انسانیت کا محافظ، خطرے میں ہارس شو کیکڑے کی بقا کی جنگ


ایک ایسا "زندہ فوسل" جو 450 ملین سال سے سمندری دنیا میں اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے، مگر آج خود بقا کے بحران سے دوچار ہے۔ یہ حیرت انگیز مخلوق ایک قدرتی معجزہ ہے، اور اس کے خون کی کہانی تو اور بھی ناقابل یقین ہے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ جس خون نے انسانوں کو بچایا، آج اسی خون کی طلب نے اس جاندار کو ناپید ہونے کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔

گھوڑے کی نالی کے کیکڑے (Horseshoe Crab) زمین کے قدیم ترین جانداروں میں سے ایک ہے، جو 450 ملین سال سے سمندری حیات کا حصہ ہے، یعنی یہ ڈایناسورز سے بھی پہلے وجود رکھتا تھا۔ یہ بنیادی طور پر شمالی امریکہ اور جنوب مشرقی ایشیا کے ساحلی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ اس کا سخت خول، لمبی دم اور نعل جیسی شکل اسے منفرد بناتی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ لاکھوں سالوں میں تقریباً جوں کا توں رہا ہے، جس کی وجہ سے اسے "زندہ فوسل" کہا جاتا ہے۔ اس کا نیلا خون قدرت کا ایک نایاب تحفہ ہے، جو اسے نہ صرف دوسروں سے منفرد بناتا ہے بلکہ انسانوں کے لیے بھی بےحد قیمتی ہے۔

ہارس شو کیکڑے کے خون میں ایک خاص امیونو سیل "LAL" (Limulus Amebocyte Lysate) موجود ہوتا ہے، جو زہریلے بیکٹیریا کی موجودگی کو فوراً پہچان کر ایک جمنے والا ردعمل (Coagulation Response) پیدا کرتا ہے۔ جب یہ کسی نقصان دہ بیکٹیریا یا اس کے زہریلے مادے (Endotoxins) کے ساتھ رابطے میں آتا ہے، تو یہ فوری طور پر جم کر ایک جیل جیسی تہہ بنا لیتا ہے، جو بیکٹیریا کو مزید پھیلنے سے روکتی ہے اور اسے غیر مؤثر بنا دیتی ہے۔

یہی خصوصیت اسے میڈیکل سائنس کے لیے انتہائی اہم بناتی ہے، کیونکہ دوا یا ویکسین میں اگر کوئی نقصان دہ بیکٹیریا موجود ہو، تو LAL ٹیسٹ فوراً اس کا پتہ لگا کر اسے ظاہر کر دیتا ہے، جس سے غیر محفوظ دواؤں کو مسترد کیا جا سکتا ہے۔

دنیا کی تمام ویکسینز، بشمول COVID-19، کے محفوظ ہونے کا ٹیسٹ اسی کے خون کی مدد سے کیا جاتا ہے۔ سرنج، پیس میکرز، سرجیکل آلات، اور مختلف ادویات میں بیکٹیریا کی موجودگی جانچنے کے لیے اس خون کو لازمی سمجھا جاتا ہے۔ دوا سازی کی صنعت میں LAL ٹیسٹ کئی دہائیوں سے ایک "گولڈ اسٹینڈرڈ" کے طور پر تسلیم شدہ ہے اب تک 100 سے زائد ویکسینز اور ادویات کی تیاری میں یہ خون استعمال ہو چکا ہے، جو اسے جدید میڈیکل سائنس کا ایک خاموش ہیرو بناتا ہے۔

بدقسمتی سے یہی قیمتی خون اس کی بقاء کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔ قدرت کے ان انوکھے کیکڑوں نے ڈایناسورز کے ساتھ بھی وقت گزارا اور ان کی معدومی کے بعد بھی یہ بچ گئے مگر اب دوا ساز کمپنیاں ہر سال ہزاروں کیکڑوں کو لیبارٹریوں میں لے جایا جاتا ہے، جہاں ان کے دل کے قریب سے خون نکالا جاتا ہے۔

اس عمل کے بعد، زیادہ تر کیکڑوں کو واپس سمندر میں چھوڑ دیا جاتا ہے مگر اکثر کمزوری کے باعث زندہ نہیں رہ پاتے۔ اس کے علاوہ، سمندری آلودگی، ساحلی علاقوں کی تباہی، اور آب و ہوا کی تبدیلی نے بھی اس کے قدرتی مسکن کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

ایک اور بڑی وجہ اسکا شکار کرنا ہے۔ ہارس شو کیکڑے کو جنوب مشرقی ایشیا، خاص طور پر تھائی لینڈ میں کھایا جاتا ہے۔ اس کے انڈوں کو سلاد میں استعمال کیا جاتا ہے اور پورے کیکڑے کو ابال کر یا بھون کر کھایا جاتا ہے۔

اگر اس کا بے جا شکار نہ روکا گیا، تو یہ قیمتی جاندار معدوم ہو سکتا ہے، جس سے نہ صرف قدرتی توازن متاثر ہوگا بلکہ دوا سازی کی صنعت بھی ایک انمول قدرتی وسیلے سے محروم ہو جائے گی۔
 

انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ: 452 Articles with 255002 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.