پانی زندگی کیلئے بنیادی ضروریات میں وہ لازم ومزلوم
ضرورت ہے جس کا کوئی متبادل نہیں،دوسرے اوربہترالفاظ میں کہوں توپانی زندگی
ہے۔زمین پر موجود تمام جانداروں کی بقا کا دار و مدار پانی پر ہے۔پانی کے
بغیر زندگی کا تصور تک ناممکن ہے۔ تحقیق کے مطابق انسانی جسم میں تقریباً
60 فیصد پانی ہوتا ہے جو انسانی صحت کے لیے انتہائی ضروری ہے۔پانی کے بغیر
نباتات کاپیداہونا،پھلناپھولناممکن نہیں اورنباتات کے بغیربھی انسانی زندگی
کاباقی رہنا تقریباناممکن ہے ۔موسمیاتی تبدیلوں کے سبب دنیا کے مختلف
علاقوں جن میں پاکستان بھی شامل ہے میں پانی کی کمی سنگین مسئلہ بنتی جا
رہی ہے۔ پانی کی کمی نہ صرف انسانی زندگی کو متاثر کررہی ہے بلکہ ماحول اور
جانداروں کی بقا کیلئے بھی شدید خطرہ بنتی جارہی ہے۔ پانی کی کمی کی وجہ سے
زراعت متاثر ہو رہی ہے جس کے سبب خوراک کی پیداوار محدود ہوتی جارہی ہے۔
پانی کی قلت قحط اور غربت کی صورتحال پیدا کررہی ہے۔پانی کی کمی کی وجہ سے
دنیا کے مختلف خطوں میں پانی کے وسائل پر تنازعات بڑھ رہے ہیں جس کے نتیجے
میں سیاسی، سماجی اور اقتصادی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
ایک تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے بڑے آبی ذخائر میں پانی کم ترین سطح پر
پہنچ گیا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ سال 7 اپریل کو تربیلا، منگلا اور
چشمہ میں پانی کا ذخیرہ 8 لاکھ 88ہزار ایکڑ فٹ تھا جبکہ اس سال تین لاکھ
91ہزار ایکڑ فٹ ہے،صرف ایک سال میں آبی ذخائر میں 55 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
اعداد و شمارظاہرکرتے ہیں کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ آبی بحران سنگین صورت
اختیار کرتا جا رہا ہے، آئندہ برسوں میں معاشی استحکام اور انسانی زندگی کے
ساتھ ساتھ حیوانات اورنباتات کی بقا کیلئے بھی سنگین خطرہ پیداہوسکتا ہے۔
پانی کی کمی کے فوری اثرات زرعی شعبے اور روزمرہ زندگی پر محسوس کیے جا رہے
ہیں۔ پانی کی کمی کے باعث فصلوں کی پیداوار میں کمی، خوراک کی قیمتوں میں
اضافہ،غذائی قلت، زرعی برآمدات میں گراوٹ اور دیہی معیشت کی تباہی کے خطرات
بڑھ گئے ہیں۔
دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم پر حکومتی اتحادی جماعتوں پاکستان پیپلزپارٹی
اورپاکستان مسلم لیگ نوازکے درمیان اختلافات سامنے آرہے ہیں۔کیاہی
اچھاہوجوپاکستان پیپلزپارٹی اورپاکستان مسلم لیگ نوازمل بیٹھ کرنہ صرف
دستیاب پانی کی تقسیم ضرورت کے مطابق ممکن بنائیں بلکہ آبی قلت کی وجہ سے
ہونے والے نقصانات سے بچاؤ،پانی کے ذخائرمیں اضافے کے ساتھ ساتھ پانی
کومحفوظ بنانے کیلئے جامع اوردیرپامنصوبہ بندی پراتفاق رائے قائم کریں۔
نہ صرف حکمران بلکہ اپوزیشن جماعتوں اورپوری قوم کوسمجھ لیناچاہیے کہ پانی
کی قلت کسی ایک جماعت یافردکانہیں بلکہ پوری قوم کامسئلہ ہے
پاکستان میں آبی ذخائر کی کمی اور خشک سالی ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے جو
ملکی معیشت، زراعت اور ماحولیاتی توازن پر گہرے اثرات مرتب کر رہا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بارشوں کے پیٹرن میں غیر متوقع تبدیلیاں آ رہی
ہیں۔ جہاں کچھ علاقے زیادہ بارشوں کا سامنا کر رہے ہیں، وہیں کچھ علاقے
شدید خشک سالی کی زد میں ہیں۔مسلسل آبی ذخائر کی سطح کم ہو رہی ہے۔پاکستان
میں آبی ذخائر کا بیشتر حصہ زراعت میں استعمال ہوتا ہے،پاکستان میں آبپاشی
کا نظام بہت پرانا اور غیر موثر ہے جس کی وجہ سے بڑی مقدار میں پانی ضائع
ہو جاتا ہے ۔
پاکستان کا بڑا حصہ دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں پر انحصار کرتا ہے،
بھارت کے ساتھ آبی تنازعات اور بین الاقوامی معاہدوں کی وجہ سے بھی پاکستان
کو پانی کی کمی کا سامنا ہے۔پاکستان کے مختلف حصوں میں پانی کی قلت مختلف
وجوہات کی بنا پر پیدا ہو رہی ہے، جن میں زیادہ آبادی، غیر متوازن پانی کی
تقسیم اور پانی کے ضیاع جیسے مسائل شامل ہیں۔
پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے عالمی سطح پر تعاون
بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ پانی کی بچت کے لیے جدید تکنیکوں کا
استعمال اور پانی کی صفائی کے عمل کو بہتر بنانا ضروری ہے۔آبپاشی کے نظام
کو جدید بنایاجائے اورپانی کا قطرہ قطرہ ضائع ہونے سے بچایاجائے، کسانوں کو
جدید طریقوں کے بارے میں تربیت دینے سے پانی کے استعمال میں کمی لائی جا
سکتی ہے۔پاکستان میں چھوٹے،بڑے آبی ذخائر کی فوری اورتیزترین تعمیر کی
ضرورت ہے تاکہ پانی کو ذخیرہ کیا جا سکے اور خشک سالی کے دوران اس پانی کو
استعمال کیا جا سکے۔ پانی کی تقسیم کے نظام کو منصفانہ اورغیرمتنازعہ بنانے
کی ضرورت ہے تاکہ تمام علاقوں کو یکساں پانی کی فراہمی ممکن ہو سکے۔ اس کے
لیے ریاستی سطح پر جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
آبی قلت کے حوالے سے پیداہونے والی صورتحال کسی ایک صوبے ،کسی ایک جماعت
یاصرف حکومت کانہیں بلکہ پوری قوم کامشترکہ مسئلہ ہے لہٰذابہترہوگاکہ
دریاسندھ سے نئی نہریں نکالنے کے معاملے کومتنازعہ بنانے کی بجائے پانی کی
کمی کوپوراکرنے پرتوجہ مرکوزکی جائے اوراس مسئلے سے سیاست اورمخالفت برائے
مخالفت کودوررکھاجائے !
|