سنگھ پریوار نے جب سے مریادہ پرشوتم رام کو شری رام بناکر
ایک جارح حکمراں کے طور پر پیش کرنا شروع کیا، رام نومی کے تہوار پر تشدد
کے واقعات کا رونما ہونا عام سی بات ہوگئی۔ ان ریاستوں میں یہ تشدد زیادہ
ہوتا ہے جہاں الیکشن قریب ہوں ۔ دہلی کا انتخاب ہو یا مدھیہ پردیش اور
گجرات سبھی الیکشن میں یہی کھیل ہوا۔ رام نومی پر کھرگون اورہمت نگر میں
تشدد کے بعد مسلمان گھروں اور دوکانوں پر بلڈوزر چلا کر ایم پی اور گجرات
میں جیت کی راہ ہموار کی گئی۔ اس سال ان دونوں ریاستوں میں رام نومی کا
تہوار پرامن طریقے پر گزر گیا مگر اترپردیش کے کانپور اور پریاگ راج میں
ہنگامہ کیا گیا تاکہ اگلے الیکشن کی سیاست چمکائی جائے۔ پریاگ راج میں تو
خیر روایتی طور پر ہندو مسلم تنازع پیدا کیا گیا مگر کانپور میں تو ہندو
تنظیمیں یوگی کی پولیس سے بھِڑ گئے ۔ اس لیے درندے کی سواری والی بات یاد
آگئی۔
چیتا سب سے تیز رفتار جانور ہے لیکن کسی کو اسے سواری کے لیے استعمال کرنے
کا خیال نہیں آیا کیونکہ کون جانے وہ کب اپنے سوار کو ہی اپنا ترنوالہ
بنالے؟ ملک کے ہندوتوا نوازوں نے اپنے کارکنان کو درندہ بناکر ان کو
مسلمانوں کا خون چٹا دیا ہے ۔ جنگل کے درندے بھوک لگنے پر ہندو مسلمان کی
تفریق نہیں کرتے اس لیے یہ درندے اپنے ہی سوار کو کب چٹ کرجائے کہنا مشکل
ہےکیونکہ اب ان آرزوئیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔ اس حقیقت کا مظاہرہ
ابھی حال میں رام نومی کے موقع پر کانپور میں ہوا۔ پہلے تو یوپی وزیر اعلیٰ
یوگی ادیتیہ ناتھ نے بڑے زور سے مسلمانوں کو دھمکی دے دی کہ سڑک نماز کے
لیے نہیں ہوتی اور انہیں ہندو سماج سے نظم ضبط سیکھنا چاہیے ۔ مسلمانوں کو
پروچن دینے والے یوگی کو ایک ہفتے کے اندر ہندووں نے رام نومی کے موقع پر
سبق سکھا دیا کہ سڑک تو شوبھا یاترا کے لیے ہوتی ہے۔ یہ جلوس چونکہ ہر روز
نہیں نکل سکتا اس لیے درمیان میں خالی پڑی سڑکوں کو گاڑیوں کی نقل و حرکت
کے لیے بھی استعمال کرلیا جاتا ہے۔
ہر سال رام نومی کے موقع پر کانپور کے راوت پور علاقے میں واقع 'رام للا
مندر' سے رام نومی کا جلوس نکالا جاتا ہے ۔ اس سال بھی ہندو تنظیمیں ڈی جے
کے ساتھ بڑے دھوم دھام سے جلوس نکالنے کی تیاریاں کررہی تھیں کہ جلوس سے
پہلے والی رات کو پولیس کمیٹیوں کے پاس پہنچی اور ہائی کورٹ کے حکم کا
حوالہ دےکر ڈی جے وغیرہ کو ضبط کر لیا ۔ مسلمانوں کے خلاف یوگی انتظامیہ کی
ایسی حرکتوں پر جو ہندو تنظیمیں بغلیں بجاتی تھیں وہ اس باربپھر گئیں اور
ہنگامہ برپا کر دیاکیونکہ خود ان پر بپتا آن پڑی تھی۔ ان لوگوں نے الزام
لگایا کہ دوپہر کے وقت پولیس نے دو دو کرکے چار ڈی جے کی اجازت دی تھی مگر
شام کو مکر گئی۔ انہوں نے دھمکی دی کہ وہ انتظامیہ کی اس زیادتی کے خلاف
احتجاج کریں گے اور جب تک اجازت نہیں ملتی جلوس نکالنے کے بجائے راستہ جام
کرکے دھرنا دیں گے۔ اس طرح پتہ چلا کہ سڑک ایک استعمال احتجاج کرنا بھی ہے۔
ڈبل انجن سرکار میں عام طور پر ہندو انتہاپسندوں کو اس کی ضرورت نہیں پیش
آتی مگر اس بار حاجت ہوئی تو یہ انکشاف بھی ہوگیا۔
ہندو تنظیموں کے عہدیداروں نے آگے چل کر محسوس کیا پولیس دباو میں نہیں
آرہی ہےتو رام نومی کا جلوس ملتوی کرنے کے بجائے نکالنے کا فیصلہ کیا
گیاکیونکہ ’یہ (تو)اندر کی بات (ہی ) ہے کہ (یوگی کی )پولیس ہمارے ساتھ
ہے‘۔ اس بار منتظمین کا یہ اندازہ غلط نکل گیا پولیس نے جلوس پر قانونی
کارروائی کی تو ہندو تنظیموں کے کارکن آپے سے باہر ہوگئے اور ان کا پولس
سے جھگڑا ہوگیا کیونکہ یہ بیچارے اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں ۔
انتظامیہ نے اس خوش فہمی کو دورکرنے کی کوشش کی تو جلوس میں شامل رام
بھگتوں ( کارکنان) نے سڑک روک کرکے احتجاج شروع کردیا۔ یہ انتہا پسند رام
نومی کا جلوس کسی عقیدت کے تحت تو نکالتے نہیں ہیں ۔ ان کا مقصد تو ڈی جے
پر مسلم مخالف اشتعال انگیز نغمے بجانا اور مسلمانوں کے خلاف فحش نعرے بازی
کرکے مشتعل کرنا ہوتا ہے تاکہ دنگا فساد کیا جاسکے۔ سرکار نے اسی سے محروم
کردیا تو رنگ میں بھنگ پڑگیا۔
یہی وجہ ہے کہ کئی کمیٹیوں اور ہندو تنظیموں کے عہدیدار وں نے سوشل میڈیا
میں اپنے غصے کا اظہار کیا اور انتظامیہ کو برا بھلا کہنے لگے۔ ان کو شکایت
تھی کہ مودی اور یوگی کے ہوتے ہوئے یہ سب کیوں ہورہا ہے؟ اس سوال کے اندر
ان کی توقعات پوشیدہ ہیں ۔ وہ کہنا چاہتے ہیں کہ ایودھیا میں رام مندر کی
تعمیر کے بعد ایک ہزار سال پرانی غلامی توختم ہوچکی ہے اس لیے ان پر یہ
پابندی کیوں؟ ان کے خیال میں یہ ساری پابندیاں تو غلاموں یا مسلمانوں پر
ہونی چاہئیں ۔ اس بلا اعلان ہندو راشٹر میں تو انہیں من مانی کرنےکی کھلی
چھوٹ ہونی چاہیے لیکن جب حکام نے ان کی یہ خوش فہمی دور کرنے کی کوشش کی تو
وہ آپے سے باہر ہوکر دھونس دھمکی پر اتر آئے ۔ اس بار ان کے ستارے گردش
میں تھے اس لیے انتظامیہ دباو میں نہیں آیا۔اس سے پہلے وی ایچ پی یا بی جے
پی کے وہ لوگ جن کے خلاف ایف آئی آر لکھی گئی ہے وزیر اعلیٰ سے گہار
لگاتے خود انتظامیہ نے اس معاملے کو سی ایم یوگی آدتیہ ناتھ تک لے جانے کا
اعلان کردیا ۔
یوگی کے تحت کام کرنے والے محکمۂ پولیس کااصرار ہے کہ ثبوت کی بنیاد پر
کارروائی کی جائے گی۔اس کے مطابق جلوس کے دوران خلل پیدا کرنے اور ہنگامہ
کرنے والوں کی سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعے شناخت کر لی گئی ہے۔ پولیس کے
پاس واقعے کی ویڈیوز بھی موجود ہیں۔ اے ڈی سی پی وجیندر دویدی کا الزام ہے
کہ رام نومی کے جلوس میں شامل کچھ لوگوں نے پولیس سے غیر ضروری طور پر
الجھنے کی کوشش کی تھی ۔ ان لوگوں نے سڑک بھی بلاک کردی تھی جس سے عام
لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسے واقعات میں ملوث 10 نامزد افراد
سمیت 200 نامعلوم افراد کے خلاف شہر کے مختلف مقامات پر ایف آئی آر درج کی
گئی ہے۔ ان سب کے خلاف یعنی بی جے پی کے کونسلر ، کارکنا ن اور آر ایس ایس
و وی ایچ پی کے ورکرس پر جلد ہی سخت کارروائی کی جائے گی۔ ایسا اگرہوجائے
تو ایک اچھی مثال قائم ہوگی۔
رام نومی کے موقع پر جو طوفانِ بدتمیزی برپا کیا جاتا ہے اس پر لگام لگانے
کی خاطر انتظامیہ کا یہ رویہ درست ہے۔ پولیس کی منطق صاف ہے کہ اگر
مسلمانوں کو سڑک پر رکاوٹ ڈالنے کی اجازت نہیں ہے تو رام نومی کے جلوس میں
شامل لوگوں کو بھی یہ آزادی نہیں ملے گی اور یہ بالکل معقول دلیل ہے۔
عدالتِ عظمیٰ سے آئے دن ملنے والی ڈانٹ پھٹکار کا بھی یہ مثبت اثر ہوسکتا
ہے۔ ایسا نہ کیا جائے تو یہ سماج دشمن عناصر کس حدتک جاسکتے ہیں اس کی ایک
مثال دوسال قبل( اپریل 2023) کو یوپی کے ہی آگرہ میں سامنے آئی تھی۔ اس
وقت امراجالا نامی معروف اخبار نے یہ سنسنی خیز انکشاف کیا تھا کہ ہندو
مہاسبھا کے عہدیداروں نے فرقہ وارانہ تشدد بھڑکانے کی غرض سے خود ہی گائے
ذبح کرا دی۔ اس کے بعد ان لوگوں نے گئو کشی کے ملزمان کی گرفتار کے لیے
ہنگامہ آرائی بھی کی۔ تاہم پولیس کو پتہ چلا کہ گئو کشی کے اس واقعہ میں
خود وہی لوگ ملوث تھے ۔
یہ معاملہ آگرہ کے اعتماد الدولہ تھانہ علاقہ میں واقع گوتم نگر کا تھا
جہاں گپھا کے نزدیک گئو کشی کی واردات انجام دی گئی۔ یوگی کی پولیس نےاس
سازش کے لیے اکھل بھارت ہندو مہاسبھا کے عہدیداراورقومی ترجمان سنجے جاٹ کو
کلیدی ملزم قرار دیا تھا ۔ اس کے علاوہ کچھ اور کارکنان کے اس سازش میں
شامل ہونے کا اعتراف کیا تھا۔ اس وقت اکھل بھارت ہندو مہاسبھا نے رام نومی
کے موقع پر گائے کا گوشت برآمد کرکے پہلے تو پورے علاقہ میں کشیدگی پھیلائی
اور اس کے بعد اعتماد الدولہ کے رہائشی رضوان، عالم گنج کے رہائشی مقیم،
ویجو اور لوہامنڈی کے شانو کو نامزد بھی کرا دیا تھا۔ اس شکایت کی بنیاد پر
عمران قریشی اور شانو کو گرفتار بھی کیا گیا جن کا گئو کشی سے کوئی تعلق
نہیں تھا۔۔ ڈی سی پی لائن سورج رائے نے تحقیقات کے بعد یہ حقائق پیش کیے۔
آگے چل کر اکھل بھارت ہندو مہاسبھا کے قومی ترجمان سنجے جاٹ نے انہیں
سازشاً پھنسا نے کا الزام لگایا اور مشتعل تحریک چلانے کے ساتھ وزیر اعلیٰ
سے ملاقات کی دھمکی دی لیکن سب ٹائیں ٹائیں فش ہوگیا۔ کانپورتنازع میں ایسا
زاویہ ایجاد کرنے کی گنجائش ہی نہیں نکلی۔ بی جے پی نے اپنے اقتدار کی خاطر
ہندوتوانوازوں کی توقعات اس قدر بڑھا دی ہے کہ اب ان کی نازبرداری اس کے
لیے وبال جان بنتی جارہی ہے اور بعید نہیں کہ بہت جلد یہ چیتا خود اپنی
سوار کو نگل جائے۔ ایسے میں سنگھ کو منہ چڑھانے والے ان دہشت گردوں پر منور
رانا کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
میاں میں شیر ہوں شیروں کی غراہٹ نہیں جاتی
میں لہجہ نرم بھی کر لوں تو جھنجھلاہٹ نہیں جاتی
|