی صاحب (جو برطانیہ میں رہتے ہیں،) آج
کل لوساکا میں موجود ہیں۔ مولانا شولاپوری نے ان کو بھی وہاں آنے کی دعوت
دی؛ اس لیے وہ بھی تشریف لائے۔ پھر ہم سب نے "آئی کے چیریٹیبل ٹرسٹ" کی
سرگرمیوں کا مشاہدہ کیا۔ اس ادارے نے بہت ہی کم مدت میں، بہت زیادہ فلاحی
کام کیا ہے۔ اس ادارے نے ایک گاؤں بسایا ہے۔ اس میں تقریبا 193 گھر ہیں جو
غریب مسلمانوں میں تقسیم کیے گئے ہیں۔ وہیں پر ایک خوبصورت مسجد بھی تعمیر
کی گئی ہے۔ اسی جگہ ایک کلینک بھی تعمیر کیا گیا ہے، جس میں لوگوں کو
معمولی خرچ پر علاج و معالجہ کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ اس گاؤں کے
باشندوں کے بچوں کی تعلیم کے لیے گذشتہ سال فروری میں ایک اسلامی اسکول
قائم کیا گیا ہے جس میں نرسری سے بارھویں جماعت تک کی تعلیم دی ہے۔ اسکول
کی عمارت، تعلیمی معیار اور انتظام و انصرام قابل تعریف ہے۔ آئی کے
چیریٹیبل ٹرسٹ کے پلیٹ فارم سے، ان سرگرمیوں کے علاوہ، ملک کے مختلف علاقوں
میں رفاہی وفلاحی سرگرمیاں بھی انجام دی جاتی ہیں۔ اتنی قلیل مدت میں، ایسی
کامیابی بہت ہی کم ادارے کے حصے میں آتی ہے۔
ہمیں پہلے سے یہ اطلاع تھی کہ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی صاحب – حفظہ اللہ–
31/ جنوری کو "مکینی اسلامک ٹرسٹ" کی "مسجد الدعوۃ" میں جمعہ کی نماز سے
قبل خطاب فرمائیں گے؛ لہذا "آئی کے چیریٹیبل ٹرسٹ" کی وزٹ کے بعد، ہم نے
"مکینی اسلامک ٹرسٹ" کا رخ کیا۔ جناب یعقوب احمد جی صاحب اور حضرت مولانا
محمد ابراہیم صاحب کی معیت میں، ہم تقریبا بارہ بجے مسجد پہنچے۔ تھوڑی دیر
بعد، مفتی صاحب حضرت مولانا ادریس گنگات صاحب –حفظہ اللہ– کی معیت میں،
مسجد میں داخل ہوئے؛ جب کہ حفاظتی دستہ کے ارکان ان کے ارد گرد تھے۔ مفتی
صاحب نے خطبہ سے قبل، تقریبا آدھے گھنٹے تک اردو زبان میں حاضرین سے خطاب
کیا۔ پھر انھوں نے جمعہ کا خطبہ دیا اور جمعہ کے نماز کی امامت کی۔ مفتی
صاحب نے آداب معاشرت کو اپنے بیان کا موضوع بنایا۔
مفتی صاحب نے پہلے اسلام کے پانچ شعبے: عبادات، معاملات وغیرہ پر مختصر
روشنی ڈالی۔ پھر انھوں نے معاشرت کے حوالے سے تفصیلی خطاب کیا۔ انھوں نے
فرمایا: لوگوں نے معاشرت کو دین سے خارج سمجھ رکھا ہے۔ مگر اس حوالے سے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی ہدایات موجود ہیں۔ ہمیں ان پر عمل
کرنا چاہیے۔ "المسلم من سلم المسلمون" الحدیث کے ضمن میں فرمایا کہ مسلمان
کی ایک طرح سے اس حدیث میں تعریف ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی مسلمان
سے کسی کو تکلیف پہنچے؛ تو وہ صحیح معنی میں مسلمان نہیں ہے۔ مسلمان جب ایک
دوسرے سے ملتا ہے؛ تو سب سے پہلے وہ السلام علیکم کہتا ہے، پھر کیسے ایک
مسلمان کسی کو تکلیف دے سکتا ہے۔ آپ نے اس حوالے سے ایک مثال دے کر اپنی
بات کو واضح کی کہ اگر کسی شخص کے جسم پر کوئی ایسا زخم ہو، جس سے بدبو آتی
ہو اور اس سے لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے؛ تو اس شخص کو مسجد میں آکر جماعت
سے نماز نہیں پڑھنی چاہیے؛ کیوں کہ جماعت سے نماز پڑھنا سنت موکدہ ہے اور
کسی کو تکلیف سے بچانا فرض ہے۔ انھوں نے ایک دوسری مثال دی کہ "حجر اسود"
کو چھونا، گویا اللہ تعالی سے مصافحہ ہے۔ مگر اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اگر
"حجر اسود" کو بوسہ دینے کے لیے کسی کو تکلیف دینی پڑے؛ تو اسے بوسہ دینا
جائز نہیں؛ کیوں کہ کسی کو تکلیف دینا گناہ کبیرہ ہے۔ اگر آپ سے کسی کو
تکلیف پہنچتی ہے؛ تو قیامت کے دن آپ سے اس کے بارے میں سوال ہوگا، مگر حجر
اسود کے بوسہ دینے کے بارے میں سوال نہیں ہوگا۔ مزید آپ نے فرمایا: سلام
کرنا سنت ہے، اس کا جواب دینا واجب ہے اور مصافحہ کرنا مستحب ہے۔ اب اگر
کسی سے مصافحہ کرنے کی وجہ سے کسی دوسرے کو تکلیف پہنچتی ہو؛ تو مصافحہ سے
اجتناب کرنا چاہیے؛ کیوں کہ ایک مستحب کام کے لیے حرام کے ارتکاب سے بچنا
چاہیے۔ ہم غیبت سے بچیں، بدگمانی سے بچیں۔ آپس میں ایسے رہیں کہ کسی کا حق
کسی پر نہ رہے۔ اللہ تعالی اپنا حق معاف کردیں گے، مگر دوسرے کا حق معاف
نہیں فرمائیں گے۔
مفتی محمد تقی صاحب اور جامعہ میں مقیم مہمانوں کے ظہرانے کا انتظام جناب
محمد سیدات صاحب کے دولت کدے پر تھا۔ حضرت مولانا ادریس گنگات صاحب کے توسط
سے، ہم لوگوں کے قیام و طعام کا انتظام جامعہ پر ہی تھا۔ حضرت نے جمعہ کی
نماز سے قبل، حضرت مولانا ابراہیم صاحب کو میسیج بھیج کر، کھانے کے لیے
وہاں پہنچنے کی اطلاع بھی دی تھی؛ چناں چہ ہم لوگ جمعہ کی نماز کے بعد، ان
کے دولت کدے پر پہنچے اور کھانا تناول فرمایا۔ جزاہ اللہ احسن الجزاء!
کھانے سے فارغ ہوکر، سیدھے الجامعۃ الاسلامیۃ، لوساکا پہنچ کر، ہم سب نے
اپنے سامان اس کمرے میں رکھا، جہاں ہمارے قیام کا انتظام تھا۔ وہیں ہم سب
نے آرام کیا۔ جامعہ زامبیا کا مشہور ومعروف ادارہ ہے۔ یہاں تقریبا 275 طلبہ
زیر تعلیم ہیں جو حفظ، افتا اور عالمیت وغیرہ کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
جامعہ مجلس شوری کی ماتحتی میں چلتا ہے۔ جامعہ کی مجلس شوری کے تمام اراکین
تعلیم و تعلم اور انتظام و انصرام سے دلچسپی رکھنے والے علماء کرام ہیں۔
جامعہ کی عمر ربع صدی کے قریب ہے۔ کسی ادارے کے لیے ربع صدی کوئی بہت بڑی
مدت عمر نہیں ہے۔ مگر اس مدت میں جامعہ نے تعلیمی و تعمیری اعتبار سے جو
ترقی کی ہے، وہ قابل ستائش ہے۔ جامعہ کا دار الاقامہ اور درسگاہیں بڑے اچھے
منصوبے اور خوبصورت ذیزائن سے بنائی گئی ہیں۔ اسی طرح اساتذہ کے لیے جو
فیملی کوارٹرز بنائے گئے ہیں، وہ بھی بہت عمدہ اور اس کا جائے وقوع بھی بہت
مناسب ہے۔ جامعہ کا اندرورنی راستہ بڑا وسیع و عریض اور دونوں طرف بڑے بڑے
درخت لگے ہوئے ہیں، جن کی وجہ فضا بڑی پرسکون لگتی ہے۔ جامعہ کے اندرونی
حصے میں ہر طرف ہریالی کی وجہ منظر بڑا دلکش نظر آتا ہے۔ جامعہ کا تعلیمی
معیار بھی قابل تعریف ہے۔ جامعہ میں اہل علم و فضل اساتذہ کرام کی ایک ٹیم
ہے جو اپنے طلبہ کی صالحیت و صلاحیت کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کر
رہی ہے۔ جامعہ نے اس مختصر دورانیہ میں حفاظ و علما کی ایک بڑی جماعت تیار
کی ہے۔ اللہ اس ادارے کی خدمات کو قبول فرمائیں اور نظر بد سے محفوظ رکھیں!
شیخ الاسلام کا دوسرا پروگرام، بعد نماز مغرب، "مسجد عمر" سے متصل،
"الاحسان" نامی ادارے میں طے تھا۔ شہر کے تاجروں کے درمیان تجارت کے حوالے
سے پروگرام تھا۔ مغرب کی نماز کے بعد، مجمع کی کثرت کی وجہ سے شاید یہ
فیصلہ کیا گیا کہ پروگرام مسجد میں ہی منعقد کیا جائے گا۔ چناں چہ مغرب کے
متصلا بعد، پروگرام کی کاروائی شروع کی گئی۔ تلاوت قرآن کریم کے بعد، حضرت
مفتی صاحب کو خطاب کے لیے دعوت دی گئی۔ مفتی صاحب نے اپنے بیان کے شروع
میں، "وحی الہی" کی ضرورت پر تفصیلی کلام فرمایا۔ آپ نے تاکید سے فرمایا کہ
جس چیز کو قرآن کریم نے حرام قرار دیا ہے، وہ حرام ہے اور جس چیز کو قرآن
مجید نے حلال کہا ہے، وہ حلال ہے۔ قرآن کریم نے سود کو حرام کہا ہے؛ اس لیے
وہ حرام اور تجارت کو حلال کہا ہے، اس لیے وہ حلال ہے۔ انھوں نے زور دے کر
کہا کہ قرآن کریم کے حکم کے بعد، کسی حوالے سے مزید کسی دلیل کی ضرورت نہیں
رہ جاتی۔ تجارت کو حرام سے بچائیں۔ تجارت میں اخلاق کو اپنائیں۔ مشرقی
افریقہ اور ہندوستان میں اسلام تاجروں سے پہنچا۔ لوگ ان کے اخلاق کو دیکھ
کر، مسلمان بنے۔ ہم اپنی تجارت کو دعوت اسلام کا ذریعہ بنائیں۔ ہم امانت سے
تجارت کریں۔ اگر آپ تجارت کرتے ہیں؛ تو علما سے تجارت کا علم سیکھیں۔ جب
کسی تجارت میں کئی آدمی یا ایک فیملی سے کئی بھائی شریک ہوں؛ تو شروع سے ہی
سب کا حصہ متعین ہونا چاہیے۔ سب کی تنخواہیں متعین ہونی چاہیے وغیرہ وغیرہ۔
یہ پروگرام عشا تک جاری رہا۔ عشائیہ کا انتظام شہر کے مشہور تاجر اور ٹرید
کنگس کمپنی کے سابق چیرمین: جناب خالد نعمانی صاحب (رحمۃ اللہ علیہ)
کےصاحبزادے: جناب مولانا شاہد نعمانی اور مولانا زاہد نعمانی صاحبان کے
یہاں تھا۔ ہمیں بھی وہیں کھانے کے لیے جانا تھا، مگر مولانا محمد ابراہیم
صاحب نے حضرت مولانا ادریس صاحب گنگات سے قبل از وقت گفتگو کرکے، ان کو
اطلاع دے دی تھی کہ ہم لوگ رات کا کھانا جناب فاروق صاحب متالا کے یہاں
کھائیں گے۔
حضرت مولانا طلحہ متالا صاحب اور جناب فاروق متالاصاحب نے ہمیں رات کے
کھانے کی دعوت دے رکھی تھی۔ جناب فاروق متالا صاحب ہمارے اسکول کے ٹرسٹی
اور جامعہ زینب للبنات، لوساکا کے مسئول ہیں۔ ان کے چھوٹے صاحبزارے: عزیزم
حافظ اسماعیل متالا کا ولیمہ تھا، چناں چہ ہم سب کی وہیں دعوت تھی۔ ہم لوگ
قدرے تاخیر سے وہاں پہنچے اور کھانا تناول فرمایا۔ ان کے ادارے کی دعوت پر،
حضرت الاستاذ مولانا محمد سلمان صاحب بجنوری –دامت برکاتہم–، ایڈیٹر: ماہ
نامہ دار العلوم و استاذ حدیث: دار العلوم، دیوبند تشریف لائے ہوئے ہیں۔ یہ
ہماری خوش نصیبی رہی کہ ان کے مکان پر حضرت الاستاذ سے ملاقات ہوئی۔ حضرت
کے ساتھ تقریبا ایک گھنٹے تک گفتگو ہوئی۔ حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب نے
حضرت کے سامنے ہمارے ادارے: مون ریز ٹرسٹ کی سرگرمیوں کا مختصرا ذکر کیا،
جس پر حضرت نے خوشی کا اظہار کیا۔ حضرت نے دوران گفتگو فرمایا کہ دین کا
کام کرنے والی ہر جماعت کو چاہیے کہ ایک دوسرے کے لیے معین و مددگار بنے۔
حضرت نے ہندوستان کے موجودہ حالات کے بارے میں بھی اپنی فکرمندی کا اظہار
کیا۔ پھر یہاں سے ہم سب ساتھی جامعہ اسلامیہ میں اپنی قیام گاہ پر پہنچے
اور وہیں آرام کیا۔
یکم فروری کو ہم نے فجر کی نماز جامعہ اسلامیہ کے وسیع و عریض دار المطالعہ
میں ادا کی۔ جامعہ کی مسجد ابھی زیر تعمیر ہے؛ چناں چہ پنج وقتہ نماز دار
المطالعہ میں پڑھی جاتی ہے۔ نماز کے فورا بعد، حضرت مولانا ادریس گنگات
صاحب نے ناشتہ کے وقت اور جگہ کی اطلاع دی۔ ہم لوگوں اپنے روم میں گئے،
تھوڑی دیر آرام کرکے، جامعہ کے ڈائننگ ہال میں، وقت پر ناشتہ کے لیے پہنچے۔
ڈائننگ ہال بہت ہی صاف ستھرا تھا۔ دسترخوان سلیقے سے لگا تھا۔ پھر ناشتہ
رکھا گیا۔ ناشتہ میں مختلف طرح کے ماکولات تھے۔ ہم سب نے اپنی اپنی پسند کا
ناشتہ کیا۔ پھر اپنی قیام گاہ پر چلے گئے۔ یکم فروری کو صبح میں مفتی محمد
تقی صاحب مد ظلہ العالی نے پہلے جامعہ کی وزٹ کی۔ انھوں نے ہر ایک شعبے کا
معائنہ کیا۔ جب مفتی صاحب جامعہ کے مطبخ کی وزٹ کر رہے تھے، اس وقت جامعہ
کے موقر و محترم مدیر حضرت مولانا یوسف صاحب –حفظہ اللہ– ہم لوگوں کو حضرت
کے قریب لے گئے اور سلام و مصافحہ کروایا۔ جزاہم اللہ احسن الجزاء!
جامعہ کی وزٹ کے بعد، مفتی صاحب کا بیان جامعہ کے طلبہ کے درمیان تھا۔ مفتی
صاحب نے اپنے بیان میں جامعہ کے انتظام و انصرام کو سراہا۔ طلبہ کو ابھارتے
ہوئے فرمایا کہ یہاں ہر طرح کی سہولیات ان کو فراہم کی جاتی ہیں؛ لہذا کوئی
چیز ان کی تعلیم میں مانع نہیں ہونی چاہیے اور انھیں محنت سے تعلیم میں
منہمک رہنا چاہیے۔ انھوں نے طلبہ کو مزید بتایا کہ وہ مطالعہ کریں، پڑھے
ہوئے اسباق کا تکرار کریں وغیرہ وغیرہ۔ بیان کے بعد، حضرت کی ہی اقتدا میں
ہم سب نے نماز ظہر ادا کی۔ ظہرانے کا انتظام، شہر کے ایک تاجر جناب جسات
صاحب کے یہاں تھا۔ ہم سب لوگ وہاں پہنچے اور کھانا تناول فرمایا۔
مغرب بعد، مفتی صاحب نے "مکینی اسلامک ٹرسٹ" کے ہال میں، جامعہ اسلامیہ سے
فراغت حاصل کرنے والے طلبہ کو بخاری شریف کا آخری درس دیا۔ اس تقریب ختم
بخاری میں عوام و خواص کا ایک بڑا مجمع تھا۔ہال اپنی وسعت کے باوجود تنگ
نظر آرہا تھا۔ اس تقریب کا افتتاح قرآن کریم کی تلاوت سے کیا گیا۔ تلاوت کے
بعد، ایک نعت پڑھی گئی۔ پھر جامعہ کے ایک طالب علم مفتی صاحب کی مشہور نظم:
"دربار میں حاضر ہے ایک بندۂ آوارہ" پڑھا۔ پھر ایک طالب علم نے صحیح
البخاری کے آخری سبق کی عبارت خوانی کی۔ اس کے بعد، مفتی صاحب نے اپنی بات
شروع کی۔ انھوں نے فرمایا کہ "ختم بخاری کی تقریب" کے حوالے سے ان کو خدشہ
ہے کہ کہیں مستقبل میں یہ بدعت اور عرس کی شکل نہ اختیار کرلے۔ دورۂ حدیث
شریف کا وجود صرف بر صغیر میں پایا جاتا ہے۔ پھر انھوں بخاری شریف کی اہمیت
اور امام بخاری کے عربی زبان کے حوالے سے کلام فرمایا۔ پھر بخاری شریف کے
کتاب التوحید کے آخری باب پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ بنی آدم کے اعمال
قیامت کے دن وزن کیے جائیں گے۔ ان کے اعمال و اقوال تولے جائیں گے۔ اعمال
کیسے وزن کیے جائیں گے، اس کا آج کے دور میں سمجھنا کوئی مشکل امر نہیں ہے؛
کیوں کہ آج سائنس نے بھی اسے ثابت کردیا ہے۔ معتزلہ نے اپنے عقل کا استعمال
کرکے، ٹھوکر کھایا۔ انھوں نے فرمایا کہ: اعمال و اقوال وزن کیے جائیں گے؛
اس لیے ہم جو بھی بولیں، سوچ سمجھ کر بولیں۔ پھر آپ آخری حدیث پر کلام کرتے
ہوئے، تسبیح و تحمید کے حوالے سے کلام کیا۔ دعا سے قبل آپ نے فرمایا کہ ختم
بخاری کے موقع پر دعا کی قبولیت منصوص نہیں ہے، کوئی ضروری نہیں دعا قبول
ہی ہوجائے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص بغیر دعا کے بھی اس مجلس سے
اٹھ جائے، تو کوئی بات نہیں۔ ہاں، اگر ہم اسے ضروری سمجھنے لگیں؛ تو یہ
بدعت ہوگی۔ مفتی صاحب کی مختصر دعا پر تقریب ختم بخاری اختتام کو پہنچا۔
اسی ہال میں لوگوں نے عشا کی نماز باجماعت ادا کی۔ رات کے کھانے کی دعوت
جناب عبد الحمید صاحب، کموالا کے گھر پر تھی۔ تمام مہمانان کرام وہاں پہنچے
اور عشائیہ تناول فرمایا۔
دو فروری کی صبح میں ہم نے جامعہ کے استاذ، مفتی عزیز الرحمان صاحب کے یہاں
ناشتہ کیا۔ آج مفتی صاحب کا بیان، جامعہ کے ہال میں، خاص طور پر علماء کرام
کےلیے تھا۔ اس میں اکثر علماء کرام ہی شریک تھے۔ پروگرام کا افتتاح قرآن
کریم کی تلاوت سے کیا گیا۔ پھر ایک طالب علم نے مفتی صاحب کی ایک نظم: "درد
سے یادوں سےاشکوں سے شناسائی ہے – کتنا آباد میرا گوشۂ تنہائی ہے" پڑھی۔ اس
کے بعد، مفتی صاحب کا بیان شروع ہوا۔ مفتی صاحب نے بڑی تواضع سے فرمایا کہ
سامعین میں علما ہیں۔ انھوں نے جو کچھ اپنے بڑے سے سنا ہے، اسی کا تکرار
کریں گے۔ انھوں نے فرمایا کہ آپ حضرات خود کو عالم نہ سمجھیں؛ بلکہ طالب
علم سمجھیں۔ اکابر کی کتابوں کا مطالعہ کریں۔ جدت پسندی اور شدت پسندی سے
احتراز کریں وغیرہ وغیرہ۔ مجلس کے اختتام پر، ان سے اجازت حدیث کی درخواست
کی گئی، جسے انھوں نے قبول کیا۔انھوں نے الحدیث المسلسل بالاولیۃ پڑھ کر،
اپنی سندوں سے سامعین کو اس حدیث کی خصوصی اجازت دی اور عمومی اجازت سے بھی
سامعین کو سرفراز فرمایا۔ پھر مفتی صاحب کی دعا پر، مجلس کا اختتام ہوا۔
تقریبا اسی وقت جامعہ زینب للبنات، لوساکا سے فارغ ہونے والی طالبات کی بھی
ختم بخاری کی تقریب تھی جو مکینی اسلامک ٹرسٹ کے ہال میں منعقد کی گئی تھی۔
اس تقریب کے مہمان خصوصی حضرت الاستاذ مولانا محمد سلمان صاحب بجنوری –دامت
برکاتہم–، استاذ حدیث: دار العلوم، دیوبند تھے۔ ہم لوگوں نے جامعہ سے فورا
وہاں پہنچنے کی کوشش کی، مگر ہمارے پہنچنے سے قبل، ختم بخاری شریف کی تقریب
اختتام کو پہنچ چکی تھی۔ ہم لوگوں کے کھانے کی دعوت جناب فاروق متالا صاحب
کے دولت خانے پر تھی؛ چناں چہ ہم لوگ وہاں پہنچے۔ وہاں انواع و اقسام کے
کھانے تیار تھے۔ ہم نے اپنی پسند کا کھانا تناول کیا۔ جزاہم اللہ احسن
الجزاء!
کھانے کے بعد، حضرت مولانا مبشر صاحب، استاذ: جامعہ اسلامیہ کی دعوت پر، ہم
سب کو "فری میڈیکل کیمپ" کی وزٹ کے لیے جانا تھا۔ مگر حضرت مولانا محمد
ابراہیم صاحب کی مشغولیت کی وجہہ سے ہم لوگ نہیں جاسکے۔ یہ میڈیکل کیمپ
"مسلم سوشل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ" کے تحت منعقد کیا جاتا ہے۔ اب تک سماج کے بیس
ہزار سے زیادہ غریب اور بیمار لوگ اس سے استفادہ کرچکے ہیں۔ مولانا
مبشرصاحب تدریسی خدمات کے ساتھ ساتھ رفاہی اور سماجی کام اسی ٹرسٹ کے تحت
انجام دیتے ہیں۔ اللہ تعالی ان کی خدمات کو قبول فرمائیں!
کھانے کے بعد، ہم جناب مولانا محمد اکرم صاحب قاسمی کی معیت میں، ان کی
رہائش گاہ پر عصر کے قریب پہنچے۔ مولانا نے رات میں ہم لوگوں کے قیام و
طعام کا انتظام اپنی رہائش پر کیا تھا۔ ان کی رہائش گاہ سے ہم لوگ تین
فروری کی صبح کو مپلنکو کے روانہ ہوئے۔ رات کے تقریبا دس بجے، عافیت و
سلامتی کے ساتھ ہم اپنی منزل پر پہنچے، الحمد للہ۔ ہمارے قافلے کے ایک اہم
رکن، حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب کچھ مشغولیات کی وجہ سے، لوساکا میں ہی
رک گئے۔ مولانا محمد اکرم صاحب اٹارسی، ایم پی کے رہنے والے ہیں۔ وہ ایک
کاروباری خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا کاروبار سورت میں بڑے پیمانے پر
چلتا ہے۔ ان کے خانوادے کے لوگ کاروباری ہونے کے ساتھ ساتھ دیندار بھی اور
علماء و اکابر سے تعلق رکھتے ہیں، ما شاء اللہ۔ آج کل انھوں نے زامبیا میں
ایک کمپنی شروع کی جو ابھی زیر تعمیر ہے۔ اللہ پاک ان کے کارو بار میں ترقی
عطا فرمائیں! آمین!
شیخ الاسلام مفتی محمد تقی صاحب برٹش انڈیا کے مشہور شہر "دیوبند" میں،تین
اکتوبر 1943 کو پیدا ہوئے۔ وہ مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب –رحمہ اللہ– کے
سب سے چھوٹے صاحبزادے ہیں۔ مفتی محمد شفیع صاحب ہندو پاک کی تقسیم کے بعد،
پاکستان ہجرت کر گئے۔ اس سے قبل وہ دار العلوم، دیوبند میں استاذ اور مفتی
اعظم کے عہدے پر فائز تھے۔ ان کی ہجرت کے بعد، ان کے اہل و عیال بھی ہجرت
کرگئے۔ مفتی محمد تقی صاحب کی تعلیم، ان کے والد ماجد کے قائم کردہ ادارہ:
جامعہ دار العلوم، کراچی(قیام: 1950) میں ہوئی۔ پھر انھوں کراچی یونیورسٹی
سے اکونامک اور پولیٹیکل سائنس میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔کراچی یونیورسٹی
سے ہی انھوں نے لاء کی ڈگری حاصل کی۔ پھر پنجاب یونیورسٹی سے عربی زبان و
ادب میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ آپ نے مختلف میدان میں کام کیا ہے۔ آپ نے
حدیث کی مشہور کتاب: صحیح مسلم کی شرح فتح الملہم کا تکلمہ، "کتاب الرضاع"
سے "کتاب التفسیر" تک چھ جلدوں میں لکھا ہے۔ انھوں نےمختصر تشریحی نوٹ کے
ساتھ، قرآن کریم کا ترجمہ انگریزی اور اردوزبان میں کیاہے جو بڑا ہی مقبول
ہے۔ تجارت سے متعلق مسائل پر مشتمل عربی زبان میں، دو جلد میں "فقہ البیوع"
کے نام سے کتاب لکھی ہے جو بارہ سو اٹھاون صفحات پر مشتمل ہے۔ ان کی نگرانی
میں، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ، جو حدیث کی مختلف
کتابوں میں ہیں، انھیں عالمی نمبر کے ساتھ، "المدوّنۃ الجامعۃ" کے نام سے
ترتیب دیا جارہا ہے۔ انھوں نے اسلامی معیشت اور اسلامی بینکنگ پر انقلابی
کام کیا ہے۔ آپ اسلامی معیشت سے متعلق، مختلف ممالک میں قائم، متعدد اداروں
کے شریعۃ بورڈ کے چیرمین ہیں۔وہ وفاق المدارس العربیۃ، پاکستان کے صدر ہیں۔
وہ وفاقی شرعی عدالت، پاکستان کے تقریبا بیس سال تک جج رہ چکے ہیں۔ انھوں
نے اپنے عملی زندگی کا آغاز درس و تدریس اور فتوی نویسی سے کیا۔ وہ آج بھی
درس وتدریس سے منسلک ہیں اور جامعہ دار العلوم، کراچی میں حدیث کی مشہور
کتاب صحیح البخاری کا درس دیتے ہیں۔ اللہ تعالی حضرت مفتی صاحب کو صحت
وعافیت کے ساتھ لمبی عمر عطا فرمائيں، ان کی خدمات جلیلہ کو قبول فرمائیں
اور امت کو ان کے علوم، کتاب اور بیانات سے استفادہ کے توفیق دے! آمین!
••••
|