مستقبل پر مبنی صنعتوں کی ترقی

چین اس وقت کوانٹم کمپیوٹنگ، مصنوعی ذہانت اور 6 جی سمیت جدید ترین ٹیکنالوجیز کو آگے بڑھانے کے لئے پرعزم ہے۔ چین کی یہ کوششیں اور مضبوط عزم جدت طرازی میں عالمی رہنما کی حیثیت سے اُس کی پوزیشن کو مستحکم کرنے میں نمایاں اہمیت کی حامل ہیں۔اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ تکنیکی اعتبار سے مضبوطی ملک کو اپنے مسابقتی فوائد کو برقرار رکھتے ہوئے عالمی غیر یقینی صورتحال سے نمٹنےمیں بھی مدد فراہم کرے گی۔

چین کی یہ کوشش بھی ہے کہ تکنیکی کامیابیوں کو محفوظ بنانے اور انہیں موثر طریقے سے کمرشلائز کیا جائے ، اس ضمن میں چین کی جانب سے نئی معیار کی پیداواری قوتوں پر زور دیتے ہوئے ملکی اور بین الاقوامی کاروباری اداروں کے لئے وسیع مواقع پیدا کیے جا رہے ہیں۔

ملک کے اعلیٰ ترین شی جن پھنگ اس حوالے سے واضح کر چکے ہیں کہ تکنیکی جدت طرازی اور صنعتی جدت طرازی نئی معیار کی پیداواری قوتوں کی ترقی کے لیے بنیادی راستے ہیں۔چین کی 2025 کی حکومتی ورک رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ملک مستقبل کی صنعتوں کے لئے فنڈز بڑھانے اور بائیو مینوفیکچرنگ، کوانٹم ٹیکنالوجی، ایمبوڈیڈ انٹیلی جنس
اور 6 جی ٹیکنالوجی جیسی صنعتوں کو فروغ دینے کے لئے ایک میکانزم قائم کرے گا۔

چینی ماہرین کے خیال میں چین کی معیشت پرانے اور نئے ترقی کے ڈرائیوروں کے درمیان منتقلی کے ایک نازک دور میں داخل ہوگئی ہے۔اس تناظر میں مستقبل پر مبنی ٹیکنالوجیز نہ صرف جدت طرازی میں سب سے نمایاں ہیں بلکہ صنعتی مسابقت کو نئی شکل دینے اور پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کے لئے اسٹریٹجک ستون بھی ہیں۔فیوچر انڈسٹریز کی اہمیت روایتی صنعتوں کو اپ گریڈ کرنے اور ابھرتے ہوئے شعبوں میں نمایاں مقام حاصل کرنے میں ہے۔

اس کی ایک عمدہ مثال کوانٹم ٹیکنالوجی کے لیے چین کی بھرپور حمایت سے بھی عیاں ہوتی ہے ۔اگر کوانٹم ٹیکنالوجی کا موازنہ ہوائی جہاز سے کیا جائے ، کوانٹم کمپیوٹنگ اس کے "انجن" کے طور پر کام کرتا ہے ، جو قومی دفاع ، بائیو میڈیسن ، توانائی کے مواد اور مصنوعی ذہانت جیسے شعبوں کے لئے تیزی سے کمپیوٹیشنل طاقت فراہم کرتا ہے۔اس وقت کوانٹم کمپیوٹنگ ، لیبارٹری سے صنعت کاری کی جانب منتقل ہو رہی ہے. کینیڈا اور امریکہ کے بعد چین کوانٹم کمپیوٹر فراہم کرنے کی صلاحیت رکھنے والا دنیا کا تیسرا ملک بن چکا ہے.

دوسری جانب چین کو اس حقیقت کا بھی بخوبی ادراک ہے کہ جدت طراز رویوں کو پروان چڑھانے کی خاطر بنیادی تحقیق میں مزید سرمایہ کاری اور بنیادی تکنیکی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے وسائل کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔چین کے لیے یہ امر باعث اطمینان ہے کہ 2024 میں چین کے تحقیق اور ترقیاتی اخراجات 3.6 ٹریلین یوآن (497 ارب ڈالر) تک پہنچ گئے، جو سال بہ سال 8 فیصد اضافہ ہے۔ اس مجموعی رقم میں سے بنیادی تحقیق کے لیے مختص فنڈنگ آر اینڈ ڈی بجٹ کا 6.91 فیصد ہے، جو بنیادی سائنسی تحقیق میں بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری کی نشاندہی کرتی ہے۔دریں اثنا، 570 سے زیادہ چینی صنعتی کمپنیوں نے آر اینڈ ڈی سرمایہ کاری کے لحاظ سے عالمی سرفہرست 2500 کمپنیوں میں جگہ بنائی ہے.

چینی پالیسی سازوں کی دور اندیشی اور بروقت فیصلہ سازی کی وجہ سے اس وقت روبوٹکس اور مصنوعی ذہانت دوہرے انجن بن چکے ہیں جو عالمی ڈیجیٹل تبدیلی کے دور میں ملک کی معاشی اور سماجی ترقی کو آگے بڑھا رہے ہیں۔گزشتہ تین برسوں کے دوران چین نے صنعتی روبوٹس کی عالمی تنصیب میں نصف سے زیادہ حصہ لیا ہے ۔

مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ چین اپنے مضبوط اور جامع صنعتی ماحولیاتی نظام اور تکنیکی جدت طرازی سے خود فائدہ اٹھاتے ہوئے،دنیا کے ساتھ بھی اپنے مواقع کا شتراک کر رہا ہے۔ چین کا انوویشن پر مبنی بنیادی ڈھانچہ نہ صرف ابھرتی ہوئی صنعتوں کی ترقی کو تیز کر رہا ہے بلکہ مستقبل پر مبنی شعبوں کو فروغ دینے کے لئے ایک لچکدار بنیاد بھی فراہم کرتا ہے جس سے عالمی منڈیوں کی ازسرنو ترتیب میں بھی مدد ملے گی۔
 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1452 Articles with 737804 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More