سوچنے پر مجبور ہیں کہ آخر ہماری سمت ہے کیا؟ کس طرف
جارہے ہیں اور یوں چلتے چلتے آخر مستقبل ہمارا کیسا ہوگا؟ ملکی صورتحال کو
لیکر اتنا تو دل پریشان ہے کہ تمام دوسرے اہم کاموں کو ایک طرف کرکے معروضی
صورتحال کا جائزہ لینے بیٹھ گئے ہیں۔ جیسا کہ پچھلے کالم میں یہ ارادہ
باندھ چکے تھے کہ اب اس لکھنے لکھانے کے کام میں کچھ بہتری لائیں گے اور
اہم موضوعات کے بارے قلم کا جاں فشانی سے استعمال ہوگا لہذا جو ہم نے
شروعات میں تشویش ظاہر کی ہے وہ اپنے بارے تو بلکل نہیں ہے بلکہ اپنے ملک
کے بارے میں ہے جسکے اندرونی معاملات ابتری کا شکار ہیں۔ اپنی حالت بھی تو
ویسے ملک کی صورتحال کے ساتھ جڑی ہے اور اگر ملک ہمارا ترقی کے راستوں پر
ہوگا تو عوام نتیجتاً خوشحال ہی ہونگے۔
دو ہی پیدائشی نوعیت کے مسائل تھے اور آج ہماری کوتاہیوں کے باعث وہ بھیانک
شکلیں اختیار کرچکے ہیں جن کا ان صفحات پر اپنے استاد کی نسبت سے پہلے بھی
ذکر کیا ہے۔ پہلا سول ملٹری کشمکش اور دوسرا قومی یا مذہبی ریاست کا سوال۔
ہم سوچتے ہیں کہ کسی بچے پر طب کے ماہرین یہ جانتے ہوئے بھی کہ پیدائشی
بیماریاں ہیں' لایعنی قسم کے تجربات کرتے رہیں تو کیا عمر وہ اس سب سرگرمی
کے بعد پاسکتا ہے؟ ملک ان بنیادی مسائل کے ساتھ وجود میں آیا اور ساتھ ہی
پھر نہ ختم ہونے والے تماشوں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا جو آج بھی جاری ہے
اور اس کے اثرات ہیں جو اب ہم جیسوں کو بھی کھینچ کے اس طرف لے آئیں ہیں جن
میں کبھی صحیح بات طریقے کے ساتھ کسی دوسرے سے کہہ سکنے کا حوصلہ تک نہ
تھا! فکرمند رہتے ہیں کہ یہ آخر ہم کس بندگلی میں آگئے ہیں؟ اکابرینِ ملت
جو ہمارے سروں پر سوار رہے آخر کیسے کیسے گل کھلا گئے ہیں؟ آج کے ترقی کرتے
دور میں جہاں ہر چیز جدت اختیار کرتی جارہی ہے اتنے پیچھے کیوں رہ گئے؟
اجتماعی نالائقیوں کے سبب جو حال ہم نے اپنا بنادیا ہے اس سے تو اب خوف آنے
لگا ہے۔ سینیئر ساتھی لکھتے ہیں کہ صورتحال دن بدن خراب ہوئی ہے اور کسی
ایک کو بھی اتنے برسوں میں یہ خیال نہیں آیا کہ اب کچھ معاملاتِ مملکت پر
غور کرلیا جائے۔ خیال آتا ہے کہ کوئی ایک حکمران بھی اپنے دور حکومت میں
سمت سیدھی کرنے پر توجہ نہ دے سکا۔ ملک بننے سے لیکر پہلے وزیراعظم لیاقت
علی خان کی شہادت تک جو یہاں ہوتا رہا اس سے تو کبھی کبھار سوچتے ہیں کہ
صاحبان کو یہ سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ اب جو یہ ملک مل گیا ہے اسکو چلایا
کس طرح جائے؟ تب کی شخصیات وقت پر اگر کوئی اقدامات کرتیں اور پہلے دن سے
مقصد متعین ہو جاتا تو یوں آج تک دائروں کے سفر کا دور نہ جاری رہتا۔ ٹھیک
ایک دن بعد آزاد ہونے والا پڑوسی ملک جسے یہاں کے باسی دشمن سمجھتے ہیں
وہاں کے زعما کو انکی سمجھ داری پر داد دینی چاہیے کہ ملک حاصل کرتے ہی
اونچ نیچ کی استعماری ذہنیت کو طاقتور شخصیات کو توڑ کے ڈھا دی۔ ساتھ آئین
بنانے کا کام شروع ہوا تو وہ بھی چند برسوں میں مکمل کرلیا گیا۔ جمہوریت کو
اپنایا تو آج تک اسکی حرمت پامال نہ کی جس کا یہ نتیجہ نکلا کہ وہاں آج
کوئی ایسی جماعت جو خود اپنے اندر جمہوری اقدار نہیں رکھتی پارلیمانی سطح
پر طاقتور قوت نہیں ہے۔ مثال اس پر کانگریس کی صادق آتی ہے کہ کس طرح وہ
اپنا عروج کھوتی گئی۔ یہاں موروثی جماعتیں آج سیاست میں نمایاں مقام رکھتی
ہیں اور من پسندی کے اصول پر اقتدار کی غلام گردشوں میں ہیں۔ اسی فرق کے
باعث آج وہاں کی معیشت دنیا کی چوتھی بڑی معیشت بننے جارہی ہے۔ آئی ٹی میں
جس طرح وہاں کے لوگ آگے آئے ہیں اور دنیا کی بڑی ٹیک کمپنیاں چلا رہے ہیں
وہ وہاں کی اکانومی کے لئے ایک اہم ستون ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹفارمز پر جس
طرح بہترین کوالٹی کا تعلیمی مواد وہاں سے آرہا ہے تو یہ وہاں کے سارے مثبت
اعشاریے ہمارے جیسوں کے لئے ایک بہت بڑا سبق ہیں کہ کیسے وہاں عوامی امنگوں
پر جب حکمران چنے جاتے ہیں اور آئین کی بالادستی قائم کی جاتی ہے تو اسکے
نتائج (Visible) ہوتے ہیں۔ یہاں جیسے عرض کیا کہ ایسے ترقی پسند آثار شروع
ہی میں نہ تھے تو جو پھر ہوتا رہا وہ ہماری حالت سے عین میل کھاتا ہے۔
تماشہ در تماشہ چلتا رہے تو پھر کہاں کی ترقی اور کیسی خوشحالی؟
بنگالی چونکہ مزاج میں تحرک اور اپنے اوپر آنے والی کسی بھی آنچ کو بھانپنے
کی صلاحیت رکھتے ہیں تو وہ ایسی حالتوں میں مزاحمت کو اپنا شعار بنا لیتے
ہیں۔ وہ اس دور میں بھی زیادہ دیر تک جاری تماشہ برادشت نہ کرسکے اور یہاں
سے ہونے والی زیادتیوں نے تو پھر انکے جذبات پر جلتی پر تیل کا کام کیا! اب
حقیقی دانشور اور سیاسی طور پر ذمہ دار لوگ تب کی صورتحال کو آج بلوچستان
میں جاری مسائل سے بے کم و کاست (Relate) کررہے ہیں۔ جعفر ایکسپریس کا
حادثہ اس ساری شورش جو وہاں جاری ہے اسکی ایک تازہ ترین مثال ہے۔ وہ وہاں
بہت کچھ ماضی میں کرتے رہے ہیں مگر اس واقعہ نے تو وہاں کی حالتوں کو ایک
نئے رخ سے سوچنے والے حلقوں کے سامنے پیش کیا ہے۔ اس میں کسی کو کوئی تردد
نہیں کہ وہاں کی تنظیم جو یہ سب کچھ کررہی ہے قابلِ مذمت عمل ہے اور خود
صوبے کی اپنی سیاسی کاز کے لئے ایک نقصان دہ چیز ہے مگر دوسری طرف کی
صورتحال یہ ہے کہ یہاں کے لائے ہوئے اور بٹھائے حکمران یہ سارا مسئلہ
سمجھنے سے یوں قاصر ہیں جیسے کہ کوئی مشکل ترین سائینس ہو۔ ماتھے پر شکن تک
نہیں اور حالت ایسی ہے کہ بندہ اگر اسمبلی میں موجود حکومتی چہرے دیکھے تو
لگے گا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو اور سب کچھ ٹھیک چل رہا ہو۔ یہ رویہ شاید اس
وجہ سے بھی ہوسکتا ہے کہ قوم اب یہ سب دیکھ دیکھ کر اتنی تو اندر سے کٹھن
ہوچکی ہے کہ کوئی فرق ہی نہیں پڑ کہ دے رہا۔ ویسے یہ تو ایک صوبے کا مسئلہ
ہے اور جو ساتھ میں ہمارا دوسرا صوبہ خیبرپختونخوا ہے وہاں کے حالات بھی
بلکل نارمل نہیں۔ جس طرح وہاں پر دہشت گردی کے حملے معمول بنتے جارہے ہیں
انسان دنگ رہ جانے پر مجبور ہے کہ آخر ہمارے ان دونوں مغربی صوبوں میں کوئی
قانون نام کی چیز ہے بھی یا سرے سے نہیں؟
بلوچستان اسمبلی اور سینیٹ میں جو تقاریر ہورہی ہیں انتہائی قابلِ غور ہیں۔
ممبران ایسی ایسی باتیں کر رہے ہیں جو انسان سنے تو ہوش ٹھکانے آجائے۔
یوٹیوب پر موجود ہیں اور جیسا کہ کہا سننے سے تعلق رکھتی ہیں۔ ممتاز کالم
نگار جناب ایاز امیر صاحب نے اتوار کے روز دنیا اخبار میں کالم لکھا ہے
اسکو انسان پڑھے تو پتہ چلے کہ دونوں صوبوں میں بدامنی اور جاری شورشوں کے
باعث کیا صورتحال بن چکی ہے۔ وہاں وہ لکھتے ہیں کہ جیو اسٹرٹیجک حوالے سے
ہمارے یہی دو صوبے ہیں جن کی وجہ سے دنیا کے نقشے پر ہماری ایک خاص حیثیت
ہے۔ مزید لکھتے ہیں کہ پرابلم تو سب سے بڑی یہ ہے کہ احساس نام کی کوئی چیز
نہیں اور حالات کا ادراک ہے کہ ہمارے اہل اختیار حلقوں کو اب تک نہیں ہو
پارہا۔ مولانا فضل الرحمان اور انکی جماعت کے دوسرے اراکین جس طرح کی
تقاریر قومی اسمبلی میں کررہے ہیں وہ بھی سننے جیسی ہیں۔ یقین مانیے کہ غور
سے انکی باتیں اگر سنیں جائیں تو آدمی اضطراب اور پریشانی میں مبتلا ہوجاتا
ہے۔ ہمارا اپنا بھی یہی مشاہدہ ہے کہ حالات کو بلکل بھی سیریس نہیں لیا
جارہا اور حکمران جو 8 فروری کے بندوبستی نظام کی پیداوار ہیں انکی باتیں
سنے تو انسان بوریت میں منہ دوسری طرف پھیر لے۔ آسمانوں سے تو اب اس مہینے
میں ہاتھ اٹھا کر دعائیں ہیں کہ ہمارے ان دو صوبوں پر خدا اپنا خاص کرم کرے
اور باہمی مشاورت اور احساس جو واحد دو راستے ہیں' سے کوئی حل نکال لیا
جائے۔ ہمارا ملک جو ہمیں اپنی جان سے عزیز ہے آخر کیوں ایسے بحرانوں کی زد
میں ہے اور کب ایسی تکالیف سے نجات پاکر ہم دنیا کی دوسری قوموں کی طرح آج
کے اس مابعداللجدیدت دور میں ترقی کی شاہراؤں پر سفر کریں گے؟ کیا خوشحال
پاکستان ہماری نسل اپنی زندگیوں میں دیکھ سکے گی؟ اس سوال کا مثبت جواب
ضرور مل سکتا ہے اگر ہم سب اوپر سے لیکر نیچے تک آپس میں تمام اکائیاں
اتحاد کی فضاء قائم کرتے ہوئے ملک کی مجموعی سمت سیدھی کرنے کے لئے مکمل
طرح سے تیار ہوجائیں۔
|